ایک گاؤں کے ریلوے اسٹیشن پر ایک ٹرین آکر رکی جس میں پہلے ہی رش تھا اس میں کچھ نئی سواریاں بھی آگئیں اس دوران ایک دیہاتی تیزی سے دوڑتا اور کئی لوگوں کو دھکیلتا زبردستی ٹرین میں سوار ہوگیا اس کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا ڈبہ تھا اس کی دھینگا مشتی دیکھ کر ٹرین کے ڈبے میں سوار لوگوں نے اس کو کوسنا شروع کردیا اور کہا کہ ایک تو پہلے ہی جگہ نہیں اور یہ صاحب ڈبہ اٹھا لائے ہیں تو اس پر وہ صاحب لگے دیسی گھی کے فائدے گنوانے لگے ۔ جس پر ٹرین کی سواریاں نے چڑ کر مضر صحت کہنا شروع کر دیا اس دوران جب وہ ڈبہ اٹھائے تھک گیا تو اس نے رکھنے کے لئے محفوظ جگہ نہ ملی اس کو ایک ہک نما زنجیر نظر آئی اس نے دیسی گھی کے ڈبے کو اس سے باندھ دیا پھر کیا تھا تیز رفتار ایکسپریس ٹرین فورا رک گئی ایمرجنسی بریک پر ٹرین کے گارڈ ڈبے میں پہنچے اور ایمرجنسی بریک کے ساتھ بندھے گھی کے ڈبے کو دیکھ کر اس کے مالک بارے پوچھا سب نے ظاہر ہے اس دیہاتی کی طرف اشارہ کیا اس پر گارڈ نے شدید غصے میں اس دیہاتی کو کہا کہ تمھارے ڈبے کی وجہ سے ٹرین رک گئی ہے ، اس پر اس دیہاتی نے بڑے ناز سے ٹرین کی دیگر سواریوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ ” کیوں فر دیکھی میرے دیسی گھی کی طاقت ”
آج کل حکومت اور اس کے وزیروں کا کم و بیش یہی حال ہے جو اس دیہاتی کا تھا عمران خان اور ان کی پارٹی ” ایمانداری ،اور احتساب ” کا دیسی گھی لیکر برسراقتدار آئی تھی مگر ان کے ا قدامات نے ملک کی معیشت کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو گھی کے ڈبے نے ٹرین کے ساتھ کیا تھا اور دکھ اس بات کا ہے کہ حکومت کے نمائندوں کا جتھا جس کو اپوزیشن گالم گلوچ بریگیڈ کہتی ہے وہ ایسے ہی اکڑ رہا ہے جیسے دیہاتی اکڑ ا تھا ، عام آدمی کی زندگی دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے ۔ روزمرہ استعمال کی چیزیں ان کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں ، حکومت جس چیز کا نوٹس لیتی ہے بس سمجھ لیں یا وہ ناپید ہو جاتی ہے یا وہ دوگنی قیمت ہو جاتی ہے ، اس کی بنیادی وجہ فیصلہ سازی میں ہوش مندی اور بنیادی حالات کو مدنظر رکھنے کی بجائے ، جوش ، انتقام اور حقائق سے چشم پوشی ہے اس کی وجہ سے کچھ بحران مثلاً ، آ ٹے، چینی کے بحران ، اب تک حل نہیں ہو سکے اور حالیہ سیزن میں کم گنے کی فصل کی وجہ سے کم چینی کی پیداوار اور موسمی حالات سے لگ رہا کہ کم گندم کی فصل کے باعث یہ دونوں اشیا ضرورت کا بحران شدت اختیار کرے گا اور حکومت اس وقت مثبت فیصلوں سے اس بحران سے نبردآزما ہونے کی تیاری ، شوگر امپورٹ کرکے طلب و رسد کے توازن سے قیمتوں کا کنٹرول اور گندم کی متوقع یقینی شارٹیج سے نمٹنے کی تیاری کی بجائے اپنے مخالفین کو اپنے "ڈولے” دکھا رہی ہے ان کے ایک نمائندے رمضان المبارک میں چینی کی طلب و رسد کے فرق ، حالیہ دنوں کم گنے کی فصل اور مہنگے داموں دستیابی اور شوگر ملز کی سطح پر پیداواری لاگت میں اضافے کے اعتراف کی بجائے الٹا شوگر ملز کے خلاف کریک ڈاؤن کی تڑیاں لگا رہے ہیں۔
ویسے کردار اپوزیشن کا بھی قابل تعریف نہیں جہاں سیاسی قیادت عوام کی تکلیف کو اپنے سیاسی مستقبل کو روشن ہونے کی ضمانت سمجھے تو پھر حالات ٹھیک ہونے کی امید ختم ہی ہو جاتی ہے ۔
اب آنے والے دنوں میں لگ رہا ہے کہ عوام کی خیر نہیں کیونکہ ایک تو وزیر اعظم کئی چیزوں کا سخت نوٹس لینے کا اعلان کر چکے ہیں ، مسلمانوں کا ماہ مقدس رمضان المبارک بھی سر پر ہے ، رضا باقر بھی اب تو جلوہ افروز میڈیا ہو رہے ہیں اور ان کی گواہی بھی آگئی ہے کہ مہنگائی کی وجہ سابقہ حکومتیں ہیں ، اس نرم نرم منہ سے بتا رہے ہیں کہ اب ایک وقت روٹی کی تیاری کر لو اور میڈیا میں کامران خان اور دیگر ایسے
ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔
مگر اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ کوئی تو اس حکومت کے فیصلہ سازوں کو یہ کہے کہ تصادم ، دھمکی ، بازو مروڑنے کی بجائے ملک کے کاروباری طبقے کے اعتماد کو بحال کرے ،ان کو چور چور کہنے کی بجائے ان کے ملک کی معیشت میں سابقہ مثبت کردار کی سراہا جائے اور لفظ عزت نفس کو ملک کی معیشت اور سیاست میں اپنے مطلب سمیت بحال کیا جائے مگر موجودہ سیاسی حالات میں جن بے معنی کامیابیوں پر بغلیں بجائی جارہی ہیں اس کے امکانات کم ہیں ، مگر اس موقع پر جس بات کا خوف ہے وہ اس صبر کے پیمانے کا چھلک جانا ، کیونکہ ہر چیز کی بڑھتی قیمت بجلی کی قیمت میں روز اضافہ، اشیا ضرورت کا ایک عام دمی کی پہنچ سے دور ہونا ، احتساب کے عمل کا ناکام ہونا ، کرونا ویکسین پر منافع کمانے کی کوشش اور اپوزیشن و دیگر سیاسی قیادت کی ان بنیادی مسائل سے توجہ دینے کی بجائے بظاہر ذاتی کھینچا تانی ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ایمانداری کے دیسی گھی کے بوجھ سے رکی ٹرین ،اور مہنگائی کی چکی میں پستی عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بغیر کسی مؤثر سیاسی قیادت کے ازخود عوامی ردعمل سے پٹڑی سے نہ اتر جائے
فیس بک کمینٹ