سوال ہے کہ کیا پاکستان میں سیاسی بحران موجود ہے؟ اور اس عدم استحکام کی کیا وجوہات ہیں؟ جب یہ کہا جا تاہے کہ ملک میں کسی قسم کا سیاسی عدم استحکام نہیں ہے تو اس سے کیا مراد لی جاتی ہے؟ کیا حکومت کی طرف سے اس قسم کا بیان کوئی خاص تاثر قائم کرنے کے لیے دیا جا رہا ہے؟
یہ اہم معاملات ہیں کیونکہ یہ سب ایک ایسے وقت میں سننے میں آرہا ہےجب ملک میں بےچینی ہے اور حکومت، بظاہرعوام کی منتخب کردہ ہونے کے باوجود عوام میں مقبول نہیں ہے۔ اب یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ملک میں نئے حکومتی انتظام کی کوشش ہورہی ہے۔ اس حکومت سازی میں وہی عناصر دخیل ہیں جو ہمیشہ سے سے اس عمل میں ملوث رہے ہیں ، اور فیصلے کرتے رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہی عناصر اس وقت بھی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور آئندہ بھی اپنے کردار کو مستحکم کریں گے۔ اس قیاس کی بنیاد حال ہی میں تحریک انصاف اور حکومتی پارٹیوں میں شروع ہونے والے مذاکرات ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے مصر ہیں کہ کسی بنیادی اتفاق رائے کے بغیر تحریک انصاف سمیت سب پارٹیاں ان مذاکرات میں شامل ہو چکی ہیں حالانکہ بظاہر ان کی کامیابی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ وہ اس میں سیاسی قیادت کی زیرکی دیکھنے کی بجائے درپردہ ملک میں حکومت سازی میں دخیل عناصر کی چابکدستی تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے حال ہی میں اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی پھیلائی جانے والی خبریں بے بنیاد ہیں ۔ یہ صرف وہ عناصرکر رہے ہیں جو ملک میں ترقی ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کے دلیل ہے کہ سب صوبوں اور وفاق میں حکومتیں پوری اتھارٹی کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو رہی ہے افراط زر کم ہوا ہے ۔ حصص کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ غیر معمولی طور پر زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس طرح یہ سارے ایسے مثبت اشاریے ہیں جو کسی بھی معیشت کے لیے خوش آئند ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور عدلیہ اور اسمبلیاں سارے اپنا کام پوری اتھارٹی سے کر رہی ہیں۔ کسی ادارے کے ختم ہونے کا یا اچانک ڈھے جانے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے، انتہائی بے بنیاد اور مبالغہ آمیز بیانیہ ہے، جسے جان بوجھ کر عوام میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کابھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ بے شمار ممالک کے سرپراہان پاکستان آئے ہیں۔ سعودی عرب کا وفد بہت دفعہ یہاں آ چکا ہے اور متعدد شعبوں میں تعاون کے بے شمار معاہدوں پر بات چیت ہوئی ہے۔ اسی طرح سی پیک کے بارے میں بھی بہت مثبت اطلاعات ہیں ۔ پاکستان ایس سی او (شنگھائی تعاون تنظیم ) جیسے ادارے کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کر چکا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم اہم ممالک میں منعقد ہونے والی کونفرنسوں میں تواتر سے شریک ہوتے ہیں ۔پاکستان عالمی کمیونٹی کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ان دلائل سے عرفان صدیقی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے جو عوام کو پریشان رکھنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے یہ باتیں نام لیے بغیر کہی ہیں۔ لیکن ان کا اشارہ حقیقی طور سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف ہے جو ان کے خیال میں ملک میں جعلی اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ایک خاص بیانیہ مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ عرفان صدیقی کی باتیں کس حد تک درست ہیں اور ان سے کیا واقعی یہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اب بحران سے نکل آیا ہے۔ ملک میں جمہوری حکومتیں کام کر رہی ہیں ۔ ایک صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، دو صوبوں میں پیپلز بارٹی کی حکومت ہے جبکہ ایک صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے حالانکہ وہ موجودہ نظام کے شدید خلاف ہے۔ موجودہ نظام کو فارم 47 کی پیداوار قرار دینے والی پارٹیاں بھی نظام کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی سمیت سب صوبائی اسمبلیوں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ ساری باتیں بجاہیں لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس پر تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کریں یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ کیا عرفان صدیقی کی سیاسی استحکام کے بارے میں تفہیم درست ہے۔ وہ جن عناصر کا یعنی پارلیمنٹ اور حکومت و انتظامیہ اور عدلیہ کا حوالہ دے رہے ہیں، وہ سارے ریاست کے ادارے ہیں ۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ریاست بحران کا شکار ہے۔ جو لوگ سیاسی عدم استحکام کی بات کرتے ہیں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ ملک میں ایک ایسی حکومت ہے جو ایک مشکوک انتخاب کے نتیجے میں برسر اقدار آئی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات پر آمادہ نہیں ہے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے پاس کوئی ایسا متبادل سیاسی پروگرام نہیں ہےجس سے وہ عوام کو مطمئن کر سکے ۔
