اسلام آباد : چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے توہین رسالت کے الزام میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست کی دو سال بعد سماعت کی جس میں فریقین سے سوالات کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔بی بی سی کے مطابق خصوصی بینچ کے سامنے دوپہر میں شروع ہونے والی سماعت تقریباً تین گھنٹے جاری رہی جس میں پہلے آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک سے سوالات کیے گئے۔وکیل صفائی سیف الملوک نے بتایا کہ جون 2009 میں پیش آنے والے واقعے میں آسیہ بی بی اور دو مسلم خواتین میں مباحثہ ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آسیہ بی بی کے برتن سے پانی پینے سے انکار کردیا تھا، تاہم مسلم خواتین کے بیانات میں تضاد ہے۔اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ آپ نے ان تضادات پر جرح کیوں نہ کی۔آسیہ بی بی کے وکیل نے کہا کہ گواہوں نے آسیہ بی بی کے مبینہ توہین رسالت کے بیان پرگواہی نہیں دی بلکہ فالسے کے کھیت میں پیش آنے والا واقعہ بیان کیا۔انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد نے واقعہ پولیس میں درج کرایا جبکہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ نے توہین مذہب کا اقرار کیا۔ وکیل صفائی نے کہا کہ ڈی سی او، ڈی پی او سے ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت نہیں لی گئی۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی گواہ امام مسجد براہ راست گواہ نہیں کیونکہ ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی کہا کہ امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن وہ مکان بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال اٹھایا کہ ایسا کیا ہوا کہ جھگڑا بھی آپ کے ساتھ ہوا، سخت الفاظ بھی آپ کے خلاف استعمال ہوئے اور پھر مقدمہ بھی آپ کے خلاف ہی بنایا گیا۔وکیل صفائی سیف الملوک نے کہا کہ واقعے کی تفتیش ناقص اور بدنیتی پر مبنی تھی۔دوسری جانب مقدمہ دائر کرنے والے قاری سلام کے وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ آسیہ بی بی نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے جس کا انھوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے کیسز کو بین الاقوامی شہرت ملتی ہے۔وکیل استغاثہ نے متعدد بار توہین رسالت کے بارے میں مذہبی حوالے دینے کی اجازت طلب کی لیکن عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے انھیں مقدمے کی شہادتوں کی صحت کے بارے میں ثبوت پیش کرنے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے بیانات میں بہت تضاد ہے۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر میڈیا میں تبصرے نہیں ہونے چاہیئں۔وکیل استغاثہ چوہدری غلام مصطفیٰ نے سماعت کے بعد بی بی سی کو بتایا کہ ہم نے اپنا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔ اس سوال پر کہ اگر فیصلہ اُنکے خلاف آیا تو اس صورت میں ان کا اگلا قدم کیا ہوگا، جس پر اُنکا کہنا تھا کہ وہ تمام قانونی راستے استعمال کریں گے۔آسیہ بی بی کے خلاف جون 2009 میں توہین رسالت کے الزام میں درج مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے اور اگلے برس سنہ 2010 میں انھیں اس مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔اکتوبر 2016 میں مجرمہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں آخری دفعہ سنی گئی تھی لیکن اُس تین رکنی بینچ کے ممبر جج اقبال حمید الرحمن نے کہا کہ کیونکہ وہ ماضی میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور آسیہ بی بی کا مقدمہ بھی اسی سے منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی پر جون 2009 میں توہین رسالت کی شق -C295 کے تحت الزام لگا تھا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف ’تین توہین آمیز‘ کلمات کہے تھے۔استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کی تھی اور معافی طلب کی تھی۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