ہاں! عشق ہے مجھے اس سے، بے پناہ عشق! لازوال عشق! کمال عشق! بےمثال عشق!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ وہی الفاظ تھے جو وہ عموماً دیوانہ وار دہراتی پھرتی تھی”
توبہ توبہ! دیکھو تو بھلا کیسی بے حیا ہے۔ عورت ذات ہوتے ہوئے کس ڈھٹائی سے غیر کی محبت کا اظہار کر رہی ہے۔ سنا آپ سب نے؟ یہ ایسی ہی خرافات گلی کوچوں میں بکتی پھرتی ہے، جہاں سے شرفا کا بھی گزر ہوتا ہے، اسکی یہ غیر اخلاقی بکواسیات اب برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہیں ۔۔۔۔
"اسنے اسکا بازو سختی سے پکڑ کر شہر کے منصفین کے سامنے دھکیلتے ہوئے کہا”
"ارے رہنے دو، دیوانی معلوم ہوتی ہے”
وہاں موجود ایک شخص نے ترس کھاتے ہوئے آواز بلند کی۔
"ہاں! دیوانی ہی تو ہوں، اپنے محبوب کی دیوانی! ”
بکواس بند کر، تو باز نہیں آئی گی،،،، "اسنے حقارت سے اسکی طرف دیکھ کر کہا”
وہ شہر کا ایک نام نہاد معزز اور معاشرے میں سدھار کا ٹھیکیدار تھا جو اسکی جنونی باتوں سے نالاں ہو کر اسے سزا دلانے کی غرض سے پکڑ لایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھلے سر ، اجاڑ زلفیں لیے شہر بھر کی سڑکوں پر ، آتے جاتے لوگوں کو پکڑ پکڑ ، اپنے عشق کے قصے سناتی پھرتی تھی۔ کوئی اسے بے غیرت ، بے حیا جیسے القاب سے نوازتا تو کوئی اسے دیوانی سمجھ کر چند سکے اسکی ہتھیلی پر دھر دیتا۔ وہ اپنی گمنام محبت سے متعلق چند بے ربط باتوں کے علاوہ کسی کو کوئ نقصان نا پہنچاتی تھی ۔
مگر یہ دنیا بھلا کسے چین سے جینے دیتی ہے؟ وہ ہوش سے بیگانی ہو کر غیراخلاقی گفتگو کرتی پھرتی تھی اور اسی گناہ کی پاداش میں سزا کی غرض سے منصفینء شہر کی عدالت میں پیش کی گئی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔
"کون ہے تیرا محبوب ، کس سے عشق ہے تجھے؟ ”
عدالت نے ایک اور سوال بلند کیا!
"وہی جو چاہے جانے کے قابل ہے”
کیا نام ہے اسکا ؟
"خالق ”
کرتا کیا ہے؟
"عشق”
کہاں رہتا ہے آخر؟
"ہر جگہ ، جہاں تک نگاہ جاتی ہے وہ ہی وہ نظر آتا ہے، میری دھڑکنوں میں ، میری روم روم میں بسا ہے وہ، میری ہر اک سانس پر قادر ہے۔۔۔۔۔۔۔”
"سیدھی طرح بتا کہاں ہے اسوقت وہ؟”
"کہا نا ہر جگہ موجود ہے وہ
مگر تمہیں دکھائی نہیں دے گا”
اس نے وحشت زدہ چہرے پر اطمنان سجاتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ جواب دیا۔۔۔۔
"اچھا! کیا طلسماتی ٹوپی پہنی ہوئی ہے تیرے محبوب نے جو سوا تیرے کسی کو دکھائی تک نہیں دیتا” ؟؟؟؟
اس طنزیہ سوال کیساتھ ہی عدالت میں کئی قہقہے بلند ہوئے ، اسکا مذاق اڑایا جانے لگا۔ مگر وہ بدستور مطمعن کھڑی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔
"اری کمبخت بول نا ہمیں کیوں نہیں دکھے گا تیرا محبوب ؟”
اسے کٹہرے میں لانے والے ظالم نے ایک بار پھر اسے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
"کیوں ک تمہاری آنکھوں پر تکبر کی پٹی بندھی ہے اور دلوں پر منافقت کی دبیز دھول جمی ہے، نا ایسی آنکھوں میں میرا محبوب سماتا ہے نا ہی ایسے الودہ دلوں میں بستا ہے۔۔۔۔۔
"واہ ری ، بڑی فلاسفر نکلی تو تو”
فضا میں ایک اور قہقہہ بلند ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
"دیکھو بھلا یہ اپنی گفتگو سے کب دیوانی معلوم ہوتی ہے، میرا شک درست ہے کہ یہ کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت لوگوں میں بے راہ روی پھیلا رہی ہے، اسے سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے ”
مدعی نے ایک بار پھر اس پر الزام ثابت کرنا چاہا۔۔۔۔۔۔
"تجھے اس سے ملتے وقت دنیا کا خوف نہیں ہوتا کیا؟ ”
(سوالات کی آڑ میں مسلسل اسے تمسخر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا مگر وہ نہایت استقامت سے ہر بات کا جواب دیتی چلی گئی ۔۔۔)
"نہيں ! بلکل بھی نہیں ! فقط
اس سے ملتے وقت ہی تو میں دنیا جہان کے خوف سے بےنیاز ہوتی ہوں”
"اچھا یہ بتا کب کب ملتی ہے اس سے؟؟؟؟؟؟”
"جب جب میرا محبوب پکارتا ہے”
واہ! بڑی تابعدار ہے تو اسکی،،،
"بیشک” اسنے مختصر جواب دیا۔۔۔۔۔۔
عین اسی وقت آذان کی آواز بلند ہوئی !!!!!!
"اللہ اکبر، اللہ اکبر”
"آ گیا، بلاوہ آ گیا، میرے محبوب کا بلاوہ آگیا!!! میرے خالق کا بلاوہ آگیا!!!!!!!!
وہ دیوانہ وار پکارتے ہوئے باہر کی طرف دوڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے جاتے ہی عدالت میں جیسے خاموشی طاری ہوگئی ، سب نے اسکے محبوب کی شناخت پر اپنے سر جھکا لیے ، شہر کے منصفین اور معززین اپنے اونچے اونچے قد لیے ایک دوسرے کی نگاہوں میں زمین بوس ہونے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک کہا تھا اسنے جن کی آنکھوں پر تکبر کی پٹی بندھی ہو وہ بھلا اس محبوب کو کیسے دیکھ سکتے تھے؟
وہ ان سب کو اپنے محبوب کا تعارف کروا کر کب کی جا چکی تھی۔
میں ! جو اس عدالت میں ، خاموش تماشائیوں میں سے ایک تھا، آج تک سوچتا ہوں کے آخر کس سنگ بیر لگا بیٹھی تھی وہ جس نے اسے ہوش سے بیگانہ کر دیا، مگر وہ دیوانی الفت کی راہوں پر چلتے چلتے جس حقیقی محبوب کو پا چکی تھی، بہت سے متقی اور خردمند بھی اس تک رسائی باآسانی نہیں کر پاتے ۔
"کسی کے سنگ لگائے دنیاوی "بیر” نے اسے ایسے عشق سے جا ملایا جو لازوال تھا”