وزیر اعظم صاحب کے دفتر کے لئے ٹی وی سکرینوں پر نگاہ رکھنے والے محققین نے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ چند دن قبل اسے ’’محض‘‘ دیکھنے کا موقعہ مل گیا۔ سرسری نگاہ ڈالنے کی اجازت ملی تو میں نے پوری توجہ یہ معلوم کرنے پر مبذول رکھی کہ مذکورہ رپورٹ کو تیار کروانے کا حتمی مقصد کیا تھا۔
جلد ہی یہ جان لیا کہ بنیادی مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ تحریک انصاف کا کونسا فرد حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے کسی ٹاک شو میں جاتا ہے تو کیسی Ratings نصیب ہوتی ہے۔ہمارے بہت ہی متحرک وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب کی ’’مقبولیت‘‘ اس حوالے سے اس رپورٹ میں کافی کمزور نظر آئی۔ راوی کا دعویٰ تھا کہ اس حقیقت کی دریافت نے بنی گالہ کے چند معتمد درباریوں کو بہت خوش کیا۔ان کی مبینہ خوشی کی وجوہات زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں۔
کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے۔ دُنیا کی واحد سپرطاقت شمار ہوتے امریکہ کا صدر دورِ حاضر کا ’’ہاتھی‘‘ ہے۔وائٹ ہاؤس میں بیٹھا وہ بھی اپنے مشیروں اور جاسوسی اداروں کی تیار کردہ رپورٹوں اور تجزیوں کو غور سے پڑھنے کے بجائے ٹی وی سکرینوں پر نظر جمائے رکھتا ہے۔
حال ہی میں ٹرمپ کے اس رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک امریکی صحافی نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ "Audience of One”اس کا عنوان ہے۔ اس کا برجستہ اُردو ترجمہ میرے کند ذہن میں فی الوقت آ نہیں رہا۔ سادہ الفاظ میں فقط یہ بیان کردیتا ہوں کہ مذکورہ صحافی نے بہت تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں خبروں اور حالاتِ حاضرہ پر مبنی پروگراموں تک محدود تمام ٹی وی چینل بنیادی طورپر اب اس لگن میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ڈونلڈٹرمپ ان کی سکرینوں پر نگاہ ڈالے۔
اس سے قبل کوشش یہ ہوتی تھی کہ ٹی وی چینلوں کو اپنے تئیں زیادہ سے زیادہ Eye Ballsیعنی ناظرین ملیں۔ Ratingsکے حوالے سے ان کی مقبولیت Establishہوجائے تو امریکی صدر اور دیگر اہم شخصیات ان کے پروگرام دیکھنے کو مجبور ہوجائیںگی۔ ان کی سکرینوں پر نمودار ہوکر اپنا نقطہ نظر بیان کرنا چاہیں گی۔ کوشش اب یہ ہوتی ہے کہ امریکی صدر اپنے ٹویٹس وغیرہ کے ذریعے ان چینلوں کے نام لے کر توصیف یا تنقید کا مرتکب ہو۔ CNNیاNBCوغیرہ کا ذکر ٹرمپ نے تواتر سے شروع کردیا تو ازخودRatingsملنا شروع ہوجائے گی۔ امریکہ میں اصلی تے وڈا’’ناظر‘‘ لہذا ڈونلڈٹرمپ ٹھہرا۔اسی لئے کتاب کا عنوان "Audience of One”رکھنا پڑا۔
وطنِ عزیز کے ٹی وی ٹاک شوز کو بھی ان دنوں "Audience of One”کی توجہ درکار ہے۔اس توجہ کی بدولت ہمارے ’’حتمی ناظر‘‘ کو دریافت ہوتا ہے کہ ان کے دفتر سے ایک سمری کا اجراء ہوا ہے۔اس کی بنیاد پر صدرعارف علوی صاحب نے ایک آرڈیننس جاری کردیا۔اس آرڈیننس کے اجراء کی بدولت کھاد،بجلی اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں سے وابستہ چند مہاسیٹھوں کو 208ارب روپے ’’معاف‘‘ کردئیے گئے۔
میں اور آپ گزشتہ کئی برسوں سے ہر مہینے گیس کے بلوں کو ادا کرتے ہوئے گیس کی فراہمی کو جدید تر بنانے کے نام پر لگائی اضافی رقم ادا کرتے رہے ہیں۔کاشت کارنے کھاد کی فی بوری خریدتے ہوئے اسی مد میں مزید 400روپے ادا کئے۔اس ضمن میں عوام کی جیبوں سے ادا کردہ رقوم 400ارب روپے سے تجاو زکرچکی ہیں۔ قومی خزانے میں لیکن یہ رقوم ابھی تک جمع نہیں ہوئیں۔ متعلقہ صنعتوںکے مالکان عدالتوں میں جاکر Stay Ordersلے آئے۔ بازار میں پھیلی مندی کو ختم کرنے کے بہانے بالآخر ’’مک مکا‘‘ کا فیصلہ ہوا۔ آرڈیننس کے ذریعے تقریباََ 208ارب روپے ’’معاف‘‘ کردینے کی ’’جگاڑ‘‘ نکالنا پڑی۔میڈیا تک اس جگاڑ کی خبر پہنچی تو ہاہاکارمچ گئی۔ٹی وی سکرینوں پر مچی دہائی کا وزیر اعظم نے نوٹس لیا۔بالآخر فیصلہ ہوا کہ ان ہی کے دفتر سے جاری ہوئی ایک سمری کی بنیاد پر متعارف ہوا آرڈیننس واپس لے لیا جائے۔
