آج کل مختلف اردو اور انگریزی اخبارات سے وابستہ کچھ کالم نگار اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک کچھ اینکر پرسنزسوشل میڈیا پر اس بات کا بار بار رونا روتے دکھائی دے رہے ہیں کہ نامعلوم نادیدہ قوتوں کے دباﺅ میں آکر ان کی تحریروں اور تقریروں کو ان دیکھے سنسر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان حضرات کا خیال ہے کہ اس طرح کی پابندیاں اس قوم کو آزادی اظہار کی اس نعمت سے محروم کر دیں گی جسے بقول، ان کے ،بڑی تگ و دو کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اصل مطالبہ یہ ہے کہ منہ میں جو آئے، انہیں ’ کہنے ‘ دیا جائے۔ یعنی یہ کہ وہ تحریر و تقریر کی ایک ایسی مادر پدر آزادی کے خواہاں ہیں جو دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتی۔سچ تو یہ ہے کہ ایسی آزادی اظہار پر پابندی ہی بہتر ہے کہ جو ہمارے قومی فلسفے اور دینی نظریے سے متصادم ہو اور جو دنیا بھر میں ہمارے لیے بطور قوم تضحیک کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ ہماری بنیادوں کو ہلانے کا سبب بن جائے۔ آزادی اظہار کی بد ترین مثال چند ماہ قبل قصور میں معصوم زینب کے حوالے سے دیکھنے میں آئی۔ قصور کی یہ معصوم بچی ایک جانور کی جنسی درندگی کا شکار ہوئی تونام نہاد تجزیہ کاروں نے اس سانحے کی وہ وہ پرتیں کھولنے کی کوشش کی کہ جن کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک کچھ عناصر نے بے بنیاد معلومات کا ایک ایسا طوفان برپا کیا کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز ہی باقی نہ رہی۔قدرت کی طرف سے لکھنے اور بولنے کی صلاحیت عطا ہونے کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ لکھنے والوں اور بولنے والوں کو قارئین اور سامعین کو بھٹکانے، ورغلانے اور مشتعل کرنے کا لائسنس مل گیا۔دنیا کے ہر ملک میں بہت کچھ برا بھی ہوتا ہے اور بہت کچھ ایسا بھی جسے دوسروں سے چھپایا جاتا ہے۔مگر معلوم نہیں ہمارے ہاں لوگ غیروں کے سامنے اپنا پیٹ ننگا کرنے میں فخر کیوں محسوس کرتے ہیں۔پردے داری اور آزادی اظہار میں ایک فرق ہوتا ہے، ہمیں اس فرق کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔زینب کے ساتھ جو کچھ ہوا، یقین کیجیے کہ ایسا ظلم تھا کہ زمین کانپ جائے اور آسمان لرز جائے لیکن ہمارے خیالی تجزیہ کاروں نے جو کچھ کیا وہ بھی کسی ظلم سے کم نہیں تھا۔زینب کے واقعے کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے استعمال کرنے والوں کو شاید احساس ہی نہ ہو کہ ہمارے ہی میڈیا سے حاصل کردہ رپورٹوں کو بنیاد بناکر دنیا بھر میں پاکستان کے بدخواہوں نے مذکورہ سانحے کو مرچ مصالحے لگا کر ایک دلچسپ واقعے کے انداز میں سنانا شروع کر دیا۔سارے ملک کو ، ساری قوم کو بدنام کردیا۔کہا گیا کہ پاکستان ڈارک ویب سمیت چائلڈ پورنوگرافیک سائٹس کو میٹیریل فراہم کرنے والے ممالک میں سر فہرست ملک ہے۔ایک فرد کے قبیح فعل کو بنیاد بنا کر ساری قوم کو مجرم ٹھہرادیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سارا پاکستان اس معصوم بچی کے گینگ ریپ میں شامل تھا۔
حادثات، جرائم،فراڈ،نا انصافیاں، زیادتیاں، ہر معاشرے کا حصہ ہوتی ہیں مگر سمجھدار لوگ ان معاشرتی یا اخلاقی برائیوں کا اشتہار لگانے کی بجائے ان کے تدارک اور سد باب کے لیے کوشش کرتے ہیں۔جنسی جرائم کے حوالے سے بھارت کا شمار شروع کے دو چار ممالک میں ہوتا ہے۔ 2012میں ممبئی کی ایک بس میں گینگ ریپ کا شکار ہونے والی 23سالہ جیوتی سنگھ کی داستان الم سے کون آشنا نہیں، انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے یہ ایک انتہائی خوفناک واقعہ تھا لیکن اس واقعے کا جھوٹا سچا تجزیہ کر کے خود کو میڈیا ٹاک کا مرکز بنانے کا رجحان بحر حال بھارتی میڈیا میں دیکھنے کو نہیں ملا۔یہ ہمارے ہاں دی جانے والی آزادی اظہار کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج دنیا کو پاکستان میں معصوم زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم کی ساری داستان مکمل تفصیلات کے ساتھ ازبر ہے لیکن مقبوضہ جموں کشمیر کی آٹھ سالہ مسلمان بچی آصفہ بانو کے ساتھ وہاں کے مقامی ہندوﺅں نے جو شیطانی کھیل کھیلا اس کی خبر عام نہیں ہوسکی، صرف اس لیے کہ وہاں کا میڈیا حکومت کی جانب سے طے کردہ قوانین و ضوابط کا ہر صورت پابند رہتا ہے۔