پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں واقع نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی چھت پر لاوارث انسانی لاشیں ملنے کے واقعے پر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔
وزیراعلی پنجاب کے مشیر طارق زمان گجر نے لاشیں ملنے کی شکایت پر معائنے کے لیے نشتر ہسپتال کا دورہ کیا، جہاں لاوارث لاشیں چھت پر پائی گئیں، جنہیں چیل کوؤں نے نوچا ہوا تھا۔
اس معاملے پر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ترجمان ڈاکٹر سجاد مسعود کا کہنا تھا کہ یہ لاشیں خود چھت پر رکھی گئی تھیں اور شعبہ اناٹومی کے طلبہ تجربات کے لیے انسانی ہڈیوں کا استعمال کرتے ہیں، لہذا یہ معمول کی بات ہے اور اس پر تنازع نہیں کھڑا کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر سجاد مسعود نے بتایا کہ ’نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی چھت پر لاوارث لاشوں کی تعداد چار تھی۔ قدرتی طور پر خشک کی گئی انسانی لاشیں طلبہ کی پڑھائی کے لیے تجربات میں استعمال ہوتی ہیں۔‘
ڈاکٹر سجاد نے بتایا کہ لاشوں کے بارے میں پہلے سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) ملتان کو اطلاع دی گئی تھی اور تجربات کے بعد لاشوں کی تدفین کے لیے بھی پولیس کو مراسلہ بھجوایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا: ’لاشوں کو چھت پر جالی سے بند کمروں میں رکھا جاتا ہے اور ٹیچنگ مقاصد کے لیے ان سے ہڈیوں کا حصول بھی قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔ بعدازاں ان لاوارث لاشوں کی محکمہ داخلہ کے ایس او پیز کے مطابق متعلقہ پولیس سٹیشن کے ذریعے تدفین کروائی جاتی ہے۔‘
ترجمان نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے شعبہ اناٹومی کی سربراہ ڈاکٹر مریم اشرف نے بھی وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کو تحریری جواب میں بتایا تھا کہ پولیس کی جانب سے پوسٹ مارٹم کے لیے لائی گئی لاوارث لاشوں کو سرد خانے میں رکھنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ لاشوں کی حالت اس قدر خراب ہوتی ہے کہ انہیں ٹیچنگ کے مقاصد کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا، طبی اصطلاح میں پیوٹریفیکیشن کا عمل مکمل کرنے کے لیے لاشوں کو چھت پر رکھا جاتا ہے اور یہ عمل مکمل ہونے کے بعد لاش کی ہڈیوں کو طلبہ و طالبات کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ہڈیاں نکالنے کے بعد لاشوں کی ایس او پیز کے مطابق تدفین کی جاتی ہے۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے کارروائی کا حکم
وزیراعلی پنجاب کے مشیر طارق زمان گجر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے دو دن پہلے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کا دورہ کیا تو انہیں اطلاع ملی کہ چھت پر لاوارث لاشوں کو تجربات کے بعد ایسے ہی پھینک دیا جاتا ہے، جس سے انسانی لاشوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور چیل کوے انہیں نوچتے ہیں۔‘
طارق زمان گجر کے بقول: ’یہ ساری صورت حال میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ چار لاشیں چھت پر جبکہ 25 لاشیں ایک کباڑ خانے میں پڑی گل سڑ رہی تھیں۔‘
بقول مشیر وزیراعلیٰ: ’میں نے انتظامیہ سے دریافت کیا کہ انسانیت کی یہ توہین کیوں کی جا رہی ہے تو مجھے یہ بتایا گیا یہ شعبہ اناٹومی میں زیر تعلیم طلبہ کو تجربات کروانےکے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔‘
طارق گجر نے مزید کہا: ’مان لیا کہ یہ لاشیں تجربات کے لیے استعمال ہوتی ہیں لیکن استعمال کے بعد ان کی تدفین ہماری اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ اگر ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں مہندی لگی ہوئی تھی تو عملے کے ذریعے لاشوں کی تدفین کروائی جاسکتی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے معاملہ اٹھایا تو انہوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے سیکریٹری ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن سے رپورٹ طلب کرکے لاشوں کی موجودگی کے واقعے کی انکوائری اور ذمہ دار عملے کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا ہے۔
