اسرائیلی فضائیہ نے جمعہ کی شام بیروت میں متعدد عمارتوں کو شدید بمباری میں ملبے کا ڈھیر بنادیا۔ اسرائیل کے بقول اگرچہ یہ عمارتیں شہری علاقوں واقع تھیں لیکن ان کے نیچے بنکر بناکر حزب اللہ کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا تھا اور اسلحہ ذخیرہ تھا۔ ان ہی میں ایک عمارت پر بمباری سے حزب کے لیڈر حسن نصراللہ جاں بحق ہوگئے ۔ اسرائیلی فوج کے دعوے کے بعد حزب اللہ نے اس کی تصڈیق کردی ہے۔ دنیا بھر کے تجزیہ نگار یہ اندازے قائم کررہے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔
مغربی تجزیہ نگار جنگ پھیلنے اور حزب اللہ کی طرف سے زیادہ باصلاحیت اور دور تک مار کرنے والے بلاسٹک میزائیلوں کے حملوں کا اندیشہ ظاہر کررہے ہیں ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ایران حسن نصراللہ کی موت پر خاموش نہیں رہے گا بلکہ اسے انتقام لینے کے لیے اندرونی دباؤ کا سامنا ہوگا۔ خبروں کے مطابق جس بنکر پر حملہ میں حسن نصراللہ مارے گیے ہیں، اس میں متعدد ایرانی فوجی افسر بھی موجود تھے۔ حسن نصراللہ اسرائیل کے ساتھ مقابلہ کے بارے میں مشورہ و منصوبہ بندی کررہے تھے کہ ان کا آخری وقت آگیا۔ البتہ 1992 سے لبنان کے جنگجو گروہ حزب اللہ کی قیادت کرنے والے لیڈر کی اچانک ہلاکت سے ایک ایسا وسیع خلا پیدا ہؤا ہے جس کی موجودگی میں حزب اللہ کے ردعمل یا صلاحیت کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے نصراللہ کے خون کا انتقام لینے کا وعدہ کیا ہے۔ البتہ یہ وعدہ تو تہران میں ایک دہشت گرد کارروائی میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پر بھی کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی ایرانی لیڈر نے اعلان کا تھا کہ ایران اس قتل کا بدلہ لے گا۔ لیکن تین ماہ کے لگ بھگ وقت گزرنے کے باوجود ایران اپنی ہی سرزمین پر اپنے ایک قریبی اتحادی کے قتل کا جواب دینے میں ناکام رہا ہے۔ یہ واضح ہورہا ہے کہ خبروں اور تجزیوں میں یا تو حزب اللہ اور ایران کی جنگی صلاحیتوں کے بارے میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے یا یہ تجزیہ نگار اسرائیل کی حقیقی فوجی قوت کو درست تناظر میں پیش نہیں کرتے۔ اسرائیل کے پاس جدید فضائیہ، میزائیلوں کے وسیع ذخائر و اسلحہ کے انبار کے علاوہ طاقت ور بحری و بری فوج موجود ہے۔ اسے امریکہ کی کھلی اور غیر مشروط سفارتی فوجی اور مالی امداد بھی حاصل ہے۔ اسرائیل اکیلا ہی اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر حزب اللہ و ایران کے علاوہ تمام عرب ممالک پر بھاری ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ امریکہ ، اسرائیل کو مسلسل فوجی ساز و سامان فراہم کررہا ہے ۔ اسی ہفتے کے دوران میں اسرائیل کے لئے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا گیا ہے حالانکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی صدر کی اس اپیل کو مسترد کرچکے تھے کہ لبنان پر بمباری میں اکیس روز کا وقفہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ امریکی بحریہ اور فضائیہ کو مسلسل اسرائیل کی مدد کرنے یا اس کی ’حفاظت‘ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی علاقائی طاقت اسرائیل کو چیلنج کرنے اور اس کے خلاف مؤثر دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