وزیر اعظم صاحب کا لیا ’’نوٹس‘‘ اب داد کا مستحق ثابت ہورہا ہے۔میرے،آپ اور کاشتکارکی جیبوں سے مگر گرانقدر رقوم ادا ہوچکی ہیں۔وہ ہمیں واپس نہیں ملیں گی۔ہمیں گیس کے ہر مہینے آئے بلوں میں کسی صورت Compensationکا شائبہ تک نظر نہیں آئے گا۔
آرڈیننس کی منسوخی کے دن ہی بلکہ نیپرا نے بجلی کے نرخ بڑھانے کی نوید بھی سنادی ہے۔اکتوبر کے مہینے میں لہذا اضافی قیمت کے اطلاق کو بھگتنے کے لئے تیار ہوجائیں۔IMFڈٹی ہوئی ہے کہ ستمبر 2022 تک بجلی کے نرخ اتنے ہوجائیں گے کہ حکومت نہ صرف اس کی خریداری پر ادا ہوئی رقوم وصول یعنی Cost Recoveryکرلے بلکہ بجلی کی فروخت کے ذریعے قومی خزانے میں ’’منافع‘‘ کی صورت بھی کچھ رقم آنی شروع ہوجائے۔
گیس کی مد میں 208ارب روپے چند مہا سیٹھوں کو معاف نہیں ہوئے۔ یقینا ایک زبردست فیصلہ۔ جس کی دادوتحسین ضروری ہے۔ میرے جھکی ذہن میں لیکن سوال یہ اٹھا ہے کہ مہاسیٹھوں نے مذکورہ رقوم اپنے سیفوں میں تالہ باندھ کر تو نہیں رکھی ہوں گی۔انہیں مزید منافع کمانے کے لئے استعمال کیا ہوگا۔اس منافع کا حساب کون لگائے گا۔ وہ منافع چاہے میرے یا آپ کے بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی کا بندوبست نہ بھی کرے تاہم قومی خزانے میں تو آجائے تاکہ پنجاب حکومت کے زیر نگرانی چلائے ہسپتالوں میں مریض کو اپنی ’’غربت‘‘ ثابت کرنا نہ پڑے۔ وہ ناگہانی حالات میں ہسپتال جائے تو اس کے فوری طورپر کوئی رقم ادا کئے بغیر ضروری ٹیسٹ ہوسکیں۔اس کا علاج شروع ہوجائے۔ میری خواہش پر اگرچہ عملدرآمد نہیں ہوپائے گا۔
گزشتہ چند دنوں سے آپ سرکاری ترجمانوں سے Ease of Doing Businessکا تواتر سے ذکر سن رہے ہوں گے۔معاشی میدان میں رونق دکھانے کی خاطر وزیر اعظم صاحب صنعت کاروں کے وفود سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد بھی ’’کاروبار (بڑھانے) میں آسانی‘‘ کی راہ ڈھونڈنا بتایا جارہا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم صاحب اور ہماری اشرافیہ کے دیگر بہت ہی طاقت ور افراد کو ایوب خان کا ’’سنہری دور‘‘ بہت یاد آتا ہے۔ یہ دوراکتوبر1958سے شروع ہوا تھا۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس دور میں زرعی اصلاحات ہوئیں۔ پاکستان گندم کی پیداوار کے حوالے سے خودکفیل ہوگیا۔منگلا اور تربیلا ڈیم بھی اسی دور میں تعمیر ہوئے۔ ’’زرعی‘‘ ملک میں صنعت کاری کا آغاز ہوا۔لوگوں کو روزگار ملا۔
ملک جدید ترین اور خوش حال بنانے والے اس سنہری دور میں Trickle Downکی اصطلاح بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس کے ذریعے امریکہ کے مشہور ماہرین معیشت ہمیں یہ بتاتے رہے کہ صنعتیں لگانے کی وجہ سے جو سیٹھ ابھریں گے وہ اپنی خوش حالی کو نچلے طبقات تک منتقل کرنا شروع ہوجائینگے۔ پانی کی طرح خوش حالی بھی نشیب کی جانب بہنا شروع ہوجائے گی۔
Trickle Downکی تمنا میں معاشی منصوبہ بندی کے فریضے پر سرکاری طورپر مامور ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے مگر اس سنہری دور کے تقریباَ آخری ایام میں ایک تخلیقی مضمون لکھا تھا۔اس کے ذریعے دریافت یہ ہوا کہ خوشحالی Trickle Downنہ ہوئی۔جو منصوبے بنائے گئے تھے ان کے نتیجے میں بلکہ 22 ایسے خاندان پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے بینکوں اور انشورنس کے کاروبار پر بھی اپنا اجارہ قائم کرلیا ہے۔ ’’صنعتوں کا جال‘‘ بھی فقط مغربی پاکستان تک محدود رہا۔ مشرقی پاکستان میں اس کی وجہ سے ’’احساسِ محرومی‘‘ پیدا ہوا۔’’سنہری دور‘‘ میں Trickle Downنہ ہوا تو اکتوبر1968میں ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوگئی۔اس پر قابو پانے کے لئے جنرل یحییٰ خان کو مارچ 1969میں مارشل لاء لگانا پڑا۔اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔میری خواہش فقط اتنی ہے کہ اسے دہرانے سے گریز کیا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