دوسری جانب قائم مقام وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی نے تین رکنی انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے، جو تحقیقات کے بعد رپورٹ پیش کرے گی اور اس کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔
نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی چھت سے لاوارث لاشیں ملنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ 20 سالوں سے مختلف ادوار میں اس طرح چھت سے لاوارث لاشیں ملتی ہیں، ان کی انکوائری بھی ہوتی ہے لیکن یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔
دریں اثناء ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت سے درجنوں لاوارث لاشیں ملنے کے واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر زیر گردش خبروں کے مطابق نشتر اسپتال کی چھت سے سیکڑوں کی تعداد میں انسانی لاشوں کے اعضا برآمد ہوئے ہیں تاہم تعداد کے حوالے سے حکومتی سطح پر کسی قسم کی تصدیق یا تردید تاحال سامنے نہیں آسکی ہے۔
سیکرٹری ہیلتھ ساؤتھ پنجاب نے معاملے کی انکوائری کے لیے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، کمیٹی 3 روز میں اپنی رپورٹ سیکرٹری ہیلتھ ساؤتھ کو پیش کرے گی۔
وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی نے بھی 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، کمیٹی تمام معلومات کے ساتھ اپنی رپورٹ وائس چانسلر کو پیش کرے گی۔
اس حوالے سے سی پی او ملتان خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ دفعہ 174 کی کارروائی کے بعد لاوارث لاش نشتر اسپتال کے سرد خانے میں رکھی جاتی ہے، پولیس کا سرد خانے میں لاش رکھوانے کے بعد کوئی عمل دخل باقی نہیں رہتا، لاوارث لاشوں کی تدفین نشتر اسپتال انتظامیہ کا کام ہے۔
خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق لاوارث لاشیں اسپتال میں رکھوانے کی پولیس پابند ہے، لاشوں کو کتنا عرصہ رکھنا اور ان کا کیا کرنا ہے یہ اسپتال انتظامیہ کا کام ہے، اگر وارث آ جائے تو قانونی کارروائی کے بعد اسپتال انتظامیہ لاش حوالےکر دیتی ہے۔
اسپتال کے کچھ ملازمین نے جیو نیوز کو بتایا کہ نشتر اسپتال کے مردہ خانے کے فریزر کئی سال خراب ہیں اور 5 میں سے بس ایک فریزر کام کررہا ہے، جس کے باعث وہاں 7 سے 8 میتیں رکھی جاسکتی ہیں۔
اس مردہ خانے میں 40 میتیں رکھنے کی جگہ ہے مگر لاوارث لاشوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ملازمین کے مطابق باقی لاشوں کی حالت ویسے ہی خراب ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں میڈیکل کے طلبہ کے تجربات کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور ان کے تجربات کے بعد انہیں ایسے ہی پھینک دیا جاتا ہے اور وہ لاوارث پڑی رہتی ہیں۔
جیو نیوز کراچی کے بیورو چیف اور عرصہ دراز تک کرائم رپورٹنگ سے وابستہ رہنے والے فہیم صدیقی کا بتانا ہے کہ کراچی میں ہر 48 سے 72 گھنٹے کے دوران ایک سے دو لاشیں سرکاری اسپتالوں میں لائی جاتی ہیں جن کی ماہانہ تعداد 15 سے 20 بنتی ہے۔
فہیم صدیقی نے بتایا کہ متعلقہ تھانے کی پولیس لاشوں کی ذمہ دار ہوتی ہے، سرکاری اسپتال کا ایم ایل او تھانے کو آگاہ کرتا ہے اور جو پولیس افسر 174 بناتا ہے لاش بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ ان لاوارث لاشوں کو امانتاً کہاں رکھتا ہے، پھر اگر ایک ماہ تک لاش کا کوئی والی وارث نہیں آتا تو ان لاشوں کو ایدھی کے قبرستان میں امانتاً دفن کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نشتر اسپتال میں ایسا کیوں ہوا اس کے بارے میں تو معلوم نہیں لیکن کراچی میں عام طور پر جب میڈیکل کالجز لاشیں مانگتے ہیں تو اس کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے، کالجز پولیس اور محکمہ داخلہ کے ذریعے درخواست دیتے ہیں اور وہ لاشیں انہیں دے دی جاتی ہیں لیکن اب یہ طریقہ کار بھی کافی عرصے سے اختیار نہیں کیا جا رہا اور اسپتالوں میں ڈمی باڈیز پر بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔
بیورو چیف کراچی کا کہنا تھا اگر کوئی ماہر ڈاکٹر بچوں کو کسی پیچیدہ چیز کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہے تو لاش کو 24 گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت کے لیے لے جایا جاتا ہے اور پھر اسے واپس کر دیا جاتا ہے۔
فیس بک کمینٹ