پاکستان میں تبدیلی کا چرچا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف اسے ’نیا پاکستان ‘ کا نام دے کر اس کا سارا کریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بدعنوانی کا جو منتر اسٹبلشمنٹ نے ساٹھ پیسنٹھ برس قبل سیاست دانوں کو نکیل ڈالنے کے لئے ایجاد کیا تھا، اب وہ اسی نعرے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مستحکم کرسکتے ہیں۔ حالانکہ عمران خان کے لئے اقتدار کو مضبوط کرنا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ انہیں سب سے زیادہ اس بات پر فکر مند ہونا چاہئے کہ وہ جو الزامات دوسروں پر عائد کرتے ہیں ، ان کے چھینٹے ان کے دامن کو داغدار نہ کریں ۔ وہ عوام کو ریلیف دینے اور ملک کے حالات بدلنے کے منشور کے ساتھ بائیس برس تک ’جد و جہد‘ کرنےکے بعدبالآخر سمجھوتے کرکے وزارت عظمی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب ان کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہونی چاہئے کہ وہ اس منشور پر کسی طرح عمل کرکے دکھادیں تاکہ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی رکھ سکیں ۔ اور لوگ بھی تسلیم کریں کہ ملک میں کچھ تو تبدیل ہؤا ہے جس کی بنیاد پر وزیر اعظم عمران خان کے دور کو تبدیل شدہ اور ان کے اقتدار میں استوار ہونے والے نظام کو ’ نیا پاکستان ‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔
عمران خان یا ان کی کابینہ البتہ اس مشن پر گامزن دکھائی نہیں دیتی۔ ان کے ایک قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین بدعنوانی ہی کہ وجہ سے نااہل قرار پائے ہیں لیکن نئے پاکستان کی صاف ستھری حکومت کے ’مشیر اعلیٰ‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمران خان تمام تر نعرے بازی کے باوجود ان سے فاصلہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ ایک وفاقی وزیر اعظم سواتی کو ہمسایے سے زمین غصب کرنے کے الزام میں استعفی دینا پڑا۔ پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان نیب کی حراست میں ہیں۔ عمران خان اس بات کا کریڈٹ تو لیتے ہیں کہ تحریک انصاف کے دور میں وزرا پر الزام عائد ہؤا تو انہوں نے استعفے دے دیے لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ جب تک وہ خود اور ان کی پارٹی ان لوگوں کی سرپرست بنی رہے گی تو اسے نئے نظام کا آغاز کیسے کہا جائے گا؟
سابق صدر پرویز مشرف نے گزشتہ روز دوبئی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بڑے فخر سے کہا ہے کہ عمران خان کی آدھی کابینہ تو ان کی ’اپنی‘ ہے اور وہ اور ان کی آل پاکستان مسلم لیگ ہر طرح عمران خان اور تحریک انصاف کی حمایت کریں گے تاکہ ملک کو نواز شریف اور زرداری سے نجات دلائی جاسکے۔ تحریک انصاف کے علاوہ عمران خان کے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ آئین شکنی کے الزام میں مقدمہ کا سامنا کرنے والا سابق فوجی آمر، ان کی تعریف میں قلابے ملا رہا ہے۔ پرویز مشرف جھوٹ بول کر ملک سے باہر گئے تھے اور اب نہایت ڈھٹائی سے دوبئی میں بیٹھ کر ملکی حالات پر تبصرے اور نئی حکومت کی پیٹھ ٹھونکنے کا کام کررہے ہیں ۔ لیکن خود پر عائد سنگین الزامات کا جواب دینے کے لئے ملک واپس آنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ کیا عمران خان پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ قانون کے مفرور کی تائد کو مسترد کریں اور واضح کریں کہ وہ خود اور ان کی حکومت آئین شکنی کے مرتکب شخص کو کٹہرے تک لانے کے لئے اپنا تمام اثر و رسوخ استعمال کرے گی؟
وزیر اعظم شاید اس سوال کا جواب تو نہ دے سکیں لیکن انہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پرویز مشرف اس پریس کانفرنس کے ذریعے کون سا پیغام عوام تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اور ان کے جو ساتھی اس وقت عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہیں ، وہ کیوں کر نیا پاکستان بنانے میں عمران خان کی سوچ اور کوشش کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ وہ تو پاکستان کو بار بار پیچھے دھکیلنے، ملک کے آئینی و جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے اور اپنے اور اپنے خاندان کے لئے اقتدار میں جگہ بنائے رکھنے کے مشن پر قائم ہیں۔ ان کا عوام کی بہبود، ملک کی ترقی، جمہوریت یا انصاف سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ عمران خان کے ان ساتھیوں کا مسئلہ تبدیلی نہیں بلکہ کسی طرح اسٹیس کو برقرار رکھنا ہے تاکہ حکومت کسی کی بھی ہو ،ان کے خاندان کا قتدار میں حصہ موجود رہے۔ عمران خان اگر واقعی اپنی سیاسی جد و جہد کو سچا مانتے ہیں تو حقیقی تبدیلی تو ان کا مسئلہ ہونا چاہئے۔ وہ 66 برس کے ہوچکے ہیں۔ وہ حکومت میں اپنی مدت پوری بھی کرلیں تو بھی نہ تو دوبارہ انہیں موقع ملنے کا امکان ہے اور نہ ہی ستر برس سے زائد عمر میں ان کے قویٰ اس قابل ہوں گے کہ وہ کسی ایسی تبدیلی کی بنیاد رکھ
سکیں جس کا آغاز وہ اپنے موجودہ دور میں کرنے میں کامیاب نہ ہوں۔
عمران خان نے سیاست میں آنے اور اس کوچہ میں پگڑیاں اچھالنے کا سبق سیکھنے سے پہلے نیک نامی اور عزت کمائی ہے۔ بطور کرکٹر انہوں نے نام پیدا کیا اور ملک کو پہلا اور اس وقت تک کا آخری ورلڈ کپ جتوانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے بعد فلاحی کاموں کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے شوکت خانم جیسے ادارے کی بنیاد رکھی ۔ اس کے علاوہ میانوالی جیسے دور دراز علاقے میں نمل یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی۔ عمران خان خود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’وہ جو ٹھان لیں بالآخر اسے حاصل کرکے ہی رہتے ہیں‘۔ اسی عزم کی بنیاد پر انہوں نے بہر حال وزارت عظمیٰ بھی حاصل کرلی ہے۔
لیکن اب انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ وزیر اعظم بننا اپنے طور پو کوئی مقصد یا کسی مشن کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اگر بطور وزیراعظم وہ خوابوں کی معمولی سی تعبیر بھی عوام کو دکھانے میں کامیاب نہ ہوئے تو وزارت عظمی تک کا یہ سفر جہد رائیگاں ثابت ہوگا۔ عمران خان موروثی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کے لئے انہوں نے یوں بھی اپنے قریب ترین عزیزوں کو بھی ناراض کیا ہے۔ ان کے بیٹے برطانیہ میں رہتے ہیں اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ کبھی کسی بھی طرح پاکستانی سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں ۔ نہ ہی عمران خان کے پاس اس قسم کے حالات پیدا کرنے کا وقت موجود ہے۔ اس لئے خاص طور سے ان کے لئے یہ سوال نہات سنجیدہ و سنگین ہے کہ اگر وہ عوام کو ریلیف دینے اور پرانے فرسودہ نظام سے ان کی جان چھڑانے کے مشن کا آغاز نہ کرسکے تو ان کی ماضی میں کمائی ہوئی نیک نامی بھی ضائع جائے گی کیوں کہ تاریخ انہیں ایک ایسے لیڈر کے طور پر یاد کرے گی جس نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے ہر طریقہ اختیار کیا لیکن اقتدار ملنے کے بعد وہ اپنا کوئی وعدہ پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو ا۔
حکومت میں عمران خان کے سب شریک ، وقت تبدیل ہوتے ہی نیا راستہ، نئی پارٹی اور نئے نعرے اختیار کرلیں گے۔ اس لئے نیا پاکستان عمران خان کا مسئلہ ہے۔ ان کی سیاسی کمائی سنبھالنے والا کوئی وارث نہیں ہے ۔ اس محنت سے ملنے والا اجر عمران خان کو نیک نامی بھی دے سکتا ہے اور ان سے غیر سیاسی شعبوں میں خدمات سے حاصل ہونے والی عزت چھین بھی سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عمران خان بھی اتنے ہی محروم اور بے بس ہیں جتنا ’نیا پاکستان‘ کا نعرہ ہے۔ ان کی بے بسی دن بدن عیاں ہوتی جارہی ہے۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہورہے ہیں کہ بدعنوانی کے خاتمہ کا نعرہ بھی ان کا اپنا نہیں ہے بلکہ اسے نیا روپ دے کر ان کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ نعرہ ان کی نیک نامی میں اضافہ کا باعث نہیں بنے گا۔
ملک کی کثیر آبادی اور محدود معاشی وسائل کی روشنی میں عمران خان سمیت کوئی بھی لیڈر عوام کی روزمرہ حالت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لاسکتا۔ اگر عمران خان اس نکتہ کو سمجھ سکتے اور نئے پاکستان کی نیو رکھنے کے لئے سیاسی کلچر، سماجی رویوں اور انتظامی ڈھانچے اور اس کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے لئے کام کا آغاز کرسکتے تو وہ کامیابی کے پہلے زینے پر قدم رکھنے میں ضرور کامیاب ہوسکتے تھے۔ الزام تراشی اور گالی گلوچ کی سیاست تو ان سے پہلے بھی سب ہی کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے تو اس میں صرف شدت پیدا کی ہے اور سوشل میڈیا کے استعمال سے اسے عفریت کی شکل دی ہے جو اہل پاکستان کو اکٹھا کرنے کی بجائے تقسیم کرنے کا سبب بنا ہے۔
تبدیلی کی گونج اب ان حلقوں کی طرف سے بھی سنائی دے رہی ہے جو اس ملک کے سب فیصلے کرنے کو اپنا بنیادی استحقاق سمجھتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ تبدیلی لانے کے لئے ہی تبدیلی کا نعرہ لگانے والی حکومت سامنے لائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرتار پور راہداری کھولنے کا فیصلہ منتخب حکومت کا نہیں ملک کے نامزد آرمی چیف نے کیا تھا اور عمران خان کی تقریب حلف برداری میں اس کا برملا اظہار بھی کردیا تھا۔ البتہ خیر سگالی کا یہ مظاہرہ ماضی کی بھارت دشمن حکمت عملی کے برعکس مصالحت اور دوستی کا اشارہ تھا۔ بھارت ابھی تک اس اشارے کا مثبت جواب دینے میں کامیاب نہیں ہؤا ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ زمینی حقائق ’مثبت تبدیلی‘ کے اعلان نامے کی تصدیق نہیں کرتے۔ لبیک تحریک کے نام سے ابھرنے والے مذہبی فسادیوں کی روک تھام ضرور کی گئی ہے لیکن قومی سلامتی کمیٹی کو جماعت الدعوۃ اور انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی لگانے کے لئے پلوامہ سانحہ کا انتظار کرنا پڑا۔ جیش محمد کے دفاتر پر بھی قبضہ کیا گیا ہے۔ لیکن کیا حافظ سعید اور مسعود اظہر سے قطع تعلق کرلیا گیا ہے؟ کیا یہ بات اتنی ہی سادہ اور آسان ہے جیسی آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بیان کی ہے کہ بھارت الزام لگاتا ہے لیکن ثبوت نہیں دیتا کیوں کہ اس کا اصل مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔
اسٹبلشمنٹ نے تبدیلی کے لئے اپنی دیرینہ کلائنٹ پارٹی مسلم لیگ (ن) کے لئے سیاسی قبر کھودی اور عمران خان کی صورت میں تبدیلی کا استعارہ وزیر اعظم کے طور پر سامنے لایا گیا۔ لیکن اس کے باوجود اگر تبدیلی دکھائی نہ دے، ہمسایہ ممالک اور عالمی ادارے اسے محسوس کرنے سے انکار کررہے ہوں اور پاکستان کی سرحدیں مشرق و مغرب کے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ’غیر محفوظ‘ ہوں۔ تو کس بنیاد پر ملک کی شہرت بحال ہوگی اور علاقے میں امن کا پھریرا لہرائے گا۔
عمران خان کی تبدیلی سیاسی مخالفین کو قید میں رکھنے یا جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینے تک محدود ہو چکی ہے۔ اور فوج کی تبدیلی وزیر اعظم پر ’حق ملکیت‘ سے آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی۔ عمران خان کا خواب وزیر اعظم بن کر پورا ہوچکا اور اب وہ فوج کو راضی رکھ کر اس خواب کو طویل تر کرنا چاہتے ہیں۔ فوج کا مقصد اسٹیس کو قائم رکھنا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہے۔ پاکستان کے ’صبر‘ ہی کی وجہ سے افغانستان کے معاملہ میں الزام تراشی پر اترا ہؤا امریکہ اب’ احسان مند‘ دکھائی دیتا ہے۔ اور انتقام کا نعرہ لگاتا نریندر مودی اب سفارتی تنہائی اور تجارتی مشکلات پیدا کرنے کی بات کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ کیا واقعی یہی تبدیلی ہے اور اسی سے اہل پاکستان کے لئے امن اور خوشحالی کا راستہ ہموار ہوگا؟
تبدیلی نعرے کا نام نہیں ہے۔ تبدیلی کے لئے اعتماد سازی اور احترام کا ماحول پیدا کرنا ضروری ہے۔ دھکمیاں دینے اور دشمن کو عاجز کرنے کے ہتھکنڈے نہ تبدیلی کا سبب بنیں گے اور نہ ہی نیم دلانہ اقدامات سے وسیع المدت مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ منتخب حکومت اور اس کی سرپرست اسٹبلشمنٹ کو اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی نکتہ پر غور کرنے سے داخلی تنازعات حل ہوں گے اور سرحدوں پر موجود کشیدگی کم ہوسکے گی۔
( بشکریہ : کاروان نو ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