وکلاء گردی کی اصطلاح یونہی زبان زدِ عام نہیں ہوئی۔ ججوں کی مار پیٹ سے لے کر ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ تک کے واقعات تو آپ تک میڈیا کے ذریعے پہنچتے ہی رہتے ہیں۔ معاملہ اگر یہیں تک محدود رہتا تو غنیمت تھا۔ مگر اب تو حد ہی ہو گئی۔ سب حدود پار کرتے ہوئے نوجوان وکلاء نے مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ تقریب کے دوران معزز چیف جسٹس و دیگر جج صاحبان کی موجودگی میں ببانگِ دہل آزادی کا مطالبہ کر ڈالا۔ نہ صرف یہ کہ مطالبہ کیا، بلکہ اس مطالبے کو با آوازِ بلند بارہا دہرایا۔ اور تو اور، شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر چند حاضر سروس افراد کا نام بھی لے ڈالا۔ اب بھلا اس سے بڑھ کر وکلاء گردی اور کیا ہوگی؟ یہ سب شرارت علی احمد کرد کی تھی۔ ان کردوں نے عراق میں کیا کم شورش برپا کی ہے کہ اب سرزمینِ پاک میں بھی فساد کرانے کے درپے ہیں؟
کوئی ان وکلاء سے یہ پوچھے کہ جس قدر آزادی ان کو میسر ہے، اس سے بڑھ کر یہ اور کیا آزادی چاہتے ہیں؟ ہم تو ہمیشہ ان کو دیکھ کر رشک ہی کرتے آئے ہیں، کہ کس آزادی سے پریکٹس کرتے ہیں۔ ہماری طرح پیروں میں ملازمت کی بیڑیاں نہیں۔ سچ ہے کہ انسان نا شکرا واقعہ ہوا ہے۔ بجائے یہ کہ قدرت کی اس نعمت کا شکر بجا لاتے، مزید آزادی کا مطالبہ کرنے لگے۔ آزادی کی بھی کچھ حدود و قیود ہوا کرتی ہیں۔ جتنی آزادی میسر ہے، اسی کو غنیمت جانیں۔ جب چاہا کسی کو گھیر کر دو چار ہاتھ جڑ دیے۔ جج صاحب سے نالاں ہوئے تو ان کی ہلکی پھلکی گوشمالی کر دی۔ ہسپتال کے انتظامات میں کچھ کمی پائی تو اس کے عملے کو پیار سے سمجھا دیا۔ اس قدر آزادی بھلا اور کن شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد کو میسر ہے؟
دوسری جانب یہ کرد صاحب کو دیکھیے کہ اپنی لیڈری چمکانے کے چکر میں عدالتوں سے فراہمیء انصاف میں تاخیر کی دہائیاں دینے لگے۔ چیف جسٹس صاحب برا مان جانے میں حق بجانب تھے۔ کم از کم ان کی موجودگی کا لحاظ تو کرنا چاہیے تھا۔ عدالتوں نے انصاف کی شفاف اور بروقت فراہمی کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟ نہ صرف یہ کہ بغیر کسی دبا ؤ میں آئے کرپٹ حاکمِ وقت کو سزا سنائی، بلکہ دل پر پتھر رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت صدیقی جیسے اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف بھی فیصلے دیے۔ اب ایسی مثالیں قائم کرنے کے بعد بھی عدلیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھایا جائے تو چیف صاحب کا غم و غصہ بے جا تو نہیں۔
پھر دلیل یہ لائی گئی کہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی عدلیہ ایک سو چھبیسویں درجے پر ہے۔ عالمی درجہ بندی کے مطابق تو لاہور بھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرِ فہرست ہے۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ عالمی درجہ بندی میں کرپشن، انسانی حقوق، آزادیء صحافت اور عوتوں پر تشدد جیسے معاملات میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ تو کیا اب ہم مغربی دنیا کی جانب سے کی گئی تعصب پر مبنی ان سب درجہ بندیوں کو تسلیم کرلیں؟ پاکستان تو یوں بھی اسلام کا قلعہ اور پہلی ایٹمی طاقت ہونے کے باعث غیروں کی نظر میں کانٹے کی مانند کھٹکتا ہے۔ تو آپ یہ تصور کیجیے کہ پاکستان کی آزاد عدلیہ سے وہ کس قدر تکلیف محسوس کرتے ہوں گے؟ اب آپ کی ذہانت کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ آپ اغیار کی جانب سے کی گئی اس درجہ بندی کو لے کر اپنی ہی عدلیہ پر چڑھ دوڑیں گے؟ کچھ تو سمجھ داری سے کام لیجیے۔
باقی رہ گئے آزادی کے نعرے۔ تو فیض کا چشمہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ہاں مگر بے ادب ہمیشہ بے فیض ہی رہتے ہیں۔ آزادی مانگنی ہے تو ان کرپٹ اور نا اہل سیاستدانوں سے مانگیں جنہیں آپ لوگ ہی ووٹ دے کر اپنے سر پر سوار کیے رکھتے ہیں۔ اداروں کا بھلا سیاست سے کیا کام؟
فیس بک کمینٹ