سنہ 1948 میں انڈیا کی ریاست بھوپال کی وارث نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے تخت کی طرف لوٹنے کے بجائے پاکستان آنا چاہتی ہیں۔ جناح یہ سُن کر پھولے نہ سمائے اور کہا ’آخرکار! اب ہمارے پاس مسز پنڈت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تو ہو گا۔‘ مسز پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن تھیں اور اس وقت اقوامِ متحدہ میں انڈیا کی نمائندگی کر رہی تھیں۔
یہ شخصیت شہزادی گوہر تاج، بیا حضور عابدہ سلطان تھیں۔
اُن کے اکلوتے فرزند شہریار محمد خان یاد کرتے ہیں کہ جب ان کی والدہ پاکستانی سفارتخانے سے اپنا پاسپورٹ لینے پہنچیں تو انھیں خبر ملی کہ جناح کی وفات ہو گئی ہے۔ ’اس سے خاصی تاخیر پیدا ہوئی اور آخر میں وہ محض دو سوٹ کیسوں کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔‘
شہریار خان سابق سفارت کار اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہے ہیں۔
تو ہندوستان کی دو ریاستوں کی وارث اور شاہی خاندانوں میں پلی بڑھی اس شہزادی نے پاکستان کی خاطر اپنی یہ وراثت چھوڑ کر کراچی آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں بیا حضور کی زندگی پر ایک نظر ڈالنی ہو گی۔
شہزادی عابدہ سلطان نے اپنے حالات زندگی اپنی آپ بیتی ’عابدہ سلطان: ایک انقلابی شہزادی کی خودنوشت‘ میں تفصیل سے رقم کیے ہیں جس کے مطابق وہ 28 اگست 1913 کو بھوپال کے قصرِ سلطانی میں پیدا ہوئیں۔
اس وقت ریاست بھوپال پر اُن کی دادی نواب سلطان جہاں بیگم کی حکمرانی تھی جنھیں بھوپال کی رعایا ’سرکار اماں‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ سلطان جہاں بیگم کے تین بیٹے تھے جن میں سب سے چھوٹے بیٹے حمید اللہ خان تھے اور عابدہ سلطان ان کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔
اس بات کا دور دور تک امکان نہیں تھا کہ سلطان جہاں بیگم کے بعد ریاست بھوپال کے والی اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے حمید اللہ خان (یعنی عابدہ سلطان کے والد) بنیں گے اور وجہ یہ تھی کہ جہاں بیگم کے حمید اللہ سے بڑے دو بیٹے اور بھی تھے۔
مگر ہوا یہ کہ حمید اللہ خان کے دونوں بڑے بھائی سنہ 1924 میں پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں یکے بعد دیگرے وفات پا گئے۔
اب سلطان جہاں بیگم نے اپنی ریاست کا وارث حمید اللہ خان کو نامزد کیا جو علی گڑھ کے فارغ التحصیل، کھیلوں کے شوقین اور نڈر شخصیت کے مالک تھے۔ ریاست کے انگریز ریذیڈنٹ اس فیصلے کے حق میں تھے مگر وائس رائے سلطان جہاں بیگم کے پوتے حبیب اللہ خان کو اُن کا وارث بنانا چاہتے تھے۔
سلطان جہاں بیگم نے اپنا وارث نامزد کرنے کے لیے باقاعدہ مقدمہ لڑا اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئیں کہ اپنا جانشین نامزد کرنے کا اختیار خود انھیں حاصل ہے۔ سلطان جہاں بیگم نے اپنی زندگی میں ہی یعنی 1926 میں ریاست بھوپال حمید اللہ خان کے سپرد کر دی اور سنہ 1930 میں ایک مختصر سی علالت کے بعد وہ وفات پا گئیں۔
