فرحت اللہ بیگ نے اردو میں شخصی خاکے لکھنے کی جو بنیاد ڈالی، وہ آج تک آتے آتے کئی منزلہ عمارت بن چکی ہے۔ اس وقت ہم وہ تمام نام تو نہیں گنوا سکتے جنہوں نے مولوی عبدالحق سے لے آج تک شخصی خاکے لکھے ہیں‘ لیکن حال ہی میں جو خاکے بہت مقبول ہوئے، اور جنہیں ہم نے بہت شوق سے پڑھا، ان میں سب سے زیادہ خاکے ڈاکٹر اسلم فرخی کے ہیں۔ کیا خوب خاکے لکھے ہیں انہوں نے۔ جس شخص کا بھی خاکہ انہوں نے لکھا آپ اس شخص کو ہی اپنے سامنے چلتا پھرتا نہیں دیکھتے بلکہ آپ اس زبان اور اس اندازِ بیان سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں جو اس شخص کی قلمی تصویر کھینچنے کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ آخری عمر میں انہوں نے یہی کام کیا‘ اور ان شخصیات کو زندۂ جاوید کر دیا‘ جنہیں انہوں نے اپنے خاکوں کے لیے منتخب کیا۔ اردو کے منفرد افسانہ نگار نیر مسعود نے بھی چند خاکے لکھے ہیں‘ جو ایک مختصر سے مجموعے میں چھپے ہیں‘ لیکن ان خاکوں میں ان کے افسانوں کا چسکا نہیں ہے۔ پچھلے چند برسوں میں جن دوسرے لکھنے والوں نے ایسے خاکے لکھے ان میں عرفان جاوید اور یونس جاوید کا نام ہمیں یاد آ رہا ہے۔
عرفان جاوید نے افسانہ نگاری سے اپنے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے خاکہ نگاری کو اپنا لیا۔ عرفان جاوید کے خاکوں کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں؛ البتہ ان کے خاکوں میں چند معروف شخصیات کے انٹرویو بھی شامل ہیں۔ اب انٹرویو کو ہم خاکہ کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ ہمارے جید نقاد ہی بتا سکتے ہیں۔ بہرحال، عرفان جاوید کے خاکوں میں ہمیں ان کا وہ خاکہ بہت پسند آیا جو انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں لکھا ہے۔ یونس جاوید خاکہ لکھتے ہیں تو اس کی پروا نہیں کرتے کہ ان سے کوئی ناراض بھی ہو جائے گا؛ چنانچہ ایک خاکے پر وہ کچھ لوگوںکو ناراض بھی کر چکے ہیں۔ ان کا تازہ ترین خاکہ انور سجاد پر ہے۔ یہ خاکہ انور سجاد کی وفات کے بعد لکھا گیا ہے۔ اس خاکے میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو صرف یونس جاوید ہی جانتے ہیں۔ اب یہاں ہم ایک اور لکھنے والے کو تو بھولے ہی جا رہے ہیں۔ یہ ہیں اصغر ندیم سید۔ ان کا تازہ ترین خاکہ جدید اردو شاعری کے بہت بڑے نام عبدالرشید پر ہے۔ یہ خاکہ بھی عبدالرشید کے انتقال کے بعد لکھا گیا ہے۔ عبدالرشید جدید اردو نظم کے ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے بہت کم لکھا لیکن بہت اچھا لکھا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ جدید نظم میں انہوں نے اپنی انفرادیت منوائی۔ یہ اور بات ہے کہ اردو شاعری پڑھنے والے انہیں زیادہ نہیں جانتے۔ اور ہاں، سلمیٰ اعوان نے بھی تو ایسے خاکے لکھے ہیں۔ یہ الگ معاملہ کہ ان میں زیادہ تر بیرونی شاعروں اور ناول نگاروں کے ہیں۔ ان کا اصل شوق سفرنامہ نگاری ہے۔ اب یہاں پھر ہم ان خاکہ نگاروں سے معافی کے خواست گار ہیں جن کے نام ہم بھول گئے ہیں۔
