لاہور : پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ صرف اور صرف جمہوریت کے استحکام اور اس کی ترویج و ترقی سے کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کے لیے سب ملکی اداروں کو اپنا اپنا کردار آئین پاکستان میں متعین کردہ حدود و قیود کے دائرہ کار میں رہ کر ادا کرنا ہوگا، کسی بھی ایک ادارے کوبے توقیر کرنا وطن عزیز اور ا داروں کے لیے سود مند نہیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے سنیئر صحافی و کالم نگار اور تجزیہ نگار انور عباس انور کی کتاب ”خاص لوگ“ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سنیئر صحافی وکالم نگار محمد سعید اظہر نے کہا کہ پیپلز پارٹی اب وہ پیپلز پارٹی نہیں رہی جس کا علم ذوالفقار علی بھٹو لیکر میدان میں نکلے تھے۔ اور بے نظیر بھٹو نے اسے کسی حد تک بلند رکھا۔ آج کی پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت کو بے توقیر سمجھنے والوں کی زبان بول رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انور عباس انور نے قوم میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور قوم میں شعور کو اجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ ایک ہفت روزہ ” خاص لوگ “ کا اجراءکیا۔انہوں نے کہا کہ انور عباس انور نے نامساعد حالات میں بھی اپنے قلم کی حرمت کو مقدم رکھا اور صاف ستھری صحافت کو قائم کر کے دکھایا، اس لیے آج تک کوئی ادارہ یا حکومت ان کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکا۔ ”خاص لوگ“ انکی پہلی کتاب کو اپنے مضامین کے تنوع اور تحریر کی روانی اور شگفتگی کے باعث بڑی پذیرائی مل رہی ہے، یہ کتاب ہر نوجوان صحافی اور ہر سیاسی کارکن کوبھی پڑھنی چاہیے۔سنیئر صحافی فرخ سعید خواجہ نے کہا کہ انور عباس انور دہائیوں سے صحافت کے میدان میں موجود ہے اور اس ملک میں سچ لکھنے ، سچ کہنے کی ناپید ہوتی جا رہی صحافت کو قائم رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ انور عباس انور ایک درویش منش صحافی ہے جو ہر پاکستانی کی طرح اس ملک میں استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا انور عباس انور جیسا آج سے تیس سال قبل تھا آج بھی ویسا ہی ہے،” ذاتی زندگی کو پرتعیش بنانے والا کوئی ایک کام بھی اسکی صحافتی زندگی میں موجود نہیں۔فرخ سعید خواجہ نے حاضرین تقریب کو بتایا کہ نامساعد حالات کا انور عباس انور نے خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور اپنی خودداری اور عزت نفس کو مجروح کرنا گوارا نہیں کیا۔قمر الزمان بھٹی نے کہا انور عباس انور نے ملک کے طبقاتی نظام کے خاتمے اور انصاف پر مبنی نظام لانے کے لیے چلائی گئی تحاریک میں بھی حصہ لیا اور آزادی صحافت و بحالی جمہوریت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ان کے کالم بنا کسی لگی لپٹی کے بغیر ہوتے ہیں۔ ملک کے اندورنی مسائل سے لے کر بین الااقوا می سطح پر ان کی گہری نظر ہے اور یہ حکومت و اپوزیشن دونوں کو ملکی و قومی مفاد پر مبنی مشورے دیتے ہیں۔
سنیئر صحافی اور انور عباس انور کے درینہ ساتھی شہباز انور خان نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ انور عباس انور سے انکا تعلق اور شناسائی برسوں نہیں عشروں پر محیط ہے ہم دونوں عالمی شہرت یافتہ صحافی پیام شاہجہانپوری کی زیرادارت شائع ہونے والے ”تقاضے “میں لکھا کرتے تھے یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم احمد ندیم قاسمی، شفقت تنویر مرزا، اظہر جاوید ، ظہیر بابر، حمید جہلمی، منوبھائی وحید عثمانی اور اسلم کشمیری جیسے کہنہ مشق صحافیوں ،ادیبوں کے قافلے میں شامل ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اور انور عباس انور کے درمیان بہت سے دوسری قدر مشترک چیزوں میں ایک اسٹبلشمنٹ اور فوج کے سیاسی کردار کے خلاف ہونا تھی اور ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ انور عبا س انور اس وقت بھی بھولا بھالا، سیدھا سادہ اور نیم پینڈو اور نیم شہری ہوا کرتا تھا۔ لیکن جس طرح دیکھنے میں موصوف شریف اور موجودہ حلیے، ڈیل ڈول کے ساتھ بڑا بزرگ نظر آتا ہے ،ویسا حقیقی طور پر ہے نہیں، انور عباس انور کے متعلق ان کی رائے یہ ہے یہ بڑا سوجھ رکھنے والا ،زیرک،معاملہ فہم، ہوشمند شخص بہت متحرک اور چوکنا صحافی ہے۔اسلام آباد سے آئے ہوئے صحافی و کالم نگار اور بزم شوری انٹرنیشنل کے چیئرمین سلطان محمودشاہین نے اپنے خطاب میں کہا کہ بحثیت انسان ”خاص لوگ“ کے مصنف سے فرشتوں جیسے کالموں کی توقع رکھنا سچائی سے روگردانی ہوگی،ان کی کاوش دنیا کے لیے ایک گرانقدر سرمایہ ہے۔فن کالم نگاری میں ماہرانہ وژن رکھتے ہیں ۔الفاظ کے چناﺅ اور موضوع کے مطابق واقعے کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔سابق رکن پنجاب اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے راہنما ڈاکٹر ضیا اللہ بنگش نے کتاب میں شامل کالموں کو موضوع کے اعتبار سے سراہا اور کہا کہ نوجوان صحافیوں کے لیے یہ کتاب گرانقدر سرمایہ کی حثیت رکھتی ہے۔ نوجوان صحافیوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انور عباس انور ہمارے ضیا الحقی آمریت کے ایام کا ساتھی ہے، جمہوریت کی بحالی اور آزادی صحافت کے لیے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔معروف دانشور ،مصنف اورکالم نگار استاد اکرم شیخ نے کہا کہ ان کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند ہے، ان کے قول فعل میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ انور عباس انور اپنی سوچ ،نظریات ،اپنی فکر اور کمٹمنٹ میں ہماری طرح واضح ہے۔اسے پورا علم ہے کہ اسے کیا لکھنا ہے اور کس طرف کھڑے ہونا ہے۔
دیگرمقررین نے کہا کہ مصنف نے درد ِ دل سے حکمرانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے اور طاقتور اداروں کو سمجھانے کی سعی کی ہے کہ ملک کی بقا آئین کی پاسداری میں ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوے حمید احمد نے کہا کہ انور عباس انورسے انہوں نے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور میرے اوپر ان کی چھاپ ہے ۔ انہوں نے صحافت میں بہت اعلیٰ معیار قائم کیے۔ وہ بہت اچھا لکھتے ہیں اور بہت اچھا بولتے ہیں قوم کو انکی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مصنف نے احکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے غلط کاموں پر تنقید بھی کی ہے اور انکی رہنمائی بھی کی ہے، انہوں نے مسائل کی نشاندھی کی ہے تو اسکا حل بھی بتایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ”خاص لوگ“ کی تحریر وں میں اعلی پا ئے کا طنزاور مزاح بھی ملتا ہے۔ تقریب کے صدر روزنامہ فرنٹیر پوسٹ کے ایڈیٹر حیدر جاوید سید نے کہا کہ” انور عباس انور عالم جوانی میں سیدھا سادہ کامریڈ صحافی تھا، خیر کامریڈ تووہ اب بھی ہے لیکن ظاہری وضع سے ایسا لگتا ہے ” مفتی صحافت ہو“ حالانکہ یہ سچا سچا محنت کش صحافی ہے، تحقیقی رپورٹنگ ،سیاسی تجزئیوں اور کالم نگاری کے میدانوں میں انہوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر جوہر دکھائے۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، انہوں نے کہا کہ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ کتاب شائع کرنے کی بجائے میرے ساتھ ملکر کسی دارالعلوم کی بنیاد رکھ لیتے ہیں یہ دھندہ کتاب شائع کرنے سے کہیں زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔انہوں نے کہا کہ انور عباس انور یاروں کا یار ہے۔ تقریب میں قلم کاروں، سیاسی کارکنوں،اور نوجوانوں صحافیوں ، خواتین اور مصنف کے اہل خانہ نے شرکت کی۔
فیس بک کمینٹ