کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی ہے۔ سینیٹ کے چئیرمین یوسف رضا گیلانی نے اسے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کے حوالے کردیا ہے تاکہ اس پر غور و خوض کے بعد حتمی تجاویز تیار ہوسکیں۔
تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس آئینی بل میں تجویز کردہ ترامیم کی مخالفت کی ہے اورتحریک تحفظ آئین پاکستان کے لیڈروں نے اس آئینی ترمیم کے خلاف فوری طور سے احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر قانون کی طرف سے پیش کی گئی 27ویں آئینی ترمیم میں اگرچہ آئین کی 40 شقوں میں تبدیلیاں کی جائیں گی لیکن اس مجوزہ ترمیم کا فوکس دو امور پر ہے۔ ایک آرمی چیف کے اختیارات کو مستحکم اور وسعت دینا اور دوسرے ملک میں آئینی عدالت کا قیام اور ججوں کو کنٹرول کرنے کا میکنزم۔ ترمیم کے تحت ہائی کورٹس کے ججوں کے تبادلہ کو لازمی قرار دیتے ہوئے ، متعلقہ جج کی رضامندی کی شق ہٹائی جارہی ہے۔ اگر کوئی جج اپنے تبادلے سے انکار کرے گا تو وہ اسی دن سے اپنے عہدے سے ریٹائر تصور ہوگا۔
ترمیمی مسودے کے تحت آئین کے آرٹیکل 243 میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم ہو جائے گا۔ اس کی بجائے چیف آف آرمی سٹاف ہی اب چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کی مشاورت سے نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کا سربراہ مقرر کریں گے۔ ملک کے جوہری اثاثے اسی کمانڈ کے تحت ہوتے ہیں۔ یہ بھی اضافہ کیا گیا ہے کہ نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تعلق پاکستانی فوج سے ہو گا۔ آئینی ترمیم کے مطابق فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات ہوگا اور متعلقہ شخص کو ساری زندگی یونیفارم پہننے کا حق حاصل ہوگا۔ فیلڈ مارشل کو وزیر اعظم بھی اس رینک سے نہیں ہٹا سکے گا بلکہ اس کا مواخذہ صدر مملکت کی طرح پارلیمنٹ ہی کرسکے گی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی ترمیم میں فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا فلیٹ ایڈمرل کا ذکر کیا گیا۔ یہ قومی ہیروز ہوں گے، ساری دنیا میں یہ خطاب تاحیات ہے۔ اس عہدے اور خطاب کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ اس (عہدے) کا مواخذہ یا واپسی وزیر اعظم کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ پارلیمان کا اختیار ہو گا کیونکہ وہ ساری قوم کا ہیرو ہے، کسی ایک وزیر اعظم یا ایگزیکٹو کا ہیرو نہیں۔ جب فیلڈ مارشل کمانڈ چھوڑیں گے تو وفاقی حکومت کا اختیار ہو گا کہ وہ انہیں اعزازی یا مشاورتی رول میں کام کرنے کے لیے کہیں۔ تاہم فیلڈ مارشل کو ملنے والی مراعات و سہولتیں تاحیات ہوں گی۔
آئینی ترمیم میں شامل کیے گئے الفاظ سے دیکھا جاسکتا ہے کہ شق 243 میں تبدیلی کا واحد مقصد موجودہ آرمی چیف عاصم منیر کی پوزیشن مستحکم کرنا اور ان کے اختیارات میں اضافہ ہے۔ اس طرح یہ ترمیم کسی وسیع تر قومی مفاد کی بجائے ایک فرد کو مزید طاقت عطا کرنے کے کی جارہی ہے۔ حکومت پہلے ہی عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے چکی ہے اور اب انہیں مزید اختیارات دیے جارہے ہیں۔ ایک طرف برطرفی کے لیے پارلیمنٹ سے مواخذہ کی شرط رکھ کر انہیں صدر مملکت کے مساوی حیثت دی جارہی ہے تو دوسری طرف انہیں نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تقرر کرنے کا اختیار دے کر وزیر اعظم کے مساوی اختیارات عطا کیے جارہے ہیں۔
فیلڈ مارشل کو بطور آرمی چیف کلی اختیارات کا حامل قرار دینے کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کا عہدہ ختم کردیاگیا ہے۔ اس کی بجائے آرمی چیف کو ہی اضافی طور سے چیف آف ڈیفنس فورسز مقرر کیا گیا ہے۔ اس طرح وہ عملی طور سے ملکی فوج کے علاوہ ائیرفورس اور بحریہ کے کمانڈر بھی ہوں گے۔ یوں ایک فرد میں تمام اختیارات جمع کرکے انہیں ملک کا سب سے طاقت ور شخص بنایا گیا ہے۔ یہ عہد جدید میں ’بادشاہت‘ قائم کرنے کی ایک نادر روایت استوار کرنے کی افسوسناک کوشش ہے۔ آج حکومت ایک پیج کی برکتوں سے فیض یاب ہورہی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف کا خیال ہے کہ آرمی چیف ان کی مسلسل حمایت کرتے ہیں لہذا انہیں زیادہ سے زیادہ مضبوط کیاجائے۔ تاہم ایسا قدام کرتے ہوئے حکومت یہ قیاس کرنے میں ناکام ہے کہ وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ آرمی چیف کو ’سپر مین‘ کے رتبے پر فائز کرکے مستقبل میں سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت اور اثر و نفوذ میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح ملک میں جمہوری طور سے منتخب ہونے والی حکومت کے لیے جو تھوڑی بہت سپیس باقی رہی ہے، اسے بھی ختم کیا جارہا ہے۔ اب اگرچہ پارلیمنٹ کے انتخابات ہوں گے اور اسمبلیوں کے ارکان لوگوں کے ووٹوں سے ہی منتخب ہو کر ایوان میں پہنچیں گے۔ لیکن ان کا نمائیندہ وزیر اعظم ہر چھوٹے بڑے معاملے میں رہنمائی اور حتمی فیصلہ کے لیے آرمی چیف کی مرضی حاصل کرنےپر مجبور ہوگا۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملک میں جمہوری روایت کو کمزور کرنے کی غیر ذمہ دارانہ کوشش کی جارہی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر میں اس وقت غیر معمولی طور سے عمدہ ہم آہنگی موجود ہے لیکن وزیر اعظم جیسے انہیں ہر غیر ملکی دورہ میں ساتھ لے کر جاتے ہیں اور سربراہان مملکت و حکومت کے ساتھ ملاقات میں فیلڈ مارشل ہمراہ ہوتے ہیں، ا س کی روشنی میں یہ جاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو اور فیصلوں کا اصل محور کون ہے۔ مواصلت و یگانگت کے ماحول میں تو شاید کسی ایک عہدے دار کے غیر معمولی اختیارات کا بوجھ محسوس نہ ہو لیکن اختلافات کی صورت میں یہ صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے۔ ماضی میں تو پھر بھی وزرائے اعظم نے کسی حد تک آرمی چیف کے فیصلوں سے اختلاف کرنے کا حوصلہ کرلیا تھا لیکن نئی ترمیم کے بعد وزیر اعظم کمزور اور آرمی چیف مزید بااختیار ہوجائے گا۔ ایک جمہوری حکومت اس غیرمعمولی فیصلہ کے لیے اگرچہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوگی لیکن آئیندہ کوئی حکومت یا پارلیمنٹ شاید اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے قابل نہ ہوسکے۔
وزیر قانون کے مطابق آئینی عدالت کا قیام 2006 میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کے مطابق عمل میں لایا جارہاہے۔ اب سپریم کورٹ پر بوجھ کم کرکے آئینی اور سیاسی نوعیت کے معاملات کو آئینی عدالت منتقل کردیاجائے گا تاکہ سپریم کورٹ باقی ماندہ معاملات پر پوری توجہ مبذول کرسکے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل سے متعلق آرٹیکل 209 میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ اس کونسل میں اب وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے سب سے سینیئر ججز اور ہائیکورٹس کے دو سب سے سینیئر ججز شامل ہوں گے۔ اس طرح عدالتی معاملات اور ججوں کی نگرانی کے ادارے کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرکے اس پر موجودہ سپریم کورٹ یا چیف جسٹس کی بالا دستی ختم کردی گئی ہے۔ آئینی عدالت میں اگرچہ سب صوبوں سے مساوی تعداد میں جج لیے جائیں گے تاہم ان کی تقرری موجودہ حکومت کی صوابدید یا اس خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اختیار ہوگی جس میں حکومت کو اکثریت حاصل ہے ۔ یہ کمیٹی چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہوئی تھی۔
ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کو ملازمت کا لازمی جزو قرار دے کر حکومت اعلیٰ عدلیہ کےججوں پر انتظامی دباؤ میں اضافہ کررہی ہے۔ یا سزا کے طور پر ان کا تبادلہ کسی بھی ہائی کورٹ میں کرنے کا اختیار حاصل کیا جارہا ہے۔ اس اختیار کے تحت کسی ہائی کورٹ میں درد سر بننے والے جج یا ججوں کا تبادلہ بھی کیا جاسکے گا۔ جو جج تبادلہ قبول کرنے سے انکار کرے گا ،اسے عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ ترمیم کے اس حصے کو گزشتہ کچھ عرصہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے متعدد ججوں کے احتجاج اور تبادلہ شدہ ججوں کوقبول نہ کرنے کے فیصلہ کی روشنی میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اب حکومت کے لیے ایسے ججوں سے ’نمٹنا‘ آسان ہوجائے گا۔ اس صورت میں اگر اپوزیشن یا وکلا اسے عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ قرار دیتے ہیں تو اسے مسترد نہیں کیاجاسکے گا۔
حکومت نے پیپلز پارٹی کی مخالفت کے بعد این ایف سی میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کی شقات مجوزہ آئینی ترمیم میں شامل نہیں کیں۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکامی کے ذریعے تقریباً ہر صوبائی حکومت اٹھارویں ترمیم کے تحت ملنے والے اضافی مالی وسائل کو ناجائز طور سے خود اپنے مصرف میں لاتی رہی ہے۔ اس طرح وسائل کے ارتکاز کی نئی صورت حال بہر حال موجود رہی ہے۔ 27 ویں ترمیم میں صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے اور مالی وسائل کی علاقوں میں تقسیم پر مجبور کرنے کے لئے کوئی ترمیم بھی تجویز نہیں کی گئی۔ حالانکہ وفاقی حکومت کے مالی مسائل اور عوام کی محرومیاں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ این ایف سی میں مالی وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار کا غیر جانبداری اور ذمہ داری سے جائزہ لیا جاتا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

