23 مارچ 1940 کی قرارداد پاکستان اور 12 مارچ 1949 کی قرار داد مقاصد کے بیچ ایک پڑاؤ 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی سے محمد علی جناح کے خطاب کا بھی ہے۔ تاہم پاکستان کی ایکسپریس ٹرین کو اس پڑاؤ پر رکنے کا ’اشارہ‘ نہیں ہے۔ جناح کو ہم نے قائد اعظم کا ’تمغہ ‘ دے کر تقدس کے ایسے مقام پر فائز کردیا ہے کہ جس سے مواصلت ، بشری تقاضوں سے ماورا ہے۔ ہماری قومی گاڑی البتہ بہت تیزی سے دائرے کا سفر مکمل کررہی ہے جس میں 7 دہائیاں بیت جانے کے باوجود منزل کا پتہ مفقود ہے۔
تحریک پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے حصول کے بعد شروع ہونے والے سفر میں ’ترقی معکوس‘ کاسلسلہ دراز ہے۔ یوں تو یہ مشکل لسانی اصطلاح ہے لیکن پاکستان میں رہنے اور اس کے تاریخی زیر و بم سے گزرنے والی نسل در نسل کسی استاد کی رہنمائی کے بغیر بھی اس اصطلاح کے معنی جاننے لگی ہے۔ ایک قدم آگے اور چار قدم پیچھے جیسے محاورے شاید اہل پاکستان کی حالت زاربیان کرنے کے لئے ہی ایجاد کئے گئے تھے۔ ایک بار پھر یوم قرار داد پاکستان منانے کا جوش و ولولہ سامنے ہے۔ کورونا وائرس کی تیسری لہر کے باوجود دو روز بعد فوجی پریڈ پورے جاہ و جلال سے منعقد ہونے کا پروگرام طے کیا گیا ہے۔ قوم کو ایک بار پھر آزادی اور اس کی اہمیت کا سبق ازبر کروایا جائے گا۔ لیکن نصابی سبق میں کوئی جدت نہیں ہے۔ یہ وہی سبق ہے جو ایک گورنر جنرل کے غیر قانونی استبداد سے شروع ہو کر ایوب خان کے مارشل لا سے ہوتا ہؤا باجوہ ڈاکٹرائن تک پہنچ کر جامد ہوگیاہے۔ سفر جاری ہے لیکن راستہ کٹنے کا نام نہیں لیتا۔
ملک کو ایک بار پھر اسی طوفان کا سامنا ہے جو اس سے پہلے بھی اس قوم کا مقدر بن چکا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب کوئی اس طوفان کی شدت سے بدحواس نہیں ہوتا۔ کوئی اسے مقدر کا لکھا مان چکا ہے اور کسی کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ قومی سلامتی اور ملکی خوشحالی کا یہی راستہ دراصل اس خواب کی تکمیل ہے جو برصغیر کے مسلمانوں نے محمد علی جناح کی قیادت میں دیکھا تھا۔ اس خواب کی کچھ علامات واضح ہیں لیکن کہانی کے بہت سے پنّے غائب ہیں۔ ان اوراق تک دسترس ویسے ہی ممنوع ہے جیسے کہ 11 اگست 1947 کو کی گئی بانی پاکستان کی تقریر کامطالعہ ’غیر ضروری اور گمراہ کن‘ قرار دیا جاچکا ہے۔ اس تقریر کو پڑھ کر اس کے متن کے بارے میں کچھ سوال، اس قوم کا ہر نوجوان سوچنے پر مجبور ہوگا۔ ان سوالوں کا جواب جس منزل کی طرف رہنمائی کرے گا ، ہمارا سفر اس سے مخالف سمت میں جاری و ساری ہے۔ ساری شجاعت، دلیری بلکہ دیدہ دلیری کے باوجود ہم ابھی تک اتنے ’شفاف اور دیانت دار‘ نہیں ہوسکے کہ ان سوالوں کا سامنا کرسکیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ دائرے کے سفر میں ایک سے مناظر کا سامنا نہ ہو۔ بالکل ایسے ہی مشکل سوالوں کے آسان جواب بھی موجود نہیں ہوتے۔ اس لئے آسان طریقہ ہے کہ ان شاخوں کو شجر سے نوچ لیا جائے جو ’سوچ‘ کی کونپلیں پرداخت کرتی ہوں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ نسل در نسل جب ایک سا منظر دوہرایا جائے گا تو ایک سے سوال بھی سر اٹھائیں گے اور کچھ نہ کچھ لوگ ان کے جواب تلاش کرنے پر بھی اصرار کریں گے۔ اس لئے قوم کا ماٹو یہ قرار پایا ہے کہ ’سوال کرنا گناہ‘ ہے۔ جو اس گناہ کا مرتکب ہوگا اس کے لئے کم از کم سزا ’وطن دشمنی‘ کا طعنہ ہے اور مکمل زبان بندی کے لئے توہین مذہب کی تلوار بھی میان سے نکل سکتی ہے۔ ہم نے ان تمام راستوں کو مسدود کیا ہے جو سوالوں کو جنم دیتے ہیں۔ تعلیمی نصاب کو نعرہ اور خواہشات کا باب بنا دیا اور تحقیق و جستجو کو کفر کی علامات قرار دیا گیا۔ کوئی یونیورسٹی پچاس برس بعد ملک ٹوٹنے کے اسباب اور بنگلہ دیش بننے کی وجوہات پر غور کرنے اور سوال اٹھانے کا اہمتام کرنا چاہے تو اس کے لئے آسان سا پیغام ہے: یہ سبق پہلی جماعت کے قاعدے سے لے کر یونیورسٹی کی ضخیم کتابوں تک میں ازبر کروایا جاچکا ہے۔ اب آپ نئے سیمینار اور نئی تحقیق سے کون سا تیر چلالیں گے۔
شاید یہ بھی ایک مسئلہ ہو۔ جس ملک میں پہلی جماعت اور یونیورسٹی کی تدریس میں فرق کرنا ممکن نہ ہو۔ جہاں یونیورسٹی کے طالب علم بھی ویسے ہی توتوں کی طرح رٹا لگا کر امتحان پاس کرتے ہوں جیسے کسی پرائمری اسکول میں سبق یاد کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ وہاں یہ کیسے بتایا جائے گا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تو استاد نے اب کتاب لپیٹ کر رکھ دی ہے اور بچوں کو فطرت کا مشاہدہ کرکے اپنے نتیجے اخذ کرنے، خود جاننے اور پھر سوال کرنے کی طرف راغب کیا ہے تاکہ جستجو کا سلسلہ رک نہ پائے۔ بنی نوع انسان پتھر کے زمانے سے جیٹ ایج میں اسی تجسّس کے سہارے پہنچی ہے۔ لیکن ’قرار داد مقاصد‘ کی ایمانی روشنی سے آگے بڑھنے والے پاکستان میں تو ہم ’ ارطغرل ‘ کے حوصلہ ویقین سےراستہ کھوجتے ہیں۔ یہ دو تہذیبوں یا عقائد کا فرق نہیں ہے۔ یہ بعد المشرقین دراصل مزاجوں کا فرق ہے۔
اس کی توجیہ کی جائےتو یہ جاننا مشکل نہیں ہوگا کہ یہ مزاج ایک خاص ضرورت اور مقصد سے راسخ کیا گیا ہے۔ اس میں علم کا راستہ غور و فکر کی بجائے فرمان ماننے کو قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل پاکستان نے 74 برس قبل جس سفر کا آغاز کیا تھا ، وہ گو کہ آگہی یعنی آزادی اور اپنی شناخت کے نام سے شروع ہؤا تھا لیکن قوم کے لیڈروں نے مخصوص ضرورتوں اور تقاضوں کے تحت اسے مجبوری اور حدود و قیود کا پابند کردیا۔ پابندی آزادی کا متضاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آزاد لیکن اس کے شہری مقید ہیں۔ اس قید کے کئی نام ہیں۔ ایک نام حال ہی میں دریافت ہؤا ہے کہ ووٹ کو عزت نہیں دی جاتی۔ یعنی عوام کی رائے کی بنیاد پر پاکستان قائم کیا گیا تھا ۔ اس لئے یہ طے تھا کہ ملک میں انہیں سوچنے، راستہ کھوجنے اور فیصلے کرنے کی آزادی ہوگی۔ اس آزادی کو بوجوہ پابندی میں تبدیل کیا گیا۔ اس کا پہلا زینہ قرار داد مقاصد قرار پائی کہ کائینات اللہ کی اور وہی اس کا حاکم ہے۔ اسی کے فیصلے نافذ العمل ہوں گے۔
