سپریم کورٹ میں دن بھر کی کھینچا تانی کے بعد بالآخر یہ اتفاق ہؤا ہے کہ تحریک انصاف اور چوہدری پرویز الہیٰ حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ تسلیم کریں گے اور 17جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں کے نتائج سامنے آنے کے بعد 22 جولائی کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب ہوگا۔
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی طرف سے حمزہ شہباز کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے کا مؤقف ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے کو’ آئینی خلا ‘میں نہیں چھوڑ اجاسکتا۔ اپریل میں پنجاب اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہونے کے بعد سے تحریک انصاف اور پرویز الہیٰ نے بہر صورت سیاسی بحران پیدا کیا ہے۔ پرویز الہیٰ وزارت اعلیٰ کے امیدوار بھی ہیں لیکن اسپیکر پنجاب اسمبلی کے طور پر اپنے اختیارات استعمال کرنے پر بھی بضد ہیں۔ اس چپقلش کی وجہ سے17 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے پرہنگام اجلاس میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب چن لیا گیا۔ اسمبلی میں اپنے ہی پچیس ارکان کی حمایت کھونے اور اکثریت سے محروم ہونے کے باوجود تحریک انصاف محض پنجاب کے معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے اسمبلی اجلاس میں رکاوٹیں ڈالتی رہی ہے۔ حتی کہ گزشتہ ماہ کے دوران حکومت کو بجٹ پیش کرنے کے لئے اسمبلی کا اجلاس ایوان اقبال میں بلانا پڑا تھا کیوں کہ اسپیکر کے طور پر پرویز الہیٰ نے پنجاب اسمبلی عمارت کو اپنی ذاتی ’جاگیر‘ میں تبدیل کیا ہؤا تھا۔
ملکی سیاست کا سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مسلمہ جمہوری و پارلیمانی اصولوں کے مطابق آگے بڑھنے یا انہیں ماننے کے لئے تیا رنہیں ہیں۔ اس کی بجائے ایک دوسرے کو زچ کرنے اور امور مملکت میں تعطل پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سال کے شروع میں موجودہ سیاسی بحران شروع ہونے کے دوران سیاسی روابط میں چوہدری پرویز الہیٰ نےآصف زرداری اور شہباز شریف سے ملاقاتیں کی تھیں اور متحدہ اپوزیشن کے امید وار کے طور پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس دوران عمران خا ن کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد پانسہ پلٹ گیا۔ ایک طرف عمران خان نے اپنے چہیتے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا اور دوسری طرف پرویز الہیٰ جیسے روائیتی سیاست دان کو تحریک انصاف کا امید وار نامزد کردیا جنہیں وہ کچھ عرصہ پہلے تک ملک لوٹنے والے بدنام زمانہ عناصر میں شامل کرتے تھے۔ اس کے بعد سے پرویز الہیٰ نے پنجاب اسمبلی کو ہمہ قسم انتشار کر شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ حمزہ شہباز کے انتخاب کے حوالے سے متعدد درخواستیں لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں جن کو ملا کر غور کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے گزشتہ روز حمزہ شہباز کو ملنے والے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرنے اور اگر انہیں اسمبلی کے کل ارکان کی حمایت حاصل نہ ہو تو دوبارہ رائے شماری کرواکے حاضر ارکان کی تعداد میں اکثریت کے اصول کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ اجلاس جمعہ کو شام چار بجے منعقد کرنے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا حتمی فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
