ھم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ساہیوال کا سانحہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ھے۔ اکہتر سالہ ملکی تاریخ ایسے ان گنت دلخراش سانحوں سے لہولہان ھے۔ لیاقت علی خان وزیراعظم کے قتل سے دستانوں میں چھپے ہوۓ ہاتھوں کی ماہرانہ وارداتوں کاایسا سلسلہ چلا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ہر واقعہ پر عوام کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لۓ بیان بازی کے ساتھ ساتھ کاسمیٹک اقدامات اٹھاۓ جاتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ بات دب دبا جاتی ھے ۔سازشی اور ان کے کارندے صاف بچ جاتے ہیں۔
میری ناقص سمجھ بوجھ کے مطابق مقتدر حلقے روزاول سے مادر پدر آزاد ہیں۔وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں اور یہیں سے مجبور و مقہور بے بس اور بے یارومددگار عوام کے عظیم المیہ کا باب کھلتا چلا جاتا ھے۔ اگر قاٸد اعظم محمدعلی جناح کے وژن کے مطابق عوامی جمہوریت اور معاشی مساوات کو اس وطن عزیز میں نافذ ھونے دیاجاتا تو طاقت و اقتدار کا مرکز و محور صرف اور صرف عوام ہوتے اور ھم نوحہ خوانی اور ماتم گساری کے بجاۓ اپنے مقدر کے مالک و مختار ھوتے۔20 ستمبر 1996 کو وزیراعظم کے بھاٸی کو ساتھیوں سمیت پولیس مقابلہ بنا کر قتل کردیا جاتا ھے۔۔۔یہ ریاستی غنڈوں کی طرف سے اعلان تھا کہ بھٹو کی بیٹی وزیراعظم ہی سہی انہیں بھٹو کے بیٹے کو قتل کرنے سے نہ تو کوٸی روک سکتا ھے اور نہ ہی انہیں کسی عبرت ناک انجام کا خوف و خطرہ ھے۔۔۔۔پھر دنیا نے دیکھا کہ اس بہن کو بھی سرعام گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔۔۔۔بہن بھاٸی کے قاتل نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ترقیوں انعاموں اور صدارتی ایوارڈوں اور اقتدار میں شرکتوں سے فیض یاب ھوتے رھے۔۔۔یہ بات میں نے صرف اس لۓ بیان کی ھے تاکہ ریاستی زبردستی سرکشی اور فتنہ پروری کو منکشف کیا جاسکے اور یہ امر واضح کیا جاۓ کہ پاکستانی معاشرے میں تہذیب و تمدن کے فروغ کی جگہ جنگل کا قانون ہی نافذ ھے ۔ جی ہاں یہ بہت بڑی زمینی حقیقت ھے جس سے آنکھیں چراکر ھم اپنے آپ کو دھوکہ ہی دیں گے۔
چند روز پہلے ملتان میں عمران نامی بے گناہ کا پولیس تشدد سے قتل اور ساہیوال میں بہیمانہ و سفاکانہ قتل ان مسافروں کا جو شادی پر جارھے تھے اس المناک تسلسل کے دل ہلا دینے والے واقعات ہیں۔ستم بالاۓ ستم یہ ھے کہ ریاستی اداروں کا موقف سوگوار خاندانوں اور پوری قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں
آپ کوزحمت دینے کا مقصد ھے کہ ھم احتجاج کرنے اور غم والم کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس بیماری پر بھی نظر ڈالیں جو ھمارے ملی بدن کو کینسر کی طرح کھاۓ جا رھی ھے۔۔۔۔۔جب تک اقتدار عوام کے ہاتھوں میں نہیں آتا۔۔۔۔عوامی جمہوریت اور معاشی آزادی کے انقلابی دور کا آغاز نہیں ھوتا ھمارا خون اسی طرح بہایا جاتا رھے گا۔اگر سامراجی پٹھو متحد ہوکر پوری قوم کا عرصہٕ حیات تنگ کر سکتے ہیں تو اس دیس کے مزدور کسان محنت کش عوام یک جان ھوکر آزاد کیوں نہیں ھو سکتے اس وقت سے پہلے کہ یہ ملک کربلا بن جاۓ اور ایک مہیب قربانی دینی پڑے کیونکہ قربانی جتنی دیر سے دی جاٸیگی اتنی ہی بڑی ھوگی۔
اٹھے گا جب جم سرفروشاں
پڑیں گے دارورسن کے لالے
کوٸی نہ ھوگا کہ جو پچالے
جزاسزا سب یہیں پہ ھوگی
یہیں عذاب و ثواب ھوگا
یہں سے اٹھے گا شور محشر
یہیں پہ روز حساب ھوگا۔۔۔فیض