یہ الفاظ سادہ و پرکار ہیں۔ خوش عقیدہ لوگوں کو خوش گمانی میں مبتلا کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن اقلیتوں کے سب نمائیندوں نے بیک زبان اس کی ہلاکت خیزی سے متنبہ کیا تھا۔ اکثریت کے نمائیندے اس وقت اقتدار کو مستحکم کرنے، نومولود مملکت کو مضبوط کرنے کے لئے ’اتفاق رائے’ پیدا کرنے اور سیاسی ہم آہنگی کے سنہرے مقاصد سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ وہ ملک کی مٹھی بھر ( آبادی کا 15 فیصد) مذہبی اقلیتوں کو ایک عظیم قومی مقصد کی تکمیل سے روک نہیں سکتے تھے۔ کون جانے کہ اس وقت اسلام کی سربلندی اور عوام کی بہبود و سلامتی کے نقطہ نظر سے ’قرار داد مقاصد‘ میں طے کئے گئے اصولوں کو ترقی کا راستہ قرار دینے والے قائدین یہ جانتے تھے کہ نہیں کہ الوہی حاکمیت کے جس تصور کو وہ مسلمانوں کی فتح قرار دے رہے تھے ، وہ دراصل حریص سول اور فوجی لیڈروں کی طاقت بن جائے گی ۔ جمہوریت اور عوامی حاکمیت کے جس تصور کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں نے علیحدہ ملت ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ہندو اکثریت کے جبر سے آزادی کا قصد کیا تھا ، وہ خود اپنے ہی رہنماؤں، اشرافیہ اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں تباہ ہوجائے گا۔
کسی قرارداد کے الفاظ ترقی کی خواہش رکھنے والی کسی قوم کا راستہ روکنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن ان الفاظ سے مفاد پرست گروہ اور لیڈر ایسی بیڑیا ں ضرور تیار کرسکتے ہیں جو پاؤں کی حرکت ہی نہیں سوچنے کی قوت بھی نابود کرسکتی ہیں۔ آج کا پاکستان اس افسوسناک غلامی کی زندہ تصویر ہے۔ اب ’ قانون ‘ کتاب میں لکھا ہؤا بے معنی لفظ ہے۔ ’آئین‘ بالادست کے مفاد کی تشریح کرنے والی دستاویز ہے اور عدل و انصاف موقع پرستی و وقتی تقاضوں کو پورا کرنے کا طریقہ ہے۔ ایسے میں نظریہ پاکستان کو جو چاہے نام دے لیا جائے لیکن یہ اس خواب کی تعبیر نہیں ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے آنے والی نسلوں کے لئے دیکھا تھا۔ یہ وہ خواب بھی نہیں ہے جسے آج بوڑھی ہوتی یا قبر میں اترتی نسلیں اپنے بچوں کا مقدر بنانا چاہتی ہیں۔
پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا نعرہ لگا کر اسے عوامی خواہشات کا قبرستان بنانے والوں کو اس بات کا جواب بہر صورت دینا ہوگا کہ جس پہلو کو وہ پاکستان کی بنیاد قرار دیتے ہیں یعنی اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق، وہ تو انہیں انگریز کے ہندوستان میں بھی حاصل تھا۔ اور نریندر مودی کے ہندو توا جبر کے باوجود بڑی حد تک اب بھی بھارت کے مسلمانوں کو میسر ہے۔ وہ اسلامی نام رکھ سکتے ہیں، مسجدیں آباد کرسکتے ہیں اور شرعی قوانین کے مطابق اپنی نجی زندگی گزارنے کا ااستحقاق رکھتے ہیں۔ محمد علی جناح کا تصور آزادی ، سیاسی خود مختاری اور معاشی حقوق سے مشتق تھا۔ پاکستانی عوام سے یہ حق چھیننے والے کیوں کر پاکستان کو آزاد اور یہاں کے عوام کو خود مختار قرار دے سکتے ہیں؟
پاکستان کی تکمیل کا سفر ایک نکتہ پر جامد ہوگیا ہے۔ یہ جبر سے آزادی کا سفر تھا۔ جبر کی زنجیریں ابھی تک پاؤں کی بیڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ قرار داد پاکستان اپنے فیصلے خود کرنے کے حق کا نام ہے۔ قرار داد مقاصد اس حق سے دست برداری کا اعلان ۔ بیچ میں پڑنے والا قائد کا بصیرت افروز خطاب مشعل راہ ہوسکتاہے۔ لیکن ہمارے قومی سفر کی گاڑی کااس پڑاؤ پر رکنا منع ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