تحریک انصاف اور چوہدری پرویز الہیٰ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کے 25 ارکان کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی گروہ کو پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق اگر 17 اپریل کو پڑنے والے ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں حمزہ شہباز اکثریت سے محروم ہو بھی جاتے تو بھی چار بجے منعقد ہونے والے اجلاس میں انہیں اکثریت کی حمایت حاصل رہتی۔ اس طرح حمزہ شہباز کو نیچا دکھانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔ اسی لئے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی جس کی سماعت کے دوران عدالت عظمی کے سہ رکنی بنچ نے سیاسی لیڈروں کو مفاہمت سے کسی اصول پر متفق ہونے پرمجبور کیا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے یہ واضح کردیا کہ پنجاب آئینی طور سے وزیر اعلیٰ کے بغیر نہیں رہ سکتا ، اس لئے حمزہ شہباز کے انتخاب کو ناجائز قرار دینے کا حکم جاری نہیں ہوگا۔ یہ بھی واضح کردیا گیا کہ تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان کی درخواست کے مطابق وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے منعقد وہنے والے اجلاس کو ایک ہفتہ کے لئے مؤخر نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر نئے ارکان کی نامزدگی کے نوٹی فکیشن کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے دینے یا حکم جاری کرنے سے گریز کیا۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف اور پرویز الہیٰ سے پوچھا گیا کہ وہ مسئلہ کا حل تلاش کریں۔
تحریک انصاف کے وکیلوں نے پنجاب حکومت کے نمائیندوں سے ملاقات کرکے یہ اتفاق کرلیا کہ حمزہ شہباز ہی 17 جولائی تک وزیر اعلیٰ رہیں گے اور اس روز بیس صوبائی نشتستوں پر ہونے والے انتخاب کے بعد 22 جولائی کو نئے وزیر اعلیٰ کا انتخا ب ہوگا تاکہ پوری پنجاب اسمبلی اس میں حصہ لے سکے۔ بعد میں ویڈیو لنک کے ذریعے پرویز الہیٰ سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججوں نے انہیں بھی اس تجویز پر اتفاق کرنے پر راضی کرلیا۔ یہ اتفاق رائے بلاشبہ ایک پیچیدہ مسئلہ میں خوش آئیند راستہ ہے جس میں کسی کی فتح یا ہار کا کوئی نشان نہیں ملتا لیکن پرویز الہیٰ اور تحریک انصاف نے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف اس فیصلہ کے بعد جو مفاہمت کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے حکم پر مشتمل ہے، یہ دعویٰ کرنا شروع کردیا ہے کہ تحریک انصاف کی اصولی فتح ہوئی ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف نے تو حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ سے نااہل قرار دلوانے ، نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ایک ہفتہ ملتوی کرنے اور پانچ مخصوص نشستوں پر لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے متنازعہ حکم کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن جاری کروانے کے عدالت عظمی سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان میں سے کوئی بھی مطالبہ تسلیم نہیں کیا بلکہ حمزہ شہباز کو پنجاب کا جائز اور آئینی وزیر اعلیٰ تسلیم کیا۔ فواد چوہدری نے عدالت سے درخواست کی کہ ان حالات میں حمزہ شہباز کو قائم مقام وزیر اعلیٰ کہا جائے، تو اس تجویز کو سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے مسترد کردیا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف اگر اسے اپنی کامیابی سمجھتی ہے تو اسے فیس سیونگ کی بھونڈی کوشش ہی کہا جائے گا۔
یوں تو گزشتہ تین ماہ کے دوران رونما ہونے والے واقعات سے ملکی سیاست دانوں کو یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی جمہوریت کو درست راستہ اور منتخب اسمبلیوں کو مسائل حل کرنے کا مناسب پلیٹ فارم سمجھتے ہیں تو وہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لے جانے اور وہاں سے ریلیف لینے کی کوشش کرنے کی بجائے اسمبلیوں کو وقار دیں۔ ایک دوسرے سے اختلاف کریں لیکن اختلافی امور پر مل جل کر اسمبلیوں کے اندر ہی معاملات طے کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے پہلے عسکری ادارے ملکی سیاسی دھڑوں میں مفاہمت کروانے اور معاملات طے کروانے میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب سب سیاسی پارٹیاں اسمبلیوں میں بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے عدالتوں سے فیصلے لے کر اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔ اس طریقے سے گروہی سیاسی فائدہ تو حاصل ہوجاتا ہے لیکن اسمبلیوں کے اختیارات عدالتوں میں لے جانے سے ملکی جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس کے علاوہ عوام میں یہ رائے راسخ ہوگی کہ ملک کے سیاست دان مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