لیکن ہم نے عرض کیا ناں کہ اصل خاکہ نگاری یہ ہے کہ آپ اس شخصیت کو بھی اپنے سامنے چلتا پھرتا دیکھیں جو لکھنے والا آپ کے سامنے لانا چاہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی زبان و بیان کے مزے بھی لیں۔ زبان کا یہ تخلیقی استعمال ہی ہے جو آپ کو ان شخصیات کے خاکے پڑھنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے‘ جنہیں آپ بالکل نہیں جانتے۔ یہ خاکے آپ اس لیے پڑھتے ہیں کہ لکھنے والے یا لکھنے والی کی چٹ پٹی زبان آپ کو وہ خاکہ پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ایسے ہی خاکوں کا ایک مجموعہ ہمارے سامنے ہے۔ اس کا نام ہے ”چشمِ حیراں‘‘۔ اور اس کی لکھنے والی ہیں پروفیسر نوشابہ صدیقی۔ رسالہ مکالمہ کے ایڈیٹر مبین مرزا نے ہمیں یہ کتاب بھیجی تو ہم نے اسے سرسری دیکھا اور رکھ دیا۔ ہمیں یاد آئی وہ نظم جو بہت پہلے انگلستان سے چھپنے والے رسالے Encounter میں چھپی تھی۔ یہ اس رسالے کے ایک ایڈیٹر کی طنزیہ نظم تھی۔ نظم میں کہا گیا تھا کہ ”ایک منٹ میں اتنے پروفیسر پیدا ہوتے ہیں۔ اور وہ پروفیسر اتنے منٹ میں اتنی نظمیں لکھ لیتے ہیں۔ اور وہ نظمیں ہمیں شائع کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں (اس رسالے کے ایڈیٹر کو بہت بعد میں پتا چلا تھا کہ امریکی سی آئی اے اسے مالی امداد فراہم کرتی ہے) اس رسالے کے مدیر اعلیٰ تھے اسٹیفن اسپینڈر۔ ہم نے بھی پروفیسر نوشابہ صدیقی کی یہ کتاب دیکھی اور رکھ دی کہ اسے کیا پڑھنا۔ لیکن بیٹھے بیٹھے یونہی اس کے ورق پلٹنا شروع کیے تو پہلے خاکے نے ہی ہمیں پکڑ لیا۔ یہ خاکہ جمیل جالبی کا ہے۔ پڑھنا شروع کیا تو پڑھتے ہی چلے گئے۔ جمیل جالبی، حسن مثنی ندوی، انجم اعظمی، ابراہیم جلیس، شفیع عقیل، جوش ملیح آ بادی، مشتاق احمد یوسفی، مصطفیٰ خان، حسنین کاظمی، عصمت چغتائی، سر سلطان آغا خان، مختار مسعود، حسن اختر، انور شعور، نجم الحسن رضوی، طلعت اشارت اور صغیر افراہیم یہاں سب موجود ہیں۔ اور ہم پروفیسر صاحبہ کی نظر سے انہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم صرف ان شخصیتوں کی قلمی تصویروں سے ہی لطف نہیں لے رہے تھے بلکہ ہم میٹھی میٹھی اور چٹخارے دار زبان کا مزہ بھی لے رہے تھے۔ اب ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ ان میں کئی خاکے ایسے ہیں جو کلاسیکی خاکہ نگاری کی تعریف میں نہیں آتے۔ یہ سیدھی سادی رپورٹنگ ہے یا کسی واقعے کا ذکر۔ لیکن ہم خاکہ نہیں پڑھ رہے تھے، بلکہ اچھی زبان پڑھ رہے تھے۔ اوراچھی زبان ہماری کمزوری ہے؛ البتہ ان خاکوں میں جو بات ہمیں کھٹکی، وہ ”میں‘‘ کا بے محابہ استعمال ہے۔ یہ کمزوری کئی دوسرے خاکہ نگاروں کے ہاں بھی نظر آتی ہے۔ یہاں بھی میں اور میری اپنی کہانی کچھ اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ایک خاکے کے بعد دوسرے خاکے میں یہ بار بار پڑھنے کو ملتا ہے۔ مگر ہم تو زبان کے چسکے لے رہے تھے، اس لئے روانی میں پڑھتے ہی چلے گئے۔