شہزادی عابدہ سلطان کے مطابق اُن کی تربیت نواب سلطان جہاں بیگم نے خود اپنی نگرانی میں کی۔ انھوں نے عابدہ سلطان کے لیے ’نور الصباح‘ کے نام سے ایک محل تعمیر کروایا اور انھیں امور مملکت کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری، نشانہ بازی اور مختلف کھیلوں کے تربیت دی۔ وہ عابدہ سلطان کی مذہبی تعلیم سے غافل نہیں رہیں اور انھیں قرآن پڑھانے کے لیے ایک عرب عالم دین شیخ محمد عرب کی خدمات حاصل کیں۔
شہریار خان بتاتے ہیں: ’سرکار اماں میری والدہ کی تربیت ایک مثالی مسلم عورت کے طرز پر کرنا چاہتی تھیں۔ وہ میری والدہ کو روز صبح چار بجے قرآن کی تلاوت کے لیے جگا دیتیں۔ تلفظ اور یادداشت کی ہر غلطی پر انھیں مار بھی پڑتی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ چھ برس کی عمر میں انھوں نے قرآن حفظ کر لیا تھا۔‘
شہریار خان کے مطابق اگرچہ سرکار اماں شہزادی عابدہ سے بہت پیار کرتی تھیں لیکن وہ اپنی شفقت کا برملا اظہار کم ہی کرتی تھیں۔ ’جس دن انھوں نے حفظِ قرآن مکمل حفظ کیا، انھیں ایک دن کی تعطیل عطا کی گئی اور سرکار اماں نے انھیں بوسہ دیا۔ میری والدہ کہتی تھیں کہ ان کی یادداشت میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے انھیں پیار سے چوما ہو کیونکہ ان کے خاندان میں شفقت کا اظہار شاز و نادر ہی کیا جاتا تھا۔‘
اس زمانے میں شاہی گھرانوں کی خواتین سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ بچپن سے ہی گھڑ سواری میں مہارت حاصل کریں۔ شہریار خان بتاتے ہیں کہ جب شہزادی عابدہ گود میں تھیں تو انھیں اور اُن کی بہنوں کو ٹوکریوں میں لٹا کر گھوڑوں کے اوپر باندھ دیا جاتا اور باغ کے چکر لگوائے جاتے۔ جب وہ بیٹھنے کے قابل ہو گئیں تو انھیں ’بکٹ چیئر‘ پر بٹھا کر گھوڑے سے باندھ دیا جاتا۔
شہریار خان کے بقول: ’چھوٹی عمر سے ہی میری والدہ کو سکھایا گیا تھا کہ ہر پٹھان کو اچھا نشانہ باز بھی ہونا چاہیے اور شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو کہ ان کے پاس اپنی کوئی بندوق نہ رہی ہو۔ بچپن میں ان کے پاس ایک کھلونا رائفل تھی جس سے وہ مکھیاں مارتیں۔ پھر جب بڑی ہوئیں تو پرندوں کا شکار کرنے کے لیے ایئر گن استعمال کرنے لگیں۔ اس سے قبل کہ میری والدہ اور ان کی بہنوں کو اصل رائفل استعمال کرنے کی اجازت ملتی، انھیں نشانہ بازی کی فوجی مشقیں کروائی گئیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر شوٹنگ رینج پر مشق کرتی تھیں۔‘
شادی اور علیحدگی
شہزادی عابدہ سلطان نے معروف صحافی اختر سعیدی کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اُن کا نکاح ان کی دادی نے ریاست کوروائی کے نواب سرور علی خان سے اپنی زندگی میں ہی کر دیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 17 سال تھی۔
شہزادی عابدہ سلطان کی خودنوشت کے مطابق ان کی رخصتی پانچ مارچ 1933 کو ہوئی اور 29 اپریل 1934 کو ان کے اکلوتے فرزند شہریار محمد خان پیدا ہوئے۔
تاہم عابدہ سلطان اور نواب سرور علی خان کی شادی زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکی۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بھوپال آ گئیں مگر نواب سرور علی خان نے وائس رائے لارڈ ولنگڈن سے شکایت کی کہ انھیں ان کے بیٹے کو حاصل کرنے کے قانونی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
