فیض احمد فیض نے اس امید پر زندگی بسر کرلی کہ ’’بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے‘‘۔ ان کے برعکس گزشتہ چند برسوں سے میں کامل مایوسی کے عالم میں یہ طے کئے بیٹھا ہوں کہ میں اور میرا ملک ہی نہیں بلکہ سارا عالم اجارہ دار سیٹھوں کی غلامی میں جکڑا جا چکاہے۔ انہیں گوشت پوست کے انسانوں کی بلکہ ضرورت نہیں رہی۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنارہے ہیں۔ ایسی گاڑیوں کی پیداوار پر توجہ دی جارہی ہے جنہیں پٹرول ہی نہیں ڈرائیور کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ مصنوعی ذہانت اور روبوٹ کے ذریعے مصنوعات تیار کرنے کے بعد خلائوں میں نئی بستیاں آباد کرنے کی کوشش ہورہی ہے تاکہ یہ دنیا جب غریب،کمزور اور بدنصیب انسانوں کے لئے پانی اور صاف ہوا کی نایابی کی وجہ سے رہنے کے قابل نہ رہے تو وہ دیگر سیاروں میں تیار بستیوں میں رہنا شروع کردیں۔
اجارہ دار سیٹھوں نے رواں صدی کے پہلے دس سال گزرجانے کے بعد امریکہ اور یورپ کے تقریباََ ہر ملک میں صنعتی جمود اور معاشی بے ثباتی کا ذمہ دار ہم جیسے غریب ملکوں سے ان کے ہاں منتقل ہوئے تارکین وطن کو ٹھہرانا شروع کردیا۔ مسلمان اس ضمن میں اپنے ’’انتہا پسنداور متشدد‘‘ خیالات کی وجہ سے سب سے ز یادہ نفرت کا شکار ہوئے۔ تارکین وطن اور خصوصاََ مسلمانوں سے نفرت ان دنوں یورپ کے ہر ملک میں اپنے عروج پر ہے۔ دائیں بازو کی نسل پرست جماعتیں وہاں مقبول سے مقبول تر ہورہی ہیں۔
یورپ سے کہیں زیادہ ڈھٹائی سے تارکین وطن کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈونلڈٹرمپ اپنے خلاف مالی اور اخلاقی حوالوں سے قائم ہوئے کئی سنگین مقدمات کے باوجود حیران کن اکثریت سے وائٹ ہائوس لوٹ آیا۔ امریکہ کا تمام تر مخالفت کے باوجود ایک بار پھر صدر بن جانے کے بعد وہ مسلسل ایسے اقدامات لئے جارہا ہے جو جمہوری اداروں کی بنیادیں کھوکھلابنارہے ہیں۔ صحافت کی ساکھ کو تباہ وبرباد کرتے ہوئے وہ امریکی عوام کے اذہان اپنی ’’بادشاہت‘‘ کے لئے تیار کررہا ہے۔ قدرت کا نظام بھی لیکن انوکھا ہے۔ یہ فرعون کے گھر موسیٰ پیدا کرنے کی روایت کسی نہ کسی طرح برقرار رکھتا ہے۔
ٹرمپ کا تعلق امریکہ کے شہر نیویارک سے ہے۔ نیویارک کئی حوالوں سے سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکی اور خود غرضی کی حتمی علامت ہے۔ اس شہر ہی نے مگر دنیا بھر کے لوگوں کو گزشتہ چارصدیوں سے کھلے ہاتھوں خوش آمدید کہتے ہوئے محنت وذہانت کی بدولت خوشحالی کے بے تحاشہ امکانات بھی فراہم کئے ہیں۔ یہ شہرمحض گاڈفادر جیسے مافیا ہی سے مختص نہیں۔ یہاں شاعروں،ادیبوں،اداکاروں اور مصوروں کے لئے ’’ویلج‘‘ کے نام سے ایک گوشہ بھی آباد ہوا جس نے تاریخ ساز شاہکار تخلیق کرنے والوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔ گزشتہ کئی برسوں سے مگر نیویارک کا نام ذہن میں آتے ہی ڈونلڈٹرمپ کی شبیہ ابھرآیا کرتی تھی۔
پراپرٹی کے دھندے سے وابستہ خاندان سے ابھرا یہ شخص خود غرض سیاستدان کی بلند ترین آواز بنا۔ امریکہ میں آباد تارکین وطن اور خصوصاََ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے امریکہ کا دوسری بار صدر بنا اور اب اپنے اختیارات کو ایک ایسے نظام کی تشکیل پر مرکوز کئے ہوئے ہے جہاں ہر شہری سرجھکائے اجارہ دار سیٹھوں کے غلاموں کی طرح خون پسینہ ایک کردے۔ ریاست سے شفقت کی کوئی امید نہ رکھے۔ اپنے تئیں کوئی نہ کوئی دائو لگاکر زیادہ سے زیادہ منافع کمائے اور غربت کو جرم شمار کرے۔
ٹرمپ ہی کے شہر نیویارک سے مگر ظہران ممدانی ابھرا ہے۔34سال کا یہ نوجوان یوگنڈا سے بھارتی گجرات کے ایک مسلمان اور بھارت کے اوڑیسہ سے امریکہ گئی ایک پنجابی ہندو ماں کا بیٹا ہے۔ اس کے باپ اور ماں نے اپنی مذہبی اور نسلی شناخت کے بارے میں خود کو کبھی شرمندہ محسوس نہیں کیا۔ ظہران کے والد نے بلکہ اسلام کی عقلیت پسندی کو اجاگر کرنے کے لئے ایک کتاب لکھی۔ ماں کا نام میرا نائر ہے جس نے اچھوتے موضوعات پر چند شاندار فلمیں بنارکھی ہیں۔ گجراتی باپ اور پنجابی ماں کے بیٹے نے ہوش سنبھالتے ہی ’’عوامی سیاست‘‘ میں حصہ لینے کی ٹھان لی۔ اس کی خاطر ڈیموکریٹ پارٹی میں شامل ہوا جس کی فیصلہ سازی پر وہاں کی اشرافیہ نے کئی دہائیوں سے قبضہ جمارکھا ہے۔