لبنان پر اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے بعد منگل کو’ کاروان‘ کے اداریہ میں مشورہ دیا گیا تھا کہ ’ حماس کے بعد کیا حزب اللہ کی قیادت کو یہ سمجھنا نہیں چاہئے کہ اسرائیل کو عسکری طور سے چیلنج کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ جنگ جویانہ نعرے بازی کے ذریعے اپنے لوگوں کو مروانے اور غزہ کے بعد اب جنوبی لبنان میں اسرائیلی تباہی کو دعوت دینے سے اسرائیل کی بجائے غریب عرب آبادیاں متاثر ہوں گی۔ اس جنگ جوئی سے ہونے والے نقصان کی قیمت ان علاقوں میں آباد عام شہری کئی نسلوں تک چکانے پر مجبور ہوں گے‘۔ گزشتہ پانچ روز کے دوران میں حزب اللہ نے ایک طرف لبنانی حکومت کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی کوششیں کیں لیکن اس کے ساتھ ہی دشمن سے مقابلہ جاری رکھنے کا بھرم قائم رکھنے کے لیے جنوبی لبنان سے اسرائیل کی طرف اکا دکا میزائل پھینکنے کا سلسلہ بھی جارہی رکھا گیا۔ ان میزائیل حملوں سے اسرائیل کے منظم و مبسوط فضائی نظام کے ہوتے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تو ہرگز نہیں ہے لیکن اس سے اسرائیل کو حزب اللہ کو ختم کرنے کے لیے لبنان کے خلاف جنگی کارروائی جاری رکھنے کا جواز ضرور فراہم ہوتا ہے۔ حزب اللہ کی یہ ناقص حکمت عملی ہی اس کی کمر توڑنے اور اس کے لیڈر کی افسوسناک ہلاکت کا سبب بنی ہے۔ حزب اللہ اب بھی اگر ایران کی طاقت یا ارادوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار رہے گا تو اسرائیل فضائی حملوں کے بعد زمینی کارروائی کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ و بارود کے ذخائر تباہ کرنے اور قیادت کو ختم کرنے کا مکمل ارادہ کیے ہوئے ہے۔
اس غلط فہمی کو دور کرلینا چاہئے کہ عالمی رائے یا اقوام متحدہ میں عالمی لیڈروں کی پرجوش تقریروں سے اسرائیل کو جارحیت سے روکا جاسکے گا۔ اسرائیل موجودہ حالات میں امریکہ جیسے حلیف کے دباؤ کو بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور امریکہ اسرائیلی انکار کو مشفقانہ لاڈ سے قبول کرکے مزید امداد پر آمادہ و تیار ہے۔ حسن نصراللہ کی موت پر امریکی صدر جو بائیڈن کا بیان اس حوالے سے بالکل واضح ہے اور ہر قسم کا شک و شبہ دور کرتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’حسن نصراللہ کی موت بہت سے متاثرین کے لیے انصاف پر مبنی اقدام ہے‘۔ان متاثرین میں ہزاروں امریکی، اسرائیلی اور لبنان کے شہری شامل ہیں۔ جوبائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ ’حزب اللہ، حماس، حوثیوں اور کسی بھی ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ کے خلاف اپنے دفاع کے لیے اسرائیل کے حق کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ امریکی صدر نے بتایا کہ انہوں نے پنٹاگون کو ہدایت کی ہے کہ ’مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی دستوں کی دفاعی پوزیشن کو بڑھایا جائے تاکہ جارحیت کو روکا جا سکے‘۔
اسرائیل کی طرف سے ایک مدمقابل کو یک طرفہ طور سے شروع کی گئی فضائی جنگ میں مارنے کے بعد خطے میں خوف محسوس کیا جارہا ہے۔ ایران اور عراق نے اس جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے حسن نصراللہ کی موت پر تین تین روز کا سرکاری سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ تو دوسری طرف دنیا کی واحد سپر پاور کا صدر حزب اللہ کے لیڈر کی موت کو ’مظلومین کے لیے انصاف‘ قرار دے رہا ہے۔ بائیڈن کے بیان سے طاقت کے توازن اور امریکی سفارت کاری کے یک طرفہ جھکاؤ کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ امریکی صدر کا بیان اس حد تک سفاکانہ ہے کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کی صورت میں تو انہیں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے لیے انصاف ہوتا دکھتا ہے لیکن غزہ کے پچیس لاکھ مظلومین کے خلاف مسلط کردہ تباہی کو وہ اسرائیل کا حق دفاع قرار دے کر نظر انداز کرنے پر مصر ہیں۔ حماس و حزب اللہ کے علاوہ ایرانی قیادت کو بھی اپنے آپشنز کا جائزہ لیتے ہوئے امریکی دھمکی اور ارادوں سے باخبر رہنا چاہئے۔