قانون کے تحت وہ اپنے وارث کو حاصل کرنے کا اختیار رکھتے تھے، مگر قانون یہ بھی کہتا تھا کہ جب تک بچے کو ماں کا دودھ پلایا جا رہا ہے اس وقت تک اسے ماں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
نواب سرور علی خان نے اپنے وارث کی پہلی سالگرہ کوروائی میں منانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ایسے میں عابدہ سلطان نے ایک دلیرانہ فیصلہ کیا اور ایک رات وہ تن تنہا بھوپال سے سو میل کے فاصلے پر واقع کوروائی کے سفر پر روانہ ہو گئیں۔ رات ایک بجے وہ کوروائی کے محل میں پہنچیں، اپنا بھرا ہوا ریوالور اپنے شوہر کی جانب پھینکا اور کہا ’ہتھیار میرا ہے اور بھرا ہوا ہے۔ اسے استعمال کرو اور مجھے قتل کر دو۔ نہیں تو میں تمہیں قتل کردوں گی۔ یہ وہ واحد صورت ہے کہ تم اپنا بیٹا مجھ سے حاصل کر سکتے ہو۔‘
نواب صاحب بدحواس ہو گئے اور انھوں نے التجا کی ’خدا کے لیے یہاں سے چلی جاؤ، میں اپنے بیٹے پر کسی قسم کا حق نہیں جتاؤں گا۔‘ عابدہ سلطان نے ریوالور اٹھا کر اپنی جیب میں رکھا اور کوروائی سے بھوپال واپس پہنچ گئیں۔
اگلے روز نواب سرور علی خان نے نواب حمید اللہ خان کو عابدہ سلطان کی اس حرکت کی اطلاع دی۔ نواب حمید اللہ خان نے اپنی بیٹی کی جرأت کی حمایت کی اور یوں شہریار خان ہمیشہ کے لیے عابدہ سلطان کی تربیت میں آ گئے۔
نواب سرور علی خان نے عابدہ سلطان کو طلاق تو نہیں دی مگر ان کی اجازت سے دوسری شادی کر لی۔ بعد میں عابدہ سلطان اور نواب سرور علی خان ملاقات بھی کرنے لگے اور ان کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ دونوں خاندانوں کا آپس میں دوبارہ میل جول ہو گیا، یہاں تک کہ نواب سرور علی خان کی دوسری بیوی سے ہونے والی نواسی کی شادی شہریار خان کے بیٹے سے طے ہوئی۔
ایک غیر روایتی خاتون
شہزادی عابدہ سلطان ریاست کی اگلی وارث تھیں۔
شہریار خان بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ کئی کھیل شوق سے کھیلتی تھیں مثلاً گالف، سکواش اور ہاکی۔ اُن کے مطابق وہ ایک متحرک شخصیت کی مالک تھیں اور انھوں نے اپنی صنف کو راہ میں رکاوٹ کبھی نہیں بننے دیا۔
’وہ ایسے کپڑے پہنتی تھیں جو شاید عورت سے زیادہ کسی مرد پر جچتے۔ میری ابتدائی یادوں میں سے ہے جب میں تین برس کا تھا اور وہ مجھے نہلا رہی تھیں۔ اس وقت ان کے بال بالکل چھوٹے کٹے ہوئے تھے اور انھوں نے کوٹ پتلون پہن رکھا تھا۔ مجھے بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ گھڑسواری کا لباس تھا لیکن وہ بالکل مردوں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ انھیں قطعاً پرواہ نہیں تھی کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ انھیں کبھی کسی چیز سے ڈر لگا ہو۔‘
اپنے بچپن کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے شہریار خان کہتے ہیں کہ ایک دن وہ صبح سویرے محل میں کھیل رہے تھے کہ اُن کی نظر ایک کالے ناگ پر پڑی جو کمرے کے کونے میں بیٹھا تھا۔ ’میں ڈر کر اپنی والدہ کے پاس بھاگا لیکن انھوں نے اپنی بندوق نکالی اور اسے مار ڈالا۔‘
ہوابازی کا جنون
شہریار کے مطابق انھیں ہمیشہ یقین تھا کہ ان کی والدہ بہت طاقتور ہیں اور وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔
