دیکھو! میری بات مانو ، ہم خاموشی سے اماں کو کہیں دور چھوڑ آتے ہیں، جس کسی کو ملیں گی، وہ بزرگ جان کر ان کی حالت دیکھتے ہوئے کسی پاگل خانے تک پہنچا آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا دماغ تو صحیح ہے ، یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟
"اس نے بیوی کی بات پر اسکی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا”
ٹھیک کہہ رہی ہوں میں، جذباتی مت بنو اور میری بات پر غور کرو، اگر ہم خود اماں کو کسی پاگل خانے داخل کروا دیں گے تو دوست، رشتے دار طعنے دے دے جینا حرام کر دیں گے ہمارا، کہیں گے بوڑھی ماں کو اس عمر میں گھر سے نکال دیا، لوگوں کو تو بس باتیں بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ انہیں کیا خبر کہ بگڑے ہوئے ذہنی توازن کے ساتھ ایک بزرگ کی دیکھ بھال کرنا کتنا کٹھن ہے۔ ویسے بھی بڑی بی کی ایسی حالت میں کسی نے ان سے کیا فائدہ اٹھا لینا ہے ، خاموشی سے کہیں چھوڑ آئیں گے تو کوئی ترس کھا کر اصل ٹھکانے تک پہنچا ہی دے گا اماں جی کو۔۔۔۔۔۔
"اس نے نہایت بےحسی برتتے ہوئے سرد و سفاک لہجے میں شوہر کو قائل کرنا چاہا”
وہ شخص جو اس گھناؤنی سازش میں شریک ہونے جا رہا تھا یقیناً اس کی رگوں میں ماں کی محبت منجمد ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
جمعہ, دسمبر 8, 2023
تازہ خبریں:
- سید مجاہد علی کا تجزیہ:عدالتوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی افسوسناک کوشش
- رؤف کلاسراکا کالم:عقل کا استعمال ممنوع ہے
- سہیل وڑائچ کا کالم:دوائی زیادہ ڈل گئی تو……
- کشور ناہیدکا کالم:’’لاپتہ سیاست کے دور میں ادبی جشن‘‘
- عطا ء الحق قاسمی کا کالم:دل بہت اداس ہے!
- بہاول پور کا چڑیا گھر غیر معینہ مدت کے لیے بند : لاش کی شناخت ہو گئی
- نصرت جاویدکا تجزیہ:نیپرا کے ’’بنارسی ٹھگ‘‘
- سید مجاہد علی کا تجزیہ:اسرائیل دشمنی میں جہاد کے ناجائز نعروں سے گریز کیا جائے!
- خالد مسعود خان کا کالم:34نمبر کی بنیان اور انور مسعود کی نظم
- حسین حقانی کا کالم:قومی بیانیے میں تبدیلی کی ضرورت