پاکستانی حکومت مطمئن ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے نے تین سال پر محیط 7 ارب ڈالر کا پیکیج منظور کرلیا ہے۔ اب دیگر عالمی اداروں اور دوست ممالک سے امداد و سرمایہ کاری کے راستے کھل جائیں گے۔ حکومت یہ امید بھی لگائے بیٹھی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترامیم پر راضی کرلیا جائے گا اور کم از کم علیحدہ آئینی عدالت بنا کر موجودہ سپریم کورٹ کے ڈنک سے وہ زہر نکال دیا جائے گا جو بار بار حکومت کی نسوں میں اتارا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت کی خوشی و اطمینان سے ملک میں مایوسی ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔
پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات کا اندازہ محض اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل انتہا پسند گروہوں کی زد پر ہیں اور تقریباً روازانہ کی بنیاد پر کہیں نہ کہیں انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں شہری حقوق کے لیے احتجاج کرنے والے گروہوں کے علاوہ قوم پرست گروہ بھی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ سیاسی و عسکری قیادت اصرار کررہی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ یوں بلوچستان جیسے اہم صوبے میں سیاسی مکالمہ کی ضرورت سے انکار کیا جارہا ہے حالانکہ اسے ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبے کو درپیش متعدد مسائل کا حل تلاش کرنے کے عمل میں عوام کے حقیقی نمائیندے شامل ہوسکیں ۔یا کم از کم ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مستقبل کے سیاسی نقشے کے خد و خال تیار کیے جاسکیں۔ حکومت اس کے برعکس دہائیوں سے وظیفہ خور قبائیلی سرداروں اور اسٹبلشمنٹ کے ہرکاروں کے ذریعے معاملات طے کرنے پر اصرار کررہی ہے۔
کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا رہا ہے۔ نہ جانے کسی نابغہ نے یہ اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ البتہ موجودہ حالات و واقعات، پاکستان کی ضرورتوں اور مسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان پاکستان کی حقیقی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں لاتعداد قیمتی معدنی وسائل ہیں جن کی دریافت اور استعمال کے لیے بیرونی سرمایہ کاری لانے کے منصوبے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان بیش قیمت وسائل کے علاوہ چین کے ساتھ شروع کیے گئے معاشی راہداری کے منصوبہ میں بلوچستان کی بندرگاہ گوادر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ گویا گوادر کے راستے پاکستان بھر میں معاشی خوشحالی عام کرنے کا خوب دیکھا جاتا ہے۔ یوں تو بلوچستان کے ساتھ معاملات طے کرنے اور وہاں آباد امن پسند اور غیور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش گزشتہ 70 برس کے دوران دیکھنے میں نہیں آئی ۔ حالانکہ وفاق کے پاس بلوچ عوام کی طرف سے احترام اور خود مختاری کے جائز اور معصومانہ مطالبات کو مان لینے کے متعدد مواقع موجود رہے تھے۔ لیکن چین کے ساتھ اقتصادی راہداری پر کام کا آغاز کرنے، گواد رکو پاکستانی معاشی مستقبل کا مرکز ماننے اور بلوچستان کے وسائل سے ملک کی تقدیر بدلنے کاخواب دیکھنے کی مدت بھی اب دو دہائیوں پر محیط ہے لیکن کسی حکومت نے بلوچستان میں بے چینی ختم کرنے اور وہاں آباد لوگوں کے جائز حقوق دینے کا بنیادی جمہوری طریقہ اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ جانے پاکستانی وفاق کیسے ایک ایسے علاقے کو ملکی معاشی منصوبے میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر استعمال کا ارادہ بھی رکھتا ہے اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔
اس ناانصافی اور پاکستانی لیڈروں کی کوتاہ اندیشی کی سب سے روشن مثال شاید بلوچستان میں ڈیر ہ بگٹی کے علاقے سوئی سے قدرتی گیس کی پیداوار ہے ۔ ان ذخائر کو 1952 میں دریافت کیا گیا اور 1955 میں گیس کی باقاعدہ پیداوار شروع ہوگئی۔ 80 اور 90 کی دہائی میں یہ گیس ملک بھر کے کونے کونے میں پہنچائی جا چکی تھی ۔ حتی کہ مستقبل کی کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر پہلے کھاد بنانے کے کارخانوں میں اسے توڑ کر کھاد بنانے کے کام میں لایا گیا پھر پیٹرول کے مصارف بچانے کے لیے سی این جی گاڑیاں متعارف کروائی گئیں۔ سیاسی لیڈروں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ملک بھر میں سی این جی اسٹیشنوں کا جال بچھا دیا گیا۔ ایسے اسٹیشن قائم کرنے کا لائسنس اسلام آباد سے ’مہنگے‘ داموں حاصل کیا جاتا کیوں کہ مالکان کو اندازہ ہوتا کہ ایک آدھ سال میں ہی ساری سرمایہ کاری وصول ہوجائے گی۔ اس دوران میں کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ملک میں گھریلو ایندھن کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کی وجہ سے سوئی گیس کی فراہمی کافی نہیں رہے گی اور کھلی منڈی سے گیس کی خریداری پاکستان جیسے غریب ملک کے لیے آسان نہیں ہوگی۔ اس بدانتظامی کے علاوہ بلوچستان کے حوالے سے یہ افسوسناک صورت حال دیکھنے میں آئی کہ جس صوبے سے یہ قیمتی گیس فراہم ہورہی تھی، وہیں کے لوگ اس سے استفادہ کرنے سے محروم رہے اور انہیں سوئی گیس کی فراہمی میں دہائیاں صرف ہوگئیں۔ اب بھی بلوچستان سے پیدا ہونے والی گیس کل ملکی پیداوار کا پندرہ فیصد ہے لیکن صوبے کے عوام کی بڑی اکثریت گیس کو بطور ایندھن حاصل کرنے سے محروم ہے۔
اس ایک فیصلہ سے دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کبھی بھی بلوچستان کی ضرورتیں پوری کرنے کو ترجیح نہیں دی گئی۔ حالیہ سالوں میں بلوچستان سے حاصل کیے جانے والے معاشی فوائد میں مسلسل اضافہ ہؤا ہے اور منصوبہ بندی میں بلوچستان کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے لیکن ان دو دہائیوں میں بلوچستان کے عوام کو لاپتہ افراد کا ’تحفہ‘ دیا گیا ۔ قومی سلامتی کا نام لے کر اس اہم انسانی مسئلہ پر غور کرنے اور بلوچستان کے گھر گھر میں محسوس کیے جانے والے دکھ کو کم کرنے کا کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آتا۔ بلکہ انسانی جان کی حفاظت اور قدرتی وسائل میں حصہ مانگنے والے گروہوں کو انتہاپسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کا حصہ قرار دے کر اس صوبے کو مین اسٹریم سے الگ کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں مسلسل جاری ہیں۔
خیبر پختون خوا اس وقت تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کے علاوہ سول حکومت کی ناقص کارکردگی اور صوبے کو ایک مخصوص پارٹی کی سیاست کے لیے استعمال کرنے کی وجہ سے شدید بحران اور بے چینی کا شکار ہے۔ اس کا مظاہرہ کبھی پولیس احتجاج کی صورت میں دیکھنے میں آتا ہے اور کبھی گروہی اور فرقہ وارانہ فسادات سے امن و امان اور حکومتی ناکامی کی صورت واضح ہوتی ہوتی ہے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں زمینی تنازعے سے شروع ہونے والا تصادم فرقہ وارانہ کشیدگی میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ اور ایک ہفتے سے جاری جھڑپوں میں 46 افراد ہلاک اور 98 زخمی ہو ئے ہیں۔ اس سے پہلے قبائیلی تصادم میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ اس پر پریشان ہونے کی بجائے کسی بھی طرح پنجاب فتح کرنےاور اسلام آباد کو عاجز کرنے کے سیاسی مشن پر گامزن ہیں۔ اور وفاقی حکومت اس لیے تماشائی بنی ہوئی ہے کہ صوبے میں بڑھتے ہوئے مسائل بالآخر عوام کو تحریک انصاف سے برگشتہ کردیں گے۔ اور اسے اپنے سیاسی گڑھ میں ناکامی دیکھنا پڑے گی۔ البتہ صوبائی یا وفاقی حکومت سماجی سطح پر بڑھنے والی بے چینی و پریشانی کے طویل المدت اثرات اور معیشت و باہمی انسانی تعلقات پر اس کے اثرات سے بے خبر ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی چوتھی بار حکومت سنبھالنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن صوبے کے دارالحکومت کراچی میں امن و امان، صفائی اور بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی میں مسلسل ناکام ہے۔ اس شہر کو گروہی سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا گیا ہے۔ اندرون سندھ بھی حالات ناگفتہ بہ ہیں اور عوام کو سہولتیں دینے کی بجائے بھٹو خاندان کی قربانیوں کا لولی پوپ دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ناقص طرز حکمرانی ہی کی وجہ سے کثیر ہندو آبادی پر مشتمل اس صوبے میں مذہبی انتہاپسند گروہوں نے جڑیں مضبوط کی ہیں۔ جس دھرتی پر امن و زندگی کے گیت گائے جاتے تھے، وہاں پولیس توہین مذہب کے جھوٹے اور مشکوک مقدمے میں ایک ڈاکٹر کو گرفتار کرکے پولیس مقابلے میں شہید کرتی ہے پھر مذہبی شدت پسند اس کی لاش ورثا سے چھین کر پولیس کے سامنے اسے نذر آتش کرتے ہیں۔ غنیمت ہے کہ اس دھرتی پر اب بھی انتہاپسندی کے خلاف آواز اٹھانے والے حوصلہ مند موجود ہیں۔ سول سوسائیٹی نے گزشتہ روز ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کے قتل اور لاش کی بے حرمتی پر عمر کوٹ میں پرجوش احتجاج کیا گیا ۔ مقتول ڈاکٹرکی بیٹی اور مقامی لیڈروں نے سیاست دانوں پر زور دیا کہ مذہبی انتہاپسندی کے خاتمہ کے لیے کام کیا جائے۔
پنجاب میں تو مذہبی شدت پسندی کا بھوت یوں سروں پر سوار ہے کہ اگر کوئی پولیس افسر کسی مظلوم خاتون کو عربی آیات والا لباس پہننے کی پاداش میں انتہاپسندوں کے جتھے سے بچا بھی لے تو تھانے لے جاکر ان ہی شدت پسند مولویوں کے سامنے معافی نامہ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی صوبے کے ’غیور‘ مسلمانوں کی وجہ سے ملک بھر کے ملا جمع ہوکر سپریم کورٹ کا گھیراؤ کرتے ہیں اور ملک کے چیف جسٹس کو میرٹ پر ایک احمدی کی ضمانت منظور کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ عدالت عظمی کو مجبور کیا جاتا ہے کہ کسی قانونی گنجائش اور وجہ کے بغیر ایک مقدمہ کا فیصلہ تبدیل کیا جائے تاکہ خون آشام ملاؤں کی دکانداری چلتی رہے۔ اور اب سوشل میڈیا پر حاوی ’پاکستانی قوم‘ ایک ایسے شخص کو قوم کا ہیرو ثابت کرنے پر مصر ہے جس نے ملک کے چیف جسٹس کے ساتھ اس وقت بدکلامی جب وہ اس کی دکان میں خریداری کرنے آئے تھے۔
ہوسکتا ہے یہ سب واقعات کچھ لوگوں کی تفریح طبع اور ذاتی انا کی تسکین کا سبب بنتے ہوں لیکن مجموعی طور پر یہ قوم کو مایوسی اور پریشانی کی ایسی کھائی کی طرف دھکیل رہے ہیں جس سے بچنے کا کوئی صاف راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اور نہ ہی کوئی مسیحا سامنے ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