امریکہ کے روایتی سیاستدانوں کے برعکس ظہران ممدانی نے اپنے پیغام کی تشہیر کے لئے سرمایہ داروں کے دئے ’’چندے‘‘ سے چلائی اشتہار بازی سے کام نہیں لیا۔ لوگوں کے دروازوں پر بھکاریوں کی طرح دستک دے کر انہیں اپنے ساتھ گفتگو کو اْکسایا اور برسوں کی محنت سے سیاسی کارکنوں کی ایسی کھیپ تیار کی جو ڈیموکریٹ پارٹی پر امریکی اشرافیہ کے قبضے سے نفرت کرتی ہے۔ مذکورہ قبضے کو ٹرمپ کی متعارف کروائی نسل پرستی کے عروج کا سبب سمجھتی ہے۔ امریکی سیاست کو اشرافیہ کے قبضے سے آزاد کروانے کے لئے گلی محلوں کے غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں نے بالآخر فیصلہ کیا کہ نیویارک کے میئر کے لئے ظہران ممدانی کو کھڑا کیا جائے۔ ظہران اس کے لئے رضا مند ہوا تو تھرتھلی مچ گئی۔
اشرافیہ کی صفوں میں مچی تھرتھلی کی پرواہ کئے بغیر ظہران ممدانی نے زیادہ سے زیادہ ووٹروں تک پہنچنے کے لئے دن رات ایک کردئے۔ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کی اپنی جماعت ہی نے کھڑی کی۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے کرتا دھرتا نہایت سنجیدگی سے یہ سوچتے تھے کہ سرمایہ داری کا مرکز شمار ہوتے نیویارک میں ظہران کے میئر بننے کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہتر ہوگا کہ کومو خاندان ہی کے ایک اور فرزند کو اس شہر کا میئر ہونے کے لئے کھڑا کیا جائے۔ یہ خاندان سیاہ فام امریکی ہے۔ وسیع ترحوالوں سے مگر اب ’’اشرافیہ‘‘ بن چکا ہے۔ نیویارک کی میئرشپ اس کی ’’موروثی سیاست‘‘ کی غلام نظر آتی ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی پر قابض اشرافیہ کی دقیانوسی سوچ کے باوجود ظہران ممدانی ڈٹا رہا۔ اس کی لگن کے نتیجے میں ڈیموکریٹ پارٹی کے کارکنوں پر مشتمل اجتماع میں نیویارک کی مئیر شپ پر امیدوار کھڑا کرنے کے لئے امیدواروں کے مابین چنائوہوا تو ظہران ممدانی بھاری بھر کم اکثریت سے جیت گیا۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے پاس اس کو ’’اپنا‘‘ بنانے کے سوا کوئی راہ ہی نہ بچی۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے عام کارکنوں کی جانب سے ظہران ممدانی کو میئر کا امیدوار چنے جانے کے باوجود کوموکی سرپرست اشرافیہ نے ہمت نہ ہاری۔ اسے بطور ’’آزاد‘‘ امیدوار کھڑاکردیا وہ کھڑا ہوا تو ٹرمپ نے بھی ڈیموکریٹ پارٹی سے تمام تر نفرت بھلاکر اس ’’لوٹے‘‘ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کا صدر جب ظہران ممدانی کے میئر منتخب ہونے کی ضد میں مبتلا ہوگیا تو اجارہ دار سیٹھوں کا طاقتور گروہ بھی صدر کا جی خوش کرنے کو میدان میں اترا۔ ممدانی کی مسلمان شناخت اور اس کی اسرائیل سے مبینہ نفرت کو لاکھوں ڈالر کے خرچ سے تیار ہوئی اشتہاری مہم کے ذریعے نہایت مکاری سے گھر گھرپہنچانے کی کوشش ہوئی۔ میئر کا الیکشن قریب آتے ہی امریکی صدر تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر اس کے خلاف زہریلا فقرہ اچھال دیتا۔ ٹرمپ اور سوشل میڈیا کے ایکس پلیٹ فارم کا مالک-ایلان مسک- عرصہ ہوا ایک دوسرے کے دوست نہیں رہے۔ ظہران ممدانی کو نیویارک کا میئر بننے سے روکنے کی مہم میں لیکن مسک بھی ٹرمپ کے ساتھ مل گیا۔ اس کے پلیٹ فارم پر ظہران-مخالف پراپیگنڈے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
امریکی صدر کی قیادت میں نسل پرست اور خود غرض سیٹھوں کی چلائی مہم کے باوجود ظہران ممدانی بھاری اکثریت سے نیویارک کا میئر منتخب ہوگیا ہے۔ اس کا انتخاب ٹرمپ کی اپنائی اور پھیلائی سوچ کا اس کے وائٹ ہائوس پہنچنے کے دس ماہ بعد ہی مؤثروحیران کن ردعمل ہے۔ ظہران کا انتخاب فقط امریکہ ہی نہیں دنیا بھر کے نوجوانوں کو پیغام دے گا کہ سیاسی نظام کو اشرافیہ کے کامل قبضے سے محفوظ رکھنا ممکن ہے۔ اسے یقینی بنانے کے لئے تاہم ضروری ہے کہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور ذہن کو شکست خوردگی کی دیمک سے نجات دلاکر اچھے دنوں کے خواب دیکھنے سے باز نہ رہا جائے۔
( بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ

