اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں اس بار ہر آنکھ نے ایک ہی چاند دیکھا اور بدھ کے روز پوری قوم نے مل کر عید منائی۔ البتہ اس روز سعید سے ایک روز پہلے سینیٹ کا اجلاس بلاکر چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کا انتخاب ضروری سمجھا گیا۔ حکمران اتحاد کی جلد بازی نے یہ تو ثابت کردیا کہ انہیں پارلیمنٹ میں جیسے تیسے بھاری بھر کم اکثریت حاصل ہے البتہ اس رویہ سے قاصر ملک میں موجود شدید سیاسی تقسیم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ہے۔
اس وقت لوگوں کی بہت بڑی اکثریت ملک کے جمہوری انتظام کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ اکثریتی جماعتوں نے اس پریشانی پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ یہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے خصوصی نشستوں پر ’منتخب‘ ہونے والے ارکان کی حلف برداری کا اہتمام نہیں کیا جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو اس صوبے میں سینیٹ کا انتخاب ملتوی کرنا پڑا۔ کیوں کہ جیسا کہ خواجہ آصف نے دلیل دی تھی کہ اگر 2024 کے انتخابات کی تحقیقات کروانی ہیں تو 2018 کے انتخابات کا آڈٹ بھی کروانا پڑے گا۔ یعنی اگر آپ ایک زیادتی کریں گے تو ہم دوگنی شدت سے اس کا جواب دینے کا ’حق‘ محفوظ رکھتے ہیں۔ اسی اصول کو اگر مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کے تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور کی ہٹ دھرمی کو ناجائز کہنا مشکل ہوجائے گا۔
تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں سے محروم رکھنے کا ظلم اس عذر پر کیا گیا تھا کہ پارٹی کے امیدواروں نے چونکہ انتخابی نشان کے بغیر انتخاب میں حصہ لیا تھا لہذا انہیں ’آزاد‘ ارکان سمجھا جائے گا۔ پارلیمانی طاقت کی بنیاد پر انہیں مخصوص نشستوں میں حصہ نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ طریقہ خواہ کیسی ہی آئینی توضیحات سے درست ثابت کرنے کی کوشش کی جائے، سیاسی طور سے ناقابل قبول ہے اور اسے بہر صورت مسترد کرنا چاہئے۔ شہباز شریف کی حکومت کی پشت پر دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کئی دہائیوں سے ملکی سیاست کا حصہ ہیں اور اس مدت میں وہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرچکی ہیں۔ ان کی قیادت کو بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ کسی سیاسی قوت کو دبانے سے اسے ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی لیڈر کی مقبولیت اسی وقت چیلنج ہوتی ہے جب اس کے قول وفعل کا تضادسامنے آتا ہے۔ کوئی حکومت یا الیکشن کمیشن کسی سیاسی پارٹی کی عوامی مقبولیت اور انتخابی کامیابی سے انکار کرکے قومی تعمیر کے کسی مشترکہ منصوبہ کی تکمیل نہیں کرسکتی۔
اسی پس منظر میں یہ ضروری تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مخصوص نشستوں کے سوال پر الیکشن کمیشن کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے، یہ اعلان کرتیں کہ انتخابی نشان پر قانونی جھگڑا ایک علیحدہ معاملہ ہے لیکن سیاسی طور سے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی اور سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی کسی پارٹی کے حق نمائیندگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے لیکن الیکشن کمیشن کے توسط سے انہیں ’سنی اتحاد کونسل‘ جیسی غیر فعال پارٹی کی طرف دھکیلنے اور پھر اس پارٹی کی پارلیمانی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا کر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے سے انکار کرکے درحقیقت حکمران اتحادی کی دونوں بڑی پارٹیوں نے عوامی رائے اور ان کے نمائیندوں کے استحقاق کو مجروح کیا ہے۔ سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ نہیں ہوتیں کہ وہ ہر معاملہ کو قانون کی باریک بین نگاہوں سے ہی دیکھیں۔ حقیقی سیاسی جماعت وہی کہلائے گی جو عوام کو حق انتخاب دینے کی بات بھی کرے اور ان کی طرف سے منتخب ہونے والے ارکان کی حیثیت کو تسلیم بھی کرے۔ یہ ناقابل فہم ہوگا کہ حکومت کے پاس کوئی ایسا قانونی طریقہ نہیں تھا کہ وہ ان خصوصی حالات میں تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی زیادتی روکنے کے لیے کوئی مناسب اور قابل قبول اقدام نہ کرسکتی۔
اوّل تو اگر ملک کی سب سیاسی پارٹیاں تحریک انصاف کے جائز حق نمائیندگی کے لیے آواز بلند کرتیں تو الیکشن کمیشن کو یک طرفہ طور سے پی ٹی آئی کے حصے کی مخصوص نشستیں دوسری پارٹیوں میں تقسیم کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ مخصوص نشستوں کے لیے تحریک انصاف کے استحقاق کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن ہی کے ایک رکن نے بھی یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ اگر اس پارٹی کو آئینی و قانونی طور سے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں تو یہ نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم کرنا بھی غلط ہوگا۔ لیکن باقی سیاسی پارٹیوں نےوقتی سیاسی فائدے کے لیے اس اہم معاملہ کے دوررس اثرات کا اندازہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ بس یہ غور کرکے خوشی منائی گئی کہ جوسیٹیں درحقیقت تحریک انصاف کا حق ہیں اور اسے ہی ملنی چاہئیں تھیں، اب وہ باقی پارٹیوں میں تقسیم کرکے ان کی ’سیاسی قوت‘ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ دوسرے اگر یہ معاملہ قانونی لحاظ سے پیچیدہ بھی تھا تو بھی حکمران اتحاد قانون سازی کے ذریعے اس الجھن کو دور کرسکتا تھا۔ اور الیکشن کمیشن کو پابند کیا جاتا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ’آزاد‘ ارکان کو ایک پارلیمانی گروپ سمجھا جائے یا انہیں اپنی پارٹی کا حصہ مان کر مخصوص نشستوں میں انہیں حصہ دیاجائے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اگر اس معاملہ پر سیاسی حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرسکتیں تو ملک میں پراگندہ سیاسی ماحول میں ٹھہراؤ پیدا ہوسکتا تھا اور جس سیاسی مفاہمت و مواصلت کو تمام حلقے اہم قرار دیتے ہیں، اس کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی۔ امین گنڈا پور اسی لیے خیبر پختون خوا میں سینیٹ الیکشن کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں کیوں کہ پہلے تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے محروم کیا گیا اور اب خیبر پختون خوا میں مخصوص نشستوں پر نامزد کیے گئے ارکان کو حلف دلوا کر سینیٹ انتخاب میں بھی تحریک انصاف کی نمائیندگی کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ البتہ صرف ایک صوبے کی حکومت اس اہم قومی معاملہ پر شاید زیادہ دیر تک رکاوٹ نہ بن سکے لیکن صدر آصف زرداری نے اپنی پارٹی کے امید وار یوسف رضا گیلانی کو چئیرمین بنوانے کے لیے عجلت میں سینیٹ کا اجلاس بلا کر ایک افسوسناک سیاسی روایت قائم کی ہے۔ فوری طور سے حکمران اتحاد اس کامیابی پر خوشی کے شادیانے بجا سکتا ہے لیکن اس کے دوررس سیاسی اثرات خوشگوار نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی مفاہمت کا راستہ مزید پیچیدہ اور مشکل ہوجائے گا۔
اس حوالے سے یہ نکتہ بھی قابل غور ہونا چاہئے کہ ممتاز قانون دان سلمان اکرم راجہ کی یہ پٹیشن ابھی سپریم کورٹ کے سامنے موجود ہے کہ تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے ضرور محروم کیا گیا تھا لیکن وہ ملکی قانون کے مطابق بدستور ایک سیاسی جماعت ہے ، اس لیے اس کے امیدواروں کو آزاد نہیں کہا جاسکتا بلکہ انہیں تحریک انصاف کا نمائیندہ ہی مانا جائے۔ یہ ایک اہم قانونی و آئینی نکتہ ہے۔ اصولی طور پر سب سیاسی پارٹیوں کو اس قانونی پوزیشن کی وضاحت کے لئے سلمان اکرم راجہ کی پٹیشن کی حمایت کرنی چاہئے تھی تاکہ سپریم کورٹ ترجیحی بنیاد پر اس درخواست پر غور کرکے ملکی سیاسی منظر نامہ میں پیدا ہونے والی ایک مشکل صورت حال کے حوالے سے قانونی پوزشین واضح کردیتی۔ البتہ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے اگر ملک کی سیاسی جماعتیں اقتدار کی بجائے واقعی ملک و قوم کی بہتری کے لیے سیاست کریں۔ جب کسی بھی طریقے اور ہتھکنڈے سے اقتدار کا حصول ہی مطمح نظر ہو تو مسائل حل ہونے کی بجائے الجھنوں اور مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ معاشی بحالی کے نقطہ نظر سے قومی اتحاد اور سیاسی مصالحت کا راگ الاپنے والے وزیر اعظم شہباز شریف کو ضرور اس پہلو سے غور کرنا چاہئے۔
لیکن اس وزیر اعظم سے کوئی کیا توقع کرسکتا ہے جو کابینہ کے اجلاسوں، میڈیا ٹاک یا جلسوں میں تو جذبات سے مغلوب ہوکر عجیب و غریب دعوے اور وعدے کرتا ہے لیکن عملی طور سے اس کا طرز عمل قابل گرفت ہے۔ خاص طور سے اس کا مظاہرہ شہباز شریف کے حالیہ دورہ سعودہی عرب کے موقع پر دیکھنے میں آیا ہے۔ چند ہفتے پہلے ہی حکومت نے صدر اور چیف جسٹس کے علاوہ سب اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو ہوائی جہاز کی بزنس کلاس میں سفر کا پابند کیا تھا۔ شہباز شریف نے سعودی عرب جانے کے لیے پی آئی اے کا انتخاب کیا لیکن اب جیو نیوز نے خبر دی ہے کہ جاتے ہوئے پی آئی اے کی پرواز جدہ جارہی تھی لیکن شہباز شریف کے شیڈول کی وجہ سے اسے مدینہ منورہ اتارا گیا اور طیارے پر سوار باقی مسافروں کو غیر ضروری تاخیر اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح واپسی پر شہباز شریف اور ان کے وفد نے جدہ سے پی کے 842 پر سفر کیا۔ یہ پرواز اسلام آباد جانے والی تھی لیکن اسے لاہور اتار لیا گیا۔ جدہ میں وزیر اعظم کے انتظار میں پرواز کو دو گھنٹے دیر سے روانہ کیا گیا۔ جبکہ لاہور اترنے کے بعد بھی مسافروں کو کئی گھنٹے غیر ضروری طور سے انتظار کرناپڑا۔
کیا کوئی انصاف پسند اور قانون کا احترام کرنے والا سربراہ حکومت ایسی حرکت کرسکتا ہے اور کیا کسی جمہوریت میں سینکڑوں مسافروں کو زحمت دینے والے وزیر اعظم کو معاف کیا جاسکتا ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت پی آئی کی نجکاری کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔ کیوں کہ یہ ادارہ اربوں روپے خسارے میں جاتا ہے اور حکومت عوام کے وسائل ایسے غیر منفعت بخش منصوبوں پر صرف نہیں کرسکتی۔ البتہ وزیر اعظم کی وجہ سے پی آئی اے کی پروازوں کا روٹ تبدیل کرکے اور بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر غیر ضروری تاخیر پر جو کثیر وسائل صرف ہوئے ہیں، انہیں کون پورا کرے گا؟
وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کے ہمرکاب اپنے سفری اخراجات خود برداشت کریں گے۔ اب ایک پریس کانفرنس میں انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ پی آئی اے کو روٹ کی تبدیلی اور وزیر اعظم کا انتظار کرنےپر جو مصارف برداشت کرنے پڑے ہیں، ان کی بھرپائی کون کرے گا؟ یا پارلیمنٹ میں کوئی ایسا باحوصلہ رکن موجود ہے جو اس معاملہ پر وزیر اعظم سے باز پرس کرسکے؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