فوری رد عمل میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ’خطے میں تمام مزاحمتی تنظیمیں حزب اللہ کے ساتھ ہیں اور اس کی حمایت کرتی ہیں‘۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خواتین، بچوں اور عام شہریوں کے اجتماعی قتل سے مزاحمتی تنطیم کی طاقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی اسے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک لیڈر کے مرنے کے بعد دوسرا اس کی جگہ لینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے بظاہر اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیاہے لیکن تہران میں اسرائیلی حملوں کا اس حد تک خوف محسوس کیا جارہا ہے کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعد خامنہ ای کو ایک خفیہ محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ ایران میں ضرور کچھ انتہا پسند عناصر حسن نصراللہ کے انتقام کے لیے جان کی بازی لگانے کی بات کریں گے لیکن اسرائیل کے خلاف ایران کا کوئی بھی عملی اقدام درحقیقت خود کشی کے مترادف ہوگا۔ موجودہ حالات میں ایران کی معمولی سی غلطی امریکی کی پشت پناہی میں اسرائیل کو ایران پر تابڑ توڑ حملے کرکے اس کی عسکری طاقت اور ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اسرائیل سے موصول ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے ایران پر حملوں کو اپنے جنگی منصوبہ کا حصہ بنایا ہؤا ہے۔
حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی حملوں کی تباہ کاری اسرائیل کی کامیابی سے زیادہ حزب اللہ کے اندرونی نظام کی مکمل ناکامی ہے۔ ایک ہفتہ قبل حزب اللہ کے زیر استعمال پیجرز اور واکی ٹاکیز میں دھماکوں سے حزب اللہ کو شدید ضعف پہنچا۔ اس سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ اسرائیل حزب اللہ کے اندر سے معلومات حاصل کرنے اور ان لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اس کے لیے عملی طور سے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اب بیروت پر حملے کرتے ہوئے اسرائیلی فضائیہ کو پوری صراحت سے معلوم تھا کہ حسن نصراللہ کس وقت کس عمارت میں موجود ہوں گے اور ان کا حفاظتی حصار کیسا ہوگا۔ اسرائیل نے اسی قوت سے عین نشانے پر حملہ کرکے حزب اللہ کے لیڈر کو ماردیا بلکہ ان کے ساتھ تنظیم کے متعدد دیگر لیڈر اور ایرانی جنرل بھی مارے گئے۔ اس سے پہلے اسرائیل ایرانی نظام میں اپنے جاسوسوں کی رسائی کا ثبوت 31 جولائی کو تہران میں اسماعیل ہنیہ کو مار کر فراہم کرچکا تھا۔ یہ حملہ کرنے والے اسرائیلی ایجنٹوں کو معلوم تھا کہ اسماعیل ہنیہ کس وقت کس کمرے میں موجود ہوں گے۔ عین اس وقت دھماکہ کرکے انہیں ہلاک کیا گیا۔
ان حالات میں حزب اللہ اور ایران کو اسرائیل سے انتقام لینے سے پہلے اپنی اندرونی کمزوریوں کو دور کرنے اور اپنی قوت مجتمع کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ ایرانی حکومت اگر اس وقت اس جنگ میں کودنے کی غلطی کرتی ہے تو یہ امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ایرانی فوج کی مکمل شکست ایران میں مذہبی شدت پسندوں کی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کی جائے۔ ایسی کوئی غلطی اسرائیل کو سزا دینے کی بجائے اس کی طاقت میں اضافہ کرے گی اور وہ پورے خطے میں دہشت کی علامت بنا رہے گا۔ ایران کو اپنے حمایت یافتہ گروہوں کو اکسانے کی بجائے انہیں حکمت سے کام لینے کا مشورہ دینا چاہئے۔
کسی بھی طرح تحمل سے موجودہ جنگ بند کروانے کی کوشش کی جائے اور اسرائیل کو عالمی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر مجبور کرنے کے لیے عدم تشدد کی پالیسی اختیار کی جائے۔ تاکہ امریکہ اور اسرائیل پاس خود حفاظتی کا وہ عذر موجود نہ ہو جو حماس اور حزب اللہ جیسے گروہ مسلسل اسے فراہم کررہے ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