تحریک انصاف کو خاص طور سے اپنے طرز عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف وہ موجودہ سیاسی انتظام کو ناقص قرار دے کر فوری انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے ۔ اسی مقصد سے قومی اسمبلی سے استعفے بھی دیے گئے ہیں۔ اس پارٹی کے ارکان نے اب تک اپنے استعفوں کی تصدیق نہیں کی اور انہیں باقاعدہ طور سے رکنیت سے محروم کرکے نئے لوگوں کو عوام کی نمائیندگی کا موقع بھی نہیں مل سکا ہے۔ دوسری طرف کسی ناراض بچے کی طرح عمران خان اور ان کے ساتھی قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کئے ہوئے ہیں۔ لیکن ہر ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کی کوشش بھی جاتی ہے اور صوبائی اسمبلیوں میں اقتدار حاصل کرنے کی جد و جہد بھی کی جارہی ہے۔ اسی تگ و دو کی وجہ سے پنجاب اسمبلی اس وقت تعطل کا شکار ہے اور اس کے معاملات پر ایک کے بعد دوسری عدالت کو احکام جاری کرنا پڑتے ہیں۔
سیاسی حکمت عملی میں مخالف سیاسی گروہوں کی پالیسیوں پر تنقید کی جاتی ہے اور ان کا متبادل پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ اسے شخصی لڑائی نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی ذاتی حملے کرکے کسی کی نمائیندہ حیثیت ماننے سے انکار کیا جاتا ہے۔ عمران خان اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو انہیں آج اقتدار سے محروم ہوکر شدید گرمی میں احتجاج کا راستہ اسی لئے اختیار کرنا پڑا ہے کیوں کہ اقتدار کے دوران انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں سے ورکنگ ریلیشن قائم کرنے کی بجائے اسے کسی بھی صورت سیاسی منظر نامہ سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ اب وہ جلد انتخابات کے لئے دباؤ بڑھا رہے ہیں ۔ اسی حکمت عملی کے نتیجہ میں مرکزی حکومت کے علاوہ پنجاب حکومت کو غیر مؤثر اور ناکام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ طریقہ کسی ایک پارٹی یا عمران خان کے سیاسی دشمنوں کی ناکامی کا سبب نہیں بن رہا بلکہ ملک کی ساکھ اور عوام کے مفادات متاثر ہورہے ہیں۔ لیکن عمران خان یہ فرق محسوس کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہیں۔
پنجاب میں سیاسی دنگل تو شاید اس ماہ کے آخر تک انجام کو پہنچ جائے گا لیکن اب اپنے ’صدر‘ کو اس بات آمادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کریں۔ خبر کے مطابق اتحادی حکومت میں شامل بعض چھوٹے گروہوں کی ناراضی کی خبریں سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف نے ان سے رابطہ کیا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح ایک دو ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہونے والے شہباز شریف کو ہزیمت سے دوچار کرکے نئے انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ وہ ان انتخابات کو ’سویپ‘ کرلیں گے۔ حالانکہ کسی مجبوری میں اسی سال کے دوران نئے انتخابات منعقد ہو بھی گئے تو بھی تحریک انصاف یا کسی بھی سیاسی جماعت کا اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
گویا حکومت کو کمزور کرنے کے لئے جوڑ توڑ کے نتیجے میں سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں کی بجائے وہی عناصر مضبوط ہوں گے جس کی سرپرستی سے محروم ہوکر عمران خان ’بیروزگار‘ ہوئے ہیں۔ سیاسی چال چلتے ہوئے یہ تو سوچ ہی لینا چاہئے کہ اس کا فائدہ یا نقصان کیا ہوگا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