معلوم ہوا کہ پروفیسر نوشابہ صدیقی کا تو خاندان ہی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے دادا مولوی ابوالحسن اور والد حسن عبداللہ کا قریبی تعلق علی گڑھ سے تھا۔ یہ تعلق ایم اے او کالج سے ضیاالدین احمد تک پھیلا ہوا تھا۔ مولوی ابوالحسن ایم اے او کالج کے اسسٹنٹ سیکرٹری رہے تھے۔ انہوں نے نواب محسن الملک اور نواب وقارالملک کے ساتھ کام کیا تھا۔ ڈاکٹر ضیاالدین جب وائس چانسلر تھے تو وہ یونیورسٹی کورٹ اور ایگزیکٹو کونسل کے رکن رہے تھے۔ رشید احمد صدیقی نے حسن عبداللہ پر مضمون بھی لکھا ہے۔ یہ مضمون رشید احمد صدیقی کی کتاب ”گنج ہائے گراں مایہ‘‘ میں شامل ہے۔ خاکوں کی اس کتاب میں پروفیسر نوشابہ صدیقی نے سر سید احمد خان کے نام دو خط بھی لکھے ہیں۔ ان خطوں میں انہوں نے اپنے خاندان کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور علی گڑھ یونیورسٹی کے بارے میں اپنی یادیں بھی لکھی ہیں۔ یوں تو ہمارے پسندیدہ شاعر انور شعور کے بارے میں ان کی اپنی صاحبزادی نے جو مضمون لکھا ہے اس کا کوئی جواب نہیں (یہ مضمون انجمن ترقیٔ اردو کے رسالے ”قومی زبان‘‘ میں شائع ہوا ہے) لیکن نوشابہ صدیقی صاحبہ نے ان کے بارے میں جو لکھا ہے وہ آپ بھی پڑھ لیجئے۔
”وہ میرے دروازے پر کھڑا دستک دے رہا تھا۔ ان دنوں کم گھروں میں کال بیل ہوا کرتی تھی۔ سوچتی ہوں گھنٹی کی آواز میں وہ اپنائیت کہاں جو دستک میں ہوا کرتی تھی۔ دوڑی دوڑی دروازے تک گئی۔ تب انور شعور کو کھڑا پایا۔ خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ”آ جائو‘‘ میں نے خوشی سے زیادہ جوش کے ساتھ آواز دی۔ انور شعور اپنی جگہ کھڑے ہی رہے۔ مجھے اوپر سے نیچے بغور دیکھا۔ ایسے جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اور نظر جھکائے جھکائے کہا ”غلط آ گیا۔ معاف کرنا۔ پھر آئوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے مڑے اور سیدھے گلی میں چلتے چلے گئے… اس کی اٹھتی نظریں۔ اس کی جھکتی نظریں۔ پھر اعتراف کرنا کہ میں غلط آ گیا، پھر پلٹ جانا۔ مڑ کر بھی نہ دیکھنا۔ اس بے ہوشی اور بدحواسی میں بھی اپنی بچپن کی دوست، اس کی دوستی، لمبی گزری ہوئی رفاقت کا اس نے کس قدر احترام کیا۔ انور شعور تو معصوم سا ایک بچہ ہے۔ اس نے اپنا قد ایک دو فٹ اور بلند ضرور کر لیا ہے۔ لیکن اس کے اندر اب بھی ایک سچا پکا چھوٹا سا بچہ بیٹھا ہوا ہے‘‘۔ اب انور شعور کا ایک شعر
وہ مجھے ایسے ملا جیسے ملا کوئی نہیں
میں نے پوچھا کون ہے اس نے کہا کوئی نہیں
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)