ہم نے تو نہیں دیکھا البتہ بوڑھوں سے سنا ہے کہ انگریز دور میں ریاست کی ایسی دھاک تھی کہ بس ایک پولیس والا گاؤں میں جاتا اور ملزم کی کلائی میں رسی باندھ کر تھانے تک پیدل لے آتا۔ گاؤں والوں کی آپسی دشمنیاں کیسی بھی سہی مگر ریاست اور اس کے نظامِ انصاف پر اکثریت کو اعتبار تھا۔ اور پھر آزادی مل گئی۔
پہلے ملک آزاد ہوا، پھر حکومت، پھر اوپر سے نیچے تک کے حکومتی کارندے آزاد ہوئے تو غنڈے بھی حوصلہ پانے لگے اور پھر ان غنڈوں کا کچھ سیاست دانوں سے گٹھ جوڑ ہوگیا اور کچھ غنڈے خود سیاست میں فعال ہوگئے۔ رفتہ رفتہ یہ گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہوتا گیا کہ پولیس اور ذیلی عدلیہ بھی تھلے لگتی چلی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ جس ادارے یا نان اسٹیٹ ایکٹر یا معزز کے پاس ہجوم جمع کرنے والے جتنے چلتے پرزے اور ان چلتے پرزوں کے جتنے تعلقات، جتنا پیسہ، جتنا اسلحہ اور جتنی بری شہرت وہ اتنے ہی عزت دار اور ان داتا۔ لوگ اپنے جائز و ناجائز کام کے لیے انھی چلتے پرزوں کو نجات دھندہ سمجھتے ہیں۔ تو ایسے بنتی ہیں ایک ریاست سے ایک سو ایک ذیلی ریاستیں اور پھر یہ ریاستی نظام شہر اور قصبے سے ہوتا ہوا محلے وار ریاست کی شکل اختیار کرتا ہے اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان ریاستہائے متحدہ پاکستان ہوتا چلا جاتا ہے۔
گذشتہ ہفتے بی بی سی اردو پر ایک وڈیو رپورٹ نشر ہوئی جس کا عنوان تھا ’’ ہجوم کرائے پر دستیاب ہے‘‘۔ یہ رپورٹ وسطی پنجاب میں لاہور کے آس پاس کی حقیقی دنیا میںمرتب کی گئی۔ اس میں ان ڈیرے داروں پر فوکس کیا گیا جو لوڈ شیڈنگ کے خلاف معمولی احتجاج سے لے کر کسی ناپسندیدہ افسر کے تبادلے کی خاطر دباؤ ڈالنے کے لیے مظاہروں تک، مخصوص برادری یا جلوس پر پتھراؤ، ریلوے ٹریک یا شاہراہوں پر دھرنے سے لے کے کسی شدت پسند تنظیم کا بدامنی ایجنڈہ پورا کرنے تک، زمین پر قبضے سے کاروبار و رہائشی علاقہ خالی کرانے تک جملہ خدمات کے لیے کرائے پر ہجوم فراہم کرتے ہیں۔
یہ اتنے منظم ہیں کہ ان کی ایک فون کال پر سو سے زائد لوگ فوراً جمع ہو سکتے ہیں۔ اور جہاں ایک بار سو لوگ جمع ہوجائیں وہاں چار سو عام لوگوں کا خامخواہ جمع ہونا قدرتی ہے۔ ان اضافی راہگیروں کو اب کون بتائے کہ جن سو افراد کو دیکھ کے آپ بھی ان میں شامل ہو گئے ہو وہ تو وہ ہیں جنھیں پیسہ، کھانا، ٹرانسپورٹ، ماچس، تیل اور اسلحہ برداروں کے ساتھ یہاں بھیجا گیا ہے۔
اس کاروبار کے چاربنیادی ستون ہیں۔ کلائنٹ، مڈل مین، منتظم(ڈیرے دار)اور منتظم کا بے چہرہ سرپرست۔ کلائنٹ مڈل مین کے ذریعے منتظم تک پہنچتا اور کام کی نوعیت سمجھاتا ہے۔ جیسا کام ویسے دام۔ فیزیبلٹی کچھ یوں بنتی ہے کہ سادہ جلوس کے اتنے پیسے۔ مشتعل یا مسلح جلوس کے اتنے پیسے، بلوے کی اتنی لاگت، تھانے، بستی یا برادری کے گھیراؤ کا اتنا خرچہ بشمول کھانا و ٹرانسپورٹ اور حسب ِ فرمائش و ضرورت پٹرول یا اسلحے کی ترسیل، دھرنے کے لیے فی دن اتنے اضافی اخراجات، زخمی ہونے یا پرچے سے بچنے یا بندے چھڑوانے کے لیے الگ سے رقم۔ بے چہرہ سرپرست اور مخصوص اہلکاروں کا حصہ، منتظم کا منافع اور مڈل مین کا کمیشن وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ آدھی رقم کام سے پہلے، بقیہ کام کے بعد اللہ اللہ خیر صلا۔
ایک کردار نے بتایا کہ ویسے تو ہمارے پاس الحمدللہ پروفیشنلز بھی ہیں مگر ہجوم بنانے کے لیے مصروف چوکوں پر بیٹھے مزدوری کے منتظر لوگ ہزار روپے دہاڑی، کھانے اور پکڑے جانے سے تحفظ کی یقین دہانی پر ساتھ چلنے کو آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ دھندہ چلتا ہی سروس کوالٹی اور بھروسے کی بنیاد پر ہے اس لیے اس کاروبار پر انھی لوگوں کی اجارہ داری ہے جن میں تپڑ ہونے کے ساتھ ساتھ ہاتھ لمبے اور کمربھی مضبوط ہو۔
