ہمارے ہاں بلدیاتی انتخابات کی کارنر میٹنگز میں کئی بار سننے میں آتا تھا کہ اگر فلاں چیئرمین بن بھی گیا تو صوبائی حکومت تو ہماری ہے ہم اسے فنڈز نہیں دیں گے ، لیکن امریکہ کے بارے میں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا مگر ایسا ہوا صدر امریکہ نے کھل کر کہا اگر اس کمیونسٹ کو میئر منتخب کیا گیا تو میں نیویارک کے لیے وفاقی فنڈز بند کر دوں گا۔
عوام نے اس دھمکی کو گیدڑ بھبکی سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور اس مبینہ کمیونسٹ کو میئر منتخب کر لیا۔ صدر نے صرف یہ دھمکی ہی نہیں دی بلکہ اپنی پارٹی کا امیدوار میدان میں ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف ایک آزاد امیدوار کو کامیاب کرانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
آئیے اس شخص کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ کون ہے اور دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دار اور سامراجی حکومت کا سربراہ اس سے خوفزدہ کیوں ہے۔
زہران کوامے ممدانی ایک گجراتی کھوجہ مسلم اکیڈمین پروفیسر محمود ممدانی اور پنجابی ہندو فلم میکر میرا نائر کے گھر 18 اکتوبر 1991 کو یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوا ۔ اس کے والد اگرچہ بمبے میں پیدا ہوئے تھے لیکن اس کے دادا برطانوی ٹانگانیکا موجودہ تنزانیہ کے شہری تھے ، ممدانی بنیادی پر سندھی کھوجہ برادری کی ایک شاخ ہے ۔ یہ کاروباری لوگ ہیں ، اسی سلسلے میں یہ گجرات سے تنزانیہ منتقل ہوئے کچھ عرصہ بمبے موجودہ ممبئی آ کر رہے پھر یوگنڈا منتقل ہوئے ۔ زہران عربی لفظ ہے جس کے معنی روشن تابناک کھلتا ہوا ہیں ، کوامے گھانا کے انقلابی رہنما کوامے نکرومہ کے نام سے لیا گیا ۔
زہران کی والدہ پنجابی ہندو خاتون ہیں جو معروف فلم میکر ہیں جو اکیڈمی اور فلم فیئر ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں ، ان کی مشہور فلموں میں سلام بمبئی ، مسی سیپی مسالہ ، نیویارک آئی لو یو ، نیم سیک ،8 ، مونسون ویڈنگ ، کاما سترا وغیرہ شامل ہیں ۔
زہران پانچ سال کا تھا تو یہ خاندان کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ منتقل ہوا اور پھر نیویارک یونائیٹڈ سٹیٹس ۔ زہران میں سیاست بلکہ انقلابی سیاست کے جراثیم بچپن سے ہی تھے ، دس گیارہ سال کی عمر میں اس نے سکول میں ایک موک الیکشن میں حصہ لیا جس میں اس کے گروپ کا منشور انسانی مساوات اور جنگوں کی مخالفت تھا اور یہ کہ فنڈز فوج کی بجائے تعلیم پر خرچ کیے جائیں۔
ہائی سکول کے دوران اس نے ایک گروپ سٹوڈنٹس فار فلسطین بنایا۔ گریجویشن کے بعد اس نے ہاؤسنگ کے مسائل کے حل کے لیے ایک تنظیم کے ساتھ رضاکارانہ کام شروع کیا ، یہ بے گھر اور کرایہ دار شہریوں کی رہنمائی کرتے تھے ۔ اسے موسیقی کا بھی شوق تھا صرف شوق ہی نہیں مہارت بھی ، اس نے یوگنڈا کے ایک ریپر کے ساتھ مل کر انگلش اور سواحلی میں میوزک البم بنایا ۔ اس نے ایک سولو ٹریک نانی کے نام سے بھی بنایا اپنی والدہ کی والدہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ، اس ٹریک میں نانی کا کردار کک بک کے لیے معروف اداکارہ مدھر جعفری نے ادا کیا ۔اس نے اپنی والدہ کی فلم کوئین آف کٹوے کے لیے بھی ایک آڈیو ٹریک بنایا اور ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔
نیویارک میں عملی سیاست کا آغاز اس نے 2015 میں علی نجمی کی انتخابی مہم میں ایک رضاکار کی حیثیت سے کیا۔ 2017 میں وہ فلسطینی لوتھیرین خدر الیتیم کی انتخابی مہم کا انچارج بنا۔ 2019 میں اس نے SDA سوشلسٹ ڈیموکریٹس آف امیریکہ میں شمولیت اختیار کی ۔ اس کے ساتھ وہ ڈیموکریٹک مسلمز آف امریکہ کا بھی ممبر ہے ۔ وہ برنی سینڈرز کا بھی پرجوش حامی رہا ہے۔
2020 میں اس نے سٹیٹ اسمبلی کا الیکشن لڑا اور مسلسل پانچ ٹرم جیتنے والے سیموٹاس کو شکست دی ۔ اس کے بعد وہ 2020 اور 2022 میں بھی سٹیٹ اسمبلی کے لیے منتخب ہوا۔ سٹیٹ اسمبلی کے رکن کے طور پر بھی وہ بہت متحرک رہا ، اس نے درجنوں نہیں سینکڑوں بل اسمبلی میں پیش کیے جو زیادہ تر عام شہریوں کے حقوق ، غریب اور پسے ہوئے طبقات کے لیے سہولیات ، پولیس ریفارمز اور امن عامہ کے لیے ہوتے تھے۔ اس نے امیگرنٹس کے حقوق کے لیے بھی بہت کام کیا ۔
