ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والی والدہ نے اپنے بچے کو سو روپے کا نوٹ دے کر راشن لینے کے لیے محلے کی دکان پر بھیجا ۔ بچہ بھاگا بھاگا راشن والی دکان پر پہنچا اور اپنا ضرورت کا سامان لیا ۔دوکاندار نے بچے سے نوّے روپے مانگے اور بچے نے فوراً سو روپے کا نوٹ دے دیا۔جس کے بدلے میں دوکان دار نے بقیہ دس روپے کا نوٹ کچھ ایسا واپس کیا،چنانچہ بچے نے سامان اور بقیہ دس روپے کا نوٹ اپنی والدہ کے ہاتھوں میں رکھ دیا۔ والدہ کی نظر اس نوٹ پر چھاپی گئی مہر پر پڑی، جس میں لکھا تھا کہ ،
” اگر قادیانی منکر ختم نبوت گستاخ رسول ہونے کی وجہ سے واجب القتل ہے تو حکومت اس پر عمل کرائے“ ۔
ماں کو دیکھ کر بچے نے حیرانی سے سوال کیا، “اماں آپ دس روپے کا نوٹ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں جیسا کہ آپ نے پہلی بار دیکھا ہو“ جس کے جواب پر ماں کا کہنا تھا کہ، بیٹا یہ دس روپے کا نوٹ نہیں بلکہ ہمارے لیے پیغام دیا ہوا ہے کہ ہمیں اپنے ہی ملک میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ہم واجب القتل ہیں۔ لہذا ہم سب کو قتل کردینا چاہیے۔ اور دس روپے کے نوٹ پر اس پیغام کو ہر گھر تک پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر احمدی/قادیانی کے جان کی قیمت وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف دس روپے ہے۔ مگر بیٹا تم صبر کرو اور دعا کرو۔پاکستان کے اکثر احمدی والدین اپنے بچوں کو بچپن ہی سے چند باتیں سمجھا دیتے ہیں کہ کبھی مذہب کے معاملے پر کسی سے بحث مت کرنا۔ اور اگر کوئی تمہارے مسلک کے بارے میں برا بھلا کہے اور چاہے جتنی بھی گالیاں دے مگر تم بس چپ چاپ صبر کرتے رہنا۔وہ بچہ جب اپنی جوانی میں داخل ہوتا ہے اور اردگرد کے ماحول سے واقف ہوجاتا ہے تب اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ میرے والدین ہمیشہ صبر کرنے کا درس کیوں دیا کرتے تھے۔ کیونکہ ہم سے نفرت کرنے والوں کے دلوں میں ہمارے لیے بہت شدت سے غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ ہمیں تو اکثر چپ چاپ اور زندہ رہ کر سانس لینے کی وجہ سے بھی غصہ میں آکر مار دیا جاتا ہے۔ اور یہ المیہ ایک عام پاکستانی اور تعلیم یافتہ مسلمان کا ہے نا کہ کوئی انتہاء پسند دہشت گرد تنظیم کا۔جناح کا پاکستان، جس کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان ایک پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ اس مسلک سے بھی تعلق رکھتے تھے جس کا ذکر مندرجہ بالا دس روپے کے نوٹ پر کیا گیا ہے۔ اور آج کے پاکستان میں اس مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو متفقہ طور پر تمام عالم دین کی مشاورت کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق کافر قرار دے چکے ہیں۔ مگر اب دس روپے کے نوٹ پر مہر لگا کر گھر گھر تک یہ پیغام پہنچایا جارہا ہے کہ قادیانیوں/احمدیوں کو قتل کیا جائے۔اگر مختلف حلقوں کی جانب سے یہ بھی جائز ہے تو ایک بار ہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو درخواست دے کر قائداعظم کی تصویر کے ساتھ اس پیغام کو لکھ دیا جائے تاکہ باآسانی ہر گھر تک یہ پیغام پہنچایا جاسکے۔یہ عمل اس ہی گروہ کی جانب سے کیا جارہا ہے جس کے چاہنے والوں نے سابق وزیراعظم کے منہ پر جوتا پھینکا تھا، وزیر خارجہ کے منہ پر سیاہی پھینکی گئی تھی، اس گروہ کا مقصد اشتعال انگیز دھرنوں اور احتجاجوں کی مدد سے ریاست کے اداروں کو کمزور کر کے مارا ماری اور انتشار پھیلایا جا سکے اور جناح کے پاکستان جس میں تمام مذاہب کو برابری کا حق حاصل ہونا چاہئے وہاں پر غیر جمہوری طور پر اپنی مرضی کی حکومت کی جاسکے۔
نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے۔
( بشکریہ : ہم سب ۔ لاہور )