میرے جسم میں اس وقت جان کا رہنا شاید ناممکن ہو گیا ہے۔ میری دھڑکن کا رک جانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ اس سر کو میں کہاں سے ڈھونڈوں جو دھڑ سے الگ کر کے نہ جانے کون، کہاں پھینک آیا ہے۔
مانتی ہوں کہ میرے سامنے جو گردن سے خون رس رہا ہے، یہ کسی ایک کا نہیں ، لیکن کچھ حصہ تو میرا بھی شامل ہے اس میں۔ اس ننھی جان کے جسم پر کالے اور لال دھبے میری وجہ سے نہ سہی لیکن سفید تو میرے ہی حصے کے ہیں۔ چلو اس کا باپ جو بھی ہو معلوم نہیں لیکن ماں تو میں اکیلی ہی تھی نا۔۔ ۔ دھندلی آنکھوں سے خون کو دیکھتے ہوئے اسے کچھ دیر کے لیے یوں لگا کہ اس کی آنکھوں سے خون نکل رہا تھا۔ میرے دودھ کا وہ حصہ جو صرف اس کا تھا، اس کو اب کون پئیے گا؟ وہ میرے اندر آخر کب تک ابلتا رہے گا؟
مجھے خود نہیں معلوم۔ مانتی ہوں یہ کسی ایک باپ کا بچہ نہیں تھا ، لیکن کسی انسان کو اس سے کیا لینا دینا؟ اس کو کیا حق ہے کہ میرے بچے کے ساتھ ایسا کرے؟ ایسا کرتے ہوئے اسے ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ خود کو اس مختلف کتوں کے نطفے سے بھی بدتر کر رہا تھا جس سے وہ بچہ بنا تھا۔
فیس بک کمینٹ