ریاض : آج سعودی تاریخ کا ایک بڑا دن ہے۔ دارالحکومت ریاض سمیت مختلف شہروں میں ہر عورت نہ صرف اپنی گاڑی لے کر باہر آنے کا حق حاصل کر چکی ہے بلکہ وہ اب ایک ڈرائیور کی حیثیت سے یہ پیشہ بھی اپنا رہی ہے۔سعودی عرب کے مقامی وقت کے مطابق شب بارہ بج کر ایک منٹ پر یعنی کیلنڈر پر 24 جون آتے ہیں خواتین پر کئی دہائیوں سے عائد پابندی ختم ہو گئی۔ریاض اور جدہ سمیت مختلف شہروں میں سعودی خواتین اور نوجوان لڑکیوں نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اپنی تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اپ لوڈ کیں اور خوشی کا اظہار کیا۔لیکن اس پابندی کے ختم ہونے سے ایک ماہ قبل ہی ڈرائیونگ کا حق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی سماجی کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا۔بی بی سی سے گفتگو میں ایمنیٹسی انٹرنیشنل کی مشرق وسطی میں ڈائریکٹر سماح حدید نے کہا ابھی تک باوجود کوششوں کے ان خواتین تک رسائی کی اجازت نہیں مل سکی۔انھوں نے کہا کہ ’اس وقت سعودی عرب میں خوف کی فضا ہے جہاں لوگ بولنے سے خوفزدہ ہیں۔ بہت سی کارکنان خاموشی کو ترجیح دے رہی ہیں۔۔۔۔ ہم ان خواتین کے بارے میں درست طور پر نہیں جانتے کہ انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔ ہم حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کارکنان کو فوری طور پر بلا کسی شرط کے رہا کریں۔‘ہم جب سعودی عرب کی بات کرتے ہیں تو وہاں کے سخت اسلامی قوانین کی بات کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر چوری کی تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ منشیات کی سمگلنگ کی تو سر قلم ہوگا وغیرہ وغیرہ۔یہاں یہ باعث حیرت ہے کہ اس ملک کے کسی قانون میں یہ کہیں نہیں لکھا گیا کہ عورت ڈرائیونگ نہیں کر سکتی لیکن پھر بھی دہائیوں تک عوامی مقامات پر کسی عورت کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ملی۔
فیس بک کمینٹ