آصفہ بانو کی مسخ شدہ لاش اس سال کے ابتدائی دنوں میں،ریاست جموں کشمیر کے علاقے کاٹھوا کی ایک وادی سے برآمد ہوئی تھی۔اس بچی کا تعلق وہاں کے مسلمان خانہ بدوش گھرانے سے تھا۔ تفصیلات کے مطابق اس بچی سے گینگ ریپ کرنے والے اسے ورغلا کر دیوی ستھان نامی ایک ویران مندر کی طرف لے گئے اور اسے وہاں بند کردیا۔اس کے بعد اسے بے ہوشی کے انجکشن لگائے گئے اور پھر لگاتار کئی روز تک آٹھ سے زائد افراد نے اسے اپنی حوس کا نشانہ بنایا۔ آصفہ بانو کے ساتھ یہ ظلم کرنے والوں میں بی جے پی کا ایک مقامی سیاستدان بھی شامل تھا۔بتایا جاتا ہے کہ اس بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے تمام کے تمام لوگ ہندو تھے اور انہوں نے اس کے ساتھ یہ ظلم کرکے اصل میں مسلمانوں سے انتقام لیا ہے۔قابل شرم بات یہ کہ گذشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر کی اس عدالت کے باہر ہندو وکیلوں کا ایک گروہ جمع ہوگیا جس عدالت میں آصفہ ریپ اور مرڈر کیس کی سماعت ہورہی ہے۔ ان وکیلوں نے مسلمانوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور کہا کہ آصفہ کیس میں ہندوﺅں کو بدنیتی کی بنیاد پر گھسیٹا جا رہا ہے۔تاہم اسی دوران سوشل میڈیا پر کچھ مقامی لوگوں نے آصفہ کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔انہوں نے فیس بک اور ٹوئیٹر پر اپنی پروفائل پکچر کی جگہ یہ جملہ لکھ دیا، ’ میں ہندوستانی ہونے پر شرمندہ ہوں۔‘ لیکن وہاں کے میڈیا نے اس واقعے کو اپنی رینکنگ اور ریٹنگ بڑھانے کے لیے بالکل بھی استعمال نہیں کیا۔
اتر پردیش کے علاقے اوناﺅ میں ایک سیاستدان کے ہاتھوں اپنی عزت گنوانے والی سترہ سالہ ہندو لڑکی کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔اس واقعے میں بھی بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینیگر کا نام لیا جارہا ہے۔ جون 2017میں ہونے والے اس واقعے میں نامزد ملزم کا تعلق اتر پردیش کی قانون ساز اسمبلی سے ہے۔مذکورہ لڑکی اپنے حلقے کے رکن اسمبلی کے گھر اس امید کے ساتھ گئی کہ ملازمت کے حصول میں اس کی مدد کی جائے گی لیکن وہاں کلدیپ اور اس کے بھائی اتل سنگھ سینیگر نے اس کی عزت کا جنازہ نکال دیا۔ظلم کی بات یہ کہ پولیس نے مذکورہ رکن اسمبلی کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے لڑکی کے باپ کو حراست میں لے لیا۔رات کے کسی پہر رکن اسمبلی کے حامیوں نے تھانے پر حملہ کر کے لڑکی کے باپ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ بے چارہ باپ اس تشدد کو برداشت نہیں کرسکا اور چند ہی روز میں اس کا انتقال ہوگیا۔ پولیس کی بے رحمی کی انتہا یہ کہ نہ تو لڑکی کو ریپ کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی نہ ہی اس کے باپ کی جان لینے والوں کو پکڑا گیا۔ مجبورا اس بے بس لڑکی نے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیا ناتھ کے گھر کے سامنے خود کو آگ لگانے کی دھمکی دے دی جس پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے اور ان سب کی مداخلت پر لڑکی کی عصمت دری کے الزام میں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اس کیس میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد مذکورہ رکن بی جے پی کے ساتھ کوئی رعایت برتی گئی تو ایسا کرنا مودی صاحب کی سیاسی موت کے مترادف ہوگا۔دیکھنا یہ ہے کہ مسٹر مودی اپنی پارٹی کے ایک معتبر رکن اسمبلی کو بچاتے ہیں یا پھر اپنی سیاسی خودکشی کا اہتمام کرتے ہیں۔تاہم اس ساری صورت حال میں بھارتی میڈیا نے جس سمجھداری اور برداری کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔وہاں کسی کالم نگار یا اینکر نے جیمز بانڈ بن کر خود سے معاملے کی تہہ میں جانے کی کوشش نہیں کی۔رپورٹنگ کرتے وقت اس بات کا خیال بھی رکھا کہ کسی بھی حوالے سے ملک کی تذلیل نہ ہو، قوم بدنام نہ ہو۔بعض صورتوں میں ہمیں دشمنوں اور بدخواہوں سے بھی بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر پر گری سونے کی بالی سونا ہی رہتی ہے، کوڑا نہیں بن جاتی۔
فیس بک کمینٹ