انسان بھی کیا چیز ہے! پانی کا بلبلہ ،سانس کا بھروسہ نہیں ،پرائی زندگی مگر غرور اور تکبر سے خواہشات کے گھوڑے پر سوار ۔۔
نےہاتھ باگ میں ہے نہ پاہے رکاب میں
قرب وجوار میں جھانکتا ہوں تو ہر طرف فریب ومکر کی چالیں ،مکروہ دھندوں کے کھیل،ہوس پرستی،منافع خوری ،ظلم کی داستانیں ،چوری،ڈاکہ،قتل وغارت،ناجائز مقدمات اور دیگر کئی بیماریاں ہمارے اندر رچ بس گئی ہیں…
کبھی کبھار تومجھے پریم چند کے افسانے کفن کے کردار مادھو اور گھیسو بے ساختہ یاد آتے ہیں بے حس وحرکت معاشرہ ہی ان کی غربت اور تنگ دستی کا ذمہ دار تھاہمارے ہاں بھی اسی جبر کی بو پھیلتی جارہی ہے۔ افراتفری کی اس منڈی میں ہر شخص اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں ہے سیاست ،تعلیم،مذہب،اور اخلاقیات کے نام پر لوگوں کو نہ جانے کیا کچھ سمجھایا اور سکھایا جاتاہے کہ ان کے مزاج بدل جاتے ہیں اور وہ اپنے سائےسے باہر نکل اور سوچ نہیں سکتے اور مصلح ہونے کے دعوے کر کے معاشرے میں زہر گھولتے ہیں. عام آدمی جو ہر کسی کی سنتا ہےاور اپنے خوشحال مستقبل کی خاطر بعض دفعہ سنگین غلطیوں کا مرتکب بھی ہوتا ہے وہ ہمیشہ خطِ غربت کی لکیر سے نیچے رہتا ہے اور نہ ہی زندگی کے سہانے خواب اس کے داؤ پییچ میں آتےہیں۔ وہ معاشرتی جبر کا حصہ بہ امر مجبوری بنتا ہے کیونکہ جب مساوات اور عدل ایک خواب بن جاتے ہیں تو وہ خود سوزی سے لے کر آتشیں اسلحہ تک معاشرے کا امن وسکون تباہ کرتا ہےجس کا ذمہ دار اشرافیہ اور بر سراقتدار طبقہ ہوتا ہے جو دولت اور طاقت کے نشے میں اخلاقیات اور وضع داری کا جنازہ نکال دیتےہیں اورناحق کو حق بناتے ہوئے معاشرے کومجبور کرتے ہیں کہ وہ حق گو ہیں۔ ان کے افعال واقوال پر نکتہ چینی کا کسی کو حق حاصل نہیں ،جس کی وجہ سےناہمواریوں کی ایک سطح جنم لیتی ہے،پھرایسے معاشرے میں انقلاب آتے ہیں لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنی جان ومال کی خود حفاظت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ قتل وغارت کا بازار گرم ہوتا ہے ریاست اوراس کی پالیسیاں کمزور ہوجاتی ہیں،پھر زوال کی کئی داستانیں رقم ہوجاتی ہیں اور بربادیوں کےنئے فسانے جنم لیتے ہیں جن کے اثرات وثمرات نسلِ نو تک جاتے ہیں۔۔
فیس بک کمینٹ