اس بات کی دلیل شہزادی عابدہ کی خودنوشت میں بھی ملتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ انھوں ہوابازی کا جنون تھا تاہم ان کے والد ان کے اس شوق کے راستے میں رکاوٹ بن گئے اور انھوں نے اپنی بیٹی کی زندگی خطرے میں ڈالنے سے انکار کر دیا۔
پھر عابدہ سلطان اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے ایک مہم جوئی پر مجبور ہو گئیں اور شکار کے بہانے کلکتہ پہنچ کر وہاں کے ایک مقامی فلائنگ کلب میں داخلہ لے لیا۔
شہزادی لکھتی ہیں کہ ان کے والد نے انھیں تلاش کرنے کے لیے پورے ہندوستان میں اپنے آدمی دوڑا دیے اور صاحبزادہ سعید الظفر خان انھیں کلکتہ میں تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
انھوں نے نواب حمید اللہ کو اطلاع دی اور کہا کہ شہزادی کو ہوا بازی کی تربیت جاری رکھنے کی اجازت دی جائے کیونکہ اس نے کوئی قابل مذمت کام نہیں کیا۔ نواب حمید اللہ خان نے بیٹی کو یہ اجازت دے دی اور اگلے برس شہزادی عابدہ سلطان بمبئی فلائنگ کلب سے ہندوستان کی لائسنس یافتہ پائلٹ بننے والی تیسری مسلمان خاتون بن گئیں۔
کھلاڑی اور شکاری
لندن میں قیام کے دوران شہزادی عابدہ سلطان ساؤتھ کینزنگٹن میں گریمپیئنز سکواش کورٹ میں عظیم کھلاڑی ہاشم خان کے رشتہ داروں ولی خان اور بہادر خان کے ساتھ کھیلا کرتیں۔ شہریار خان بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ نے سنہ 1949 میں آل انڈیا ومنز سکواش چیمپیئن کا اعزاز جیتا۔
ہاکی کے میدان میں بھی وہ چیمپیئنز کے ہمراہ اُتریں۔ شہریار خان کے مطابق ان کی والدہ کے ساتھ کھیلنے والوں میں انوار علی خان، کفایت علی خان اور احسن محمد خان شامل تھے۔ بعد ازاں احسن نے سنہ 1936 کے اولمپک کھیلوں میں انڈیا کی نمائندگی بھی کی اور اپنے ملک کے لیے گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔
شہزادی کا گھڑ سواری کا شوق ہی انھیں پولو کے میدان تک لے گیا۔ انھوں نے راجہ ہنوت سنگھ کے ساتھ پولو کھیلی، جنھیں انڈیا کی تاریخ کا سب سے ماہر پولو کھلاڑی بھی مانا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے والد انھیں شیر اور تیندوے کے شکار پر ساتھ لے جاتے۔ شہزادی عابدہ سلطان کے تایا نواب نصر اللہ خان بھی ایک ماہر شکاری تھے اور ناقابل یقین حد تک ایک بہترین نشانہ باز تھے۔ شہزادی عابدہ سلطان نے شیر کا شکار بھی کیا۔ شہریار خان اپنی ایک یادداشت میں لکھتے ہیں کہ ان کی والدہ نے اپنی زنگی میں 73 شیروں کا شکار کیا تھا۔
نواب حمید اللہ خان شہزادی عابدہ سلطان کو اپنا جانشین بننے کی تربیت بھی دے رہے تھے۔ وہ اپنے والد کی کابینہ میں چیف سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھیں اور جب نواب صاحب بھوپال سے باہر ہوتے تھے تو بھوپال کی حکومت وہی چلاتی تھیں۔
مگر وقت بدلا اور سنہ 1945 میں نواب حمید اللہ خان نے دوسری شادی کر دی۔ نواب حمید اللہ نے اپنی بیوی میمونہ سلطان، جو خاندان میں بیوا کے نام سے مشہور تھیں، کو پوری طرح نظرانداز کر دیا اور یہیں سے نواب حمید اللہ خان اور شہزادی عابدہ سلطان کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے۔
شہزادی عابدہ سلطان نے اپنی والدہ کو نظر انداز کرنے پر اپنے والد سے شدید احتجاج کیا اور اپنے بیٹے کے ساتھ لندن چلی گئیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہندوستان آزاد ہو رہا تھا اور پاکستان کی ریاست وجود میں آ رہی تھی۔