2024 میں اس نے ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نیویارک کے میئر کے لیے پرائمری الیکشن میں حصہ لیا اور سابق گورنر کومو کو ہرا کر میئر کے لیے نامزد ہوا۔ کومو نے پارٹی چھوڑ کر آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور آخری دنوں میں تو صدر ٹرمپ نے بھی اپنی پارٹی کا امیدوار ہونے کے باوجود کومو کی حمایت کی ۔ 2024 میں ایک ڈیٹنگ سائٹ پر اس کی ملاقات ایک سیرین امریکن مسلم لڑکی راما صواف دوجی سے ہوئی جو شادی پر منتج ہوئی ۔
اس کے انتخابی منشور میں شہریوں کو بہت سی سہولیات دینے کے وعدے ہیں جن میں مفت ٹرانسپورٹ ، چائلڈ کیئر ، کم آمدنی والوں کے پری کے جی بچوں کے لیے مفت بے بی باسکٹ ،پبلک ہیلتھ ، پولیس ریفارمز ، پرزن ریفارمز ، پانچ سو گرین سکول ، کم آمدنی والے لوگوں کے لیے دو لاکھ سستے گھروں کی تعمیر اور سٹی کی طرف سے ڈسکاؤنٹ گروسری سٹورز شامل ہیں ۔
چار نومبر کو نیویارک کے لوگوں نے اس کے سر پر فادر آف دی سٹی کی کیپ سجا دی ۔ اپنی وکٹری سپیچ میں اس نے کہا میں انسانیت کے لیے ایک نئی روشن صبح طلوع ہوتے دیکھ رہا ہوں ۔
اب آتے ہیں اس جانب کہ وہ حکمران کے طبقے کے دلوں میں کیوں کھٹکتا ہے! وہ کہتا ہے کہ ہمیں امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی تفاوت کو کم کرنا ہے اور اس نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ارب پتیوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ ایک ملین ڈالر سے زائد آمدنی والوں پر ٹیکس میں اضافہ کرے گا جبکہ کم آمدنی والوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گا ۔ ٹرمپ اور امریکہ کا سرمایہ دار طبقہ ماحولیاتی تباہی کو مسئلہ ہی تسلیم نہیں کرتے جبکہ وہ کہتا ہے ہم نیویارک میں گیس پاور پلانٹ بند کریں گے اور زیادہ سے زیادہ گرین انرجی کی طرف آئیں گے ۔ اسی سلسلے میں وہ پانچ سو گرین سکولوں کی بات کرتا ہے جن کی چھتوں پر سولر پینل ہوں گے اور زمین پر درخت۔
آج جب صدر ٹرمپ امیگرنٹس کے خلاف فوج تک استعمال کر رہے ہیں اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ قانون بنائے گا کہ CIE کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ بغیر عدالتی وارنٹ کے کسی تعلیمی ادارے ہسپتال دفاتر اور دیگر اداروں میں داخل نہیں ہو سکے گی۔ وہ صدر ٹرمپ کے تحت ہونے والے CIE کے اقدامات کو فاشزم کہتا ہے۔
آج جب ٹرمپ انتظامیہ عوام سے سہولیات چھین رہی ہے وہ زیادہ سہولیات دینے کی بات کرتا ہے ، صرف فری بسوں پر ہی 650 ملین ڈالر سالانہ اخراجات ہوں گے ۔
اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرے گا اور اگر نیتن یاہو یا ولادیمیر پوٹن نیویارک آئے تو وہ انہیں گرفتار کرے گا ۔
دیگر میئرشپ امیدواروں کے برعکس ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ جب تک غزہ میں جینوسائڈ بند نہیں ہوتا اس کے اسر ائیل جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ 2002 میں بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے خلاف سرکار کی سرپرستی میں ہونے والے منظم فسادات اور قتل عام کے حوالے سے وہ کہتا ہے کہ نریندر مودی بھی نیتن یاہو جتنا ہی جنگی مجرم ہے۔
اس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے اسر ائیلی شہریوں پر حملے اور ان کے اغوا کی بھی مذمت کی اور مقتولین کے لیے سوگ کی تقریب میں بھی شرکت کی ، لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اسر ائیل فلسطینی سرزمین پر قبضہ ختم کرے ۔ اس نے غزہ پیس پلان میں فلسطینیوں کے ہتھیار ڈالنے کی شق کی حمایت کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔
اس کے یہودی مخالف ہونے کے پروپیگنڈے کے باوجود جولائی میں ہونے والے ایک پول کے مطابق 44 سال سے کم عمر کے 67 فیصد یہودی اس کے حامی تھے ۔
ٹرمپ اور ریپبلکنز کے برعکس وہ ایل جی بی ٹی کیو حقوق کا بھی حامی ہے۔
وہ وینزویلا اور کیوبا میں آمریت کا مخالف ہے لیکن ان ممالک کے خلاف معاشی تجارتی اور سفارتی پابندیوں اور وہاں بیرونی مداخلت کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے۔
اس نے چارلی کرک کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ امریکی سیاست میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔
زہران ممدانی یکم جنوری 2026 کو نیویارک کی میئرشپ سنبھالے گا ، اس کے لیے دعائیں اور نیک خواہشات ۔
فیس بک کمینٹ