یہ اس بحث کا ایک پہلو ہے ۔ سیاسی عدم استحکام ہم اسے کہیں گے کہ ایک ریاست کے آئین کے تحت جمہوری نظام میں جب مختلف سیاسی پارٹیوں کے منتخب ارکان کے ذریعے حکمرانی کا نظام قائم کیا جاتا ہے تو یہ مناسب طریقے سے کامیاب نہ ہورہا ہو اور اس پر عوام کا اعتماد بھی کمزور ہو۔ اس میں ریاست کے اداروں سے بحث نہیں ہوتی۔ یہاں عرفان صدیقی یہی غلطی کر رہے ہیں ۔ وہ سپریم کورٹ ، پارلیمنٹ اور حکومت کی مثالیں دے کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ملک تو بڑے اچھے طریقے سے کام کر رہا ہے اور اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے یہاں سیاسی عدم استحکام ہے ۔ حلانکہ سیاسی عدم استحکام ان معنوں میں موجود ہے کہ ملک کی حکومت عوام کی نمائندگی کا استحقاق ثابت نہیں کر پا رہی۔ اس میں یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ یہ حکومت درست طریقے سے منتخب ہو کر اقتدار تک پہنچی ہے یا اس نے غلط طریقے سے اقتدار سنبھالا ہے۔ لیکن یہ دیکھنا بے حد ضروری ہے کہ شہباز شریف ہوں ، اسحاق ڈار ہوں یا حتیٰ کہ عرفان صدیقی ہوں ،جب 2024 کی انتخابی دھاندلی کے بارے میں الزامات کا جواب دیتے ہیں تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ پہلے 2018کے انتخابات کا آڈٹ کرایا جائے ۔ان کی شفافیت پرسوال اٹھایا جائے ۔ حالانکہ معاملہ تو صرف اتنا ہے کہ 2018 بیت چکا ۔ وہ حکومت جس طریقے سے آئی تھی، اسی طریقے سے اسے فارغ کر دیا گیا ۔ بدنصیبی سے موجودہ حکومت میں شامل عناصر کافی حد تک اس عمل میں شامل تھے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہےکہ جب تک پہلے والے انتخابات کی بات نہ ہو ان کا جائزہ نہ لیا جائے تو موجودہ انتخابات کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا ۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے بارے میں ایک فیصلہ دیا ہے۔ وہ فیصلہ تبدیل بھی نہیں ہوا لیکن حکومت نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر اس فیصلے پر عمل بھی نہیں ہونے دیا ۔حالانکہ اصولی طور پر سب جانتے ہیں، جو اس عدالتی فیصلے کی بنیاد بھی ہے کہ جس پارٹی کو لوگوں نے ووٹ دیا ہے ، اس کو اسی حساب سے مخصوص نشستوں کا حصہ ملنا چاہیے۔ یہ ایک اصولی بات ہے ۔تحریک انصاف کو اگر اس وقت قومی اسمبلی میں اسی نوے سیٹیں حاصل ہیں، خیبر پختون خان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور پنجاب میں ان کو بہت بھاری اکثریت حاصل ہے گو کہ اقلیت میں ہے، لیکن یہ کافی بڑی نمائیندگی ہے ۔ اس پارٹی سے یہ کہنا درست نہیں ہوسکتا کہ آپ کی نمائیندگی نہیں ہے، آپ کو ہم مخصوص سیٹیں نہیں دیں گے چونکہ آپ نے یہ ایک ٹیکنیکل غلطی کی تھی۔ قانونی غلطی سے پارٹی کے ارکان کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو گئے تھے ۔ بنیادی طور پر یہ مؤقف کمزور ہے کہ موجودہ حکومت واقعی منتخب ہو کر اقتدار تک پہنچی ہے ۔ اسی معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر مان لیا جائے کہ آپ کو اکثریت ملی ہے لیکن حکومت تحریک انصاف کے حق نمائیندگی کو ماننے سے انکار کرتی ہے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود حکومت روڑے اٹکا رہی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف اپنے خوف کی وجہ سے تحریک انصاف کو ایسی پوزیشن میں نہیں لانا چاہتی کہ وہ پارلیمنٹ میں موجودہ مقتدر پارٹیوں کوچیلنج کر سکے ۔
مخصوص نشستیں اگرتحریک انصاف کو مل جاتی ہیں تو شہباز شریف کے حکومتی الائینس اور تحریک انصاف اور اس کی حلیف پارٹیوں کی نمائیندگی میں شاید فرق شاید بہت تھوڑا رہ جائے گا۔ پانچ سات، دس سیٹوں کا فرق ایسا ہوتا ہے کہ اسےکسی وقت بھی تبدیل کیاجاسکتا ہے ۔ اسی خوف کی وجہ سے شہباز شریف سیاسی عدم استحکام کا سبب بن رہے ہیں۔ یعنی واہ دیگر سیاسی پارٹیوں سے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
اگر معاملہ عوامی رائے کے اصول کے مطابق طے کرلیا جاتا ہے تو سیاسی طور سے استحکام کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر حکومت اور دیگر پارٹیاں اصولی بنیاد پر سیاسی معاملات طے کرنے پر آمادہ نہیں ہوتیں تو ’درپردہ‘ عناصر بدستور مضبوط رہیں گے اور سیاسی پارٹیاں عوام کا حق نمائیندگی ادا کرنے میں ناکام ہوں گی۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات میں یہی رویہ سب سے بڑی رکاوٹ ہوگا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