لندن میں شہزادی عابدہ سلطان نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان چلی جائیں گی۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کا محمد علی جناح سے رابطہ ہوا۔
ادھر نواب حمید اللہ خان کو شہزادی کے اس فیصلے کی سُن گُن ملی تو وہ بیٹی کو منانے لندن پہنچ گئے۔ انھوں نے بیٹی سے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے ’میں پاکستان منتقل ہو جاؤں، وہاں میری زیادہ ضرورت ہے اور تم بھوپال کے معاملات سنبھال لو۔‘
جناح کی وفات کے بعد یہ خبر باقاعدہ طور پر اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی کہ پاکستان کے اگلے گورنر جنرل نواب بھوپال ہوں گے، مگر پاکستانی بیورو کریسی نے اس پر عمل نہ ہونے دیا اور خواجہ ناظم الدین پاکستان کے گورنر جنرل مقرر ہو گئے۔
شہزادی نے اپنی وراثت کیوں چھوڑی؟
ادھر ہندوستان میں ریاستیں ختم ہو گئیں اور نواب بھوپال کا عہدہ ایک علامتی عہدہ بن گیا البتہ انھیں ماہانہ بنیادوں پر ایک معقول رقم ملتی رہی۔ شہزادی عابدہ نے اس سے پہلے ہی اپنے بیٹے شہریار کو بٹوارے میں ہونے والے خون خرابے سے بچانے کے لیے انگلینڈ میں نورتھ ہیمپٹن شائر کے مشہور اونڈل بورڈنگ سکول میں داخل کروا دیا تھا۔
اس سوال پر کہ وہ بھوپال میں اپنا رتبہ چھوڑ کر پاکستان کیوں آئیں، شہریار خان بتاتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے تعصب سے انھیں بہت دکھ پہنچا۔
’وہ ایک خوفناک واقعہ سناتی تھیں جب مسلم پناہ گزینوں کی ایک ٹرین کسی اور ریاست سے بھوپال پہنچی۔ وہ ان پناہ گزینوں کا استقبال کرنے پلیٹ فارم پر موجود تھیں۔ جب ٹرین کا دروازہ کھلا تو اندر کوئی زندہ نہیں بچا تھا۔ وہ اکثر کہتی تھیں کہ وہ منظر ان کی زنگی کا سب سے دلخراش باب تھا۔ اس واقعے کا ان کے پاکستان آنے کے فیصلے میں ایک کلیدی کردار تھا۔‘
شہزادی عابدہ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی بھی فکر تھی۔ شہریار بتاتے ہیں: ’انھیں محسوس ہوا کہ انڈیا میں میرا مستقبل برباد ہو جائے گا اور مجھے اپنے شعبے میں کبھی آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ اس عیش و آرام کی زندگی کے بھی خلاف تھیں جو بھوپال سمیت کئی ریاستوں کے نوابوں کا خاصا بن گئی تھی۔ وہ مجھے اس سب سے دور رکھنا چاہتی تھیں۔‘
شہزادی خود ذو اکتوبر 1950 کو کراچی آ گئیں جہاں انھوں نے ملیر میں سکونت اختیار کی اور بہاولپور ہاؤس کے سامنے اپنی قیام گاہ تعمیر کروائی۔ ملیر کا علاقہ انھیں بہت پسند تھا اور وہ اپنے اس گھر میں 50 سال سے زیادہ قیام پذیر رہیں۔ ان کی یہیں وفات ہوئی اور وہ یہیں آسودۂ خاک ہیں۔
شہریار خان بتاتے ہیں کہ وہ سنہ 1951 میں جب پاکستان آئے تو ملیر والا گھر نیا نیا تعمیر ہوا تھا۔ ’میری والدہ نے وہ گھر اپنی جمع پونجی سے تیار کروایا اور حکومت سے ان کو کچھ نہیں ملا۔ آٹھ برس تک وہاں بجلی تک نہیں تھی۔‘
شہزادی عابدہ سلطان ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ پاکستان میں ان کے تعلقات لیاقت علی خان سے لے کر محمد علی بوگرا، اسکندر مرزا، حسین شہید سہروردی، ایوب خان، یحییٰ خان اور دیگر سے قائم رہے۔
محمد علی بوگرا کے دور میں انھیں اقوام متحدہ بھیجے جانے والے پاکستانی وفد میں شامