اس نے کہا میری کہانی سنو۔ مَیں نے کہا کہانی بچپن میں دادی اور نانی سے سنا کرتا تھا۔ پھر رات کو ریڈیو پروگرام میں بچوں کی کہانی سنی۔ ان سے کہانی سنتے سنتے کہانی لکھنی شروع کر دی اور اب اگر کسی کی کہانی سنتا ہوں تو کہانی مجھ سے کہتی ہے کہ دیکھو کسی پیارے کی کہانی سنتے سنتے خود کہانی نہ بن جانا ۔ مَیں کہانی سے کہتا ہوں اگر مَیں اپنی کہانیوں کے حصار میں رہا تو مجھے روشنی کہاں سے آئے گی؟ اس لیے مَیں نے کہا چلو سناؤ کہانی۔
اس نے کہانی سنانی شروع کی۔ مَیں ہمہ تن گوش ہوا۔ بالکل ایسے ہی جیسے دادی اماں اور نانی اماں سے کہانی سنتے ہوئے پوری توجہ سے بادشاہ اور ملکہ کے قصے سنا کرتا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ یہ کہانی نہیں حقیقت ہے۔ مَیں نے کہا آپ سے طے ہوا تھا کہ مَیں آپ کی کہانی سننا چاہوں گا اور آپ حقیقت کی بات کر رہے ہو۔ ہاں مَیں کہانی میں جھوٹ نہیں بتانا چاہوں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری کہانی میں نور ہے۔ میری کہانی درخشاں ہے۔ میری کہانی میں چمک ہے۔ میری کہانی میں بادشاہ نہیں ہے لیکن ملکہ ہے۔ بادشاہ اس وقت آتا ہے جب ملکہ کو یاد آتا ہے کہ ہر ملکہ کا ایک بادشاہ بھی ہوتا ہے۔ میری کہانی میں دُعا ہے اور دکھ ہے۔ دو تتلیاں ہیں۔ ان کے خوبصورت رنگ ہیں۔ رنگوں میں روشنی ہے۔ میری کہانی میں سچ کا کشف ہے۔ جھوٹ کا کوئی دروازہ نہیں۔ میری کہانی میں دکھوں کا راشن وافر ملے گا۔ سُکھوں کا اُجڑا ہوا میلہ ہے۔ میری کہانی کوئی آسان کہانی نہیں ہے۔ میری کہانی میں رنگ ہیں لیکن مدہم ہیں۔ اس کہانی میں ایک بلبل ملے گی جو ایک ہی منڈیر پر بیٹھ کر اپنی داستان سناتی ہے۔ کہانی میں جب آنسوؤں کی بارش ہوتی ہے تو اس میں صرف میرا وجود ہی بھیگ جاتا ہے۔ میری کہانی تم سنانا چاہتے تھے تو آؤ پھر اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دو اور دیکھو میرے ہاتھوں میں کتنے زخم ہیں۔ ہر زخم کے پس منظر میں ایک کہانی ہے۔ اب مجھے بتاؤ تم کتنی کہانیاں سننا چاہو گے؟ مَیں نے کہا جتنے تمہارے زخم ہیں مَیں اتنی کہانیاں تمہارے ساتھ بیٹھ کر سن رہا ہوں۔ تم کہانی سناؤ۔۔۔۔۔۔
پھر اُس نے کہا میری کہانی میں گم شدہ محبت ہے جس کی تلاش میں اب تک سرگرداں ہوں۔ میری کہانی میں میلے سے خریدی ہوئی ست رنگی چوڑیاں ہیں جو کسی کلائی کی منتظر ہیں۔ میری کہانی میں آنکھوں میں رکھا ہوا انتظار ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ میری کہانی میں ماں کا پیا ہوا وہ پانی کا آخری گھونٹ ہے جو اُس نے بے دھیانی میں گلاس میں چھوڑ دیا ہے۔ میرے لیے وہ پانی آبِ حیات کی نوید لاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ پانی میرے رگ و پے میں اترتا ہے تو جدائی کا گیت دور سے سنائی دیتا ہے تو ماں سے سوال کرتا ہوں یہ پانی کس کنوئیں کا تھا؟ تو وہ کہتی ہے بیٹا وہ پانی میری شفا کا باعث بنتا ہے تو نے اسے کیوں پیا؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔
کہانی سناتے ہوئے وہ میرے اور قریب آیا۔ اس کے سانسوں کی خوشبو نے مجھے سرشار کیا اور اسی سرشاری کے لمحوں میں وہ کہانی کا اگلا صفحہ لے آیا۔ کہانی کا وہ صفحہ خالی تھا۔ مَیں نے کہا یہ کیا ہے؟ میری زندگی کے بہت سے دن پیار اور محبت کے اظہار کے بغیر گزر رہے ہیں اس لیے یہ صفحہ خالی ہے۔ اس میں نہ خوشیاں ہیں نہ غم لیکن اس صفحہ پر اُداسی بال کھولے سوتی ہے۔ اُداسی میرے من کے اندر پھوار کی طرح برستی ہے اور مَیں اس پھوار کو بند نہیں ہونے دیتا۔ کہانی اگلے موڑ پر آتی ہے اور کہتی ہے دیکھو کہانی میں جدائی کا موڑ نہیں آنا چاہیے۔ مَیں بھرپور کوشش کے بعد جدائی کی ڈور کو پتنگ کے ساتھ باندھ کر آسمان پر لے جاتا ہوں تو پھر بوکاٹا کی آواز آتی ہے تو مَیں خوش ہو جاتا ہوں کہ کہانی سے جدائی ختم ہو گئی۔ لیکن جب ڈور کا ایک سِرا میرے ہاتھ میں رہ جاتا ہے تو کہانی کہتی ہے کہانی تو اب شروع ہو گئی۔
اچھا اچھا ابھی کہانی شروع ہونی ہے تو پھر کہانی جلد شروع کرو۔ کہانی روٹھ نہ جائے۔ ہاں تو مَیں بتا رہا تھا مَیں نے ایک خواب دیکھا قبریں دیکھیں۔ ان قبروں میں اپنے آپ کو دیکھا۔ پھر آگ دیکھی۔ جدائی دیکھی۔ آنسو دیکھے اور پھر ایک دن اُسی خواب کو یاد کرتے ہوئے مَیں نے حقیقیت میں خالی پیٹ دوا کھالی۔ دوا نے اُلٹا اثر کیا۔ مَیں اپنے ہوش کھو بیٹھا۔ خواب جو مَیں دیکھ رہا تھا وہ اب حقیقت میں تبدیل ہونے لگا۔ مَیں نے سب سے قیمتی متاع کو آواز دی۔ اس آواز نے میری دل جوئی کی اور سڑکوں پر رواں دواں ہو گیا۔ ایمبولینس کے ہوٹر کی آواز اور میرے دل کے دھڑکنے کی رفتار میں فرق آنے لگا۔ نبض ڈوبنے لگی۔ کہانی کا آخری موڑ آنے لگا۔ مَیں شہر کے سب منظر آخری بار دیکھنا چاہتا تھا۔ بچوں کی شکلیں ان کی آوازیں۔ شہر کے کچھ پیارے لوگ۔ سڑکوں پر اوندھی پڑی ہوئی یادیں۔ ان سب کو مَیں آخری بار۔۔۔۔۔۔ ایمبولینس کی رفتار تیز ہو رہی تھی اور زندگی بھی تیزی سے موت کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ایسے میں مجھے خیال آیا مجھے کلام کرنا ہے اس سے جو سب سے بڑے کلام کا خالق ہے۔ مَیں نے سوچنا شروع کیا اس سے کلام کیسے ہو؟ اس سے درخواست کیسے کی جائے؟ پھر سوچا درخواست تو لکھی جاتی ہے میرے پاس لکھنے کا وقت نہیں۔ مَیں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا وہ بے جان ہو چکے تھے۔ آنکھوں میں روشنی کم ہو رہی تھی۔ دل کی دھڑکن میری زندگی کے خوابوں کی طرح بے ترتیب۔ ایسے میں میری زبان نے میرا ساتھ دیا۔ ذہن، دماغ اور دل اکھٹے ہوئے اور مَیں نے اپنے گم شدہ خدا کو جاتی زندگی کے لمحوں میں تلاش کیا تو معلوم ہوا یہ تو وہ خدا ہے جو میرے گھر میں بچوں کی صورت میں رہتا ہے۔ جو لائبہ ہے۔ میرے رت جگوں میں ہے۔ سسکیوں، آہوں اور رنجشوں میں ہے۔ فارحہ ہے اور ہر طرف جگ مگ کرتا ہے۔ گھر کے آنگن میں کھلے ہوئے پھولوں میں ہے۔ پھولوں کی خوشبو میں ہے۔ میرا خدا میری ماں کے اُس پلو میں ہے جو میرے باپ کے مرنے کے بعد ہر وقت اپنے آنسوؤں سے معطر کرتی رہتی ہے۔ میرا خدا تو میری ماں کی آزمائش کی دھوپ بھی ہے جس میں وہ ہر وقت کامیاب و کامران ہے۔ میرا خدا خواہشوں کی اس نگری میں بھی ہے جہاں سے کوئی سائل خالی نہیں لوٹتا۔ بس ایسے میں مَیں نے موت کی طرف جاتے ہوئے اپنے خدا کو پکارا اور اس نے میری آواز سن لی۔ میری کہانی مکمل ہو گئی۔ ہر زندگی کی حقیقت آشکار ہو گئی اور یہ جو اکتوبر آیا ہے نا 2017ء والا۔ میری خدا سے ملاقات کی پہلی سالگرہ ہے۔ مَیں نے اپنے خدا سے ملاقات کرنا چاہی تو مجھے حرف مقطعات کے ذریعے اللہ کے رازوں سے ملاقات ہو گئی اللہ کے راز کیا ہیں ان رازوں کے بارے میں اللہ کے بندے ہی بتاتے ہیں کہ وہ کیسا ہے ؟ وہ اپنے بندوں سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اسی لئے اس نے مجھے کہا جب کبھی تم مجھے تلاش کرنا چاہو اور مَیں نہ مل سکوں تو اپنے اِردگرد بندوں میں مجھے تلاش کرنا اور جب بندوں کی صورت میں نہ خدا مل جائے تو میرا شکر ادا کرنا کہ مجھے شکر پسند ہے۔
مَیں اس کی کہانی سن رہا تھا۔ اس کا ہاتھ مضبوطی سے مجھے تھامے ہوئے تھا اور مَیں سوچ رہا تھا کہ بعض اوقات دُکھ اور اذیت کے موسم میں دُعا کے پھول ایسے کھِلتے ہیں کہ ان کی خوشبو ختم نہیں ہوتی اور وہ لمحے ناز کے لمحے بن کر خدا سے ملاقات کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