دھوکے کی یہاں گنجائش نہیں۔ دھندے کا اصول اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ اس کاروبار میں ہاتھ ڈالنے والا بیک وقت اوپر والوں کا کارندہ اور نیچے والوں کا نجات دھندہ بن کر ہی کامیاب رھ سکتا ہے۔ ایسا ان داتا سیاسی و انتظامی بروکرز، حزبِ اقتدار، حزبِ اختلاف، مذہبی گروہوں اور قبضہ گروپوں سے لے کے عام کلائنٹ تک سب کے کام کا ہے۔ اس کردار کو بھلے انگریزی میں مرسنری کہتے ہوں مگر مقامی ڈکشنری میں اسے خواجہ صاحب، حاجی صاحب، چوہدری صاحب، چیف صاحب سمیت کوئی بھی عزت دار لقب حاصل ہے۔
تو پھر ریاست کیا کررہی ہے؟ رپورٹ میں لاہور کے ایس ایس پی ( ڈسپلن) سہیل سکھیرا کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہر علاقے میں چھ سات لوگ ہوتے ہیں جو ہجوم اکھٹا کرتے ہیں، پتھراؤ کرواتے، آگ لگواتے اور بحران پیدا کرتے ہیں۔ افرادی قوت کے لیے کھانے اور پیسے وغیرہ کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔
بات ایسے بڑھتی ہے کہ پہلے دس بندے اکٹھے ہوتے ہیں جنھیں قلیل تعداد میں موجود پولیس والے یہ سوچ کے کچھ نہیں کہتے کہ نعرے وارے لگا کے خود ہی منتشر ہوجائیں گے۔ پھر وہ بیس ہوجاتے ہیں اور پھر سو اور سو سے دو سو۔ پولیس اپنے اوپر ذمے داری کا رسک لینے کے بجائے اوپر کے احکامات کے انتظار میں رہتی ہے۔ اس ہچکچاہٹ سے عام آدمی کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر آپ کے پاس سو دو سو بندے جمع کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ نوبت یہ آ گئی ہے کہ ہجوم بندے کو زندہ جلا دیتا ہے اور پولیس کچھ نہیں کرسکتی۔
مگر پولیس کا کام تو ریاستی رٹ کا تحفظ ہے تو پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایسا یوں ہو رہا ہے کہ ایک تو پولیس اور آبادی کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے۔ پھر پولیس کی ٹرانسفر پوسٹنگ میں ہر طرف سے مسلسل مداخلت ہے۔ چھوٹے شہروں میں بالخصوص سب انسپکٹر اور کانسٹیبل لیول کے اہلکاروں کو اس مداخلت کے سبب یا اس سے بچنے کے لیے کوئی نہ کوئی مقامی سرپرست درکار ہوتا ہے۔ جب تک آپ پولیس کو قربانی کا بکرا سمجھتے رہیں گے سماج کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔
پولیس قانون نافذ کرنے کے لیے درست طریقے سے بھی ایکشن کرے تب بھی اس پر پرچے کٹتے ہیں، جیل بھیجا جاتا ہے، ضمانتیں نہیں ہوتیں۔ کام سرکاری ہوتا ہے اور خرچہ پولیس کو پلے سے کرنا پڑتا ہے۔ پولیس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ حکمتِ عملی یا حالات کے مطابق اپنے انداز میں صورتِ حال پر کنٹرول کرنے کے بجائے کسی بھی طرح سے فوری ایکشن لے۔ اس سے صورتِ حال اور بگڑتی ہے۔
پولیس والے کوئی جن تو نہیں۔ وہ بھی انسان ہیں۔ ان کے بھی بال بچے اور آگے پیچھے ذمے داریاں ہیں۔ اگر آپ پولیس کو جائز کام کے لیے بھی پیشہ ورانہ آزادی اور تحفظ نہیں دیں گے تو وہ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے جیل جانا کیوں پسند کریں۔ آپ چاہیں تو اپنی خوشی کے لیے اسے پولیس، سماج اور ریاست کی ناکامی کہہ سکتے ہیں۔
(تو یہ ہے ایک پولیس افسر کے تاثرات و تجربات۔ اوریہ احوال صرف وسطی پنجاب کے چند مقامات کا نہیں۔ آپ چاہیں تو اندازے کی پرکار ریاست ہائے متحدہ پاکستان پر کہیں بھی رکھ کے پوری گھما سکتے ہیں)۔
منگل 23 جون 2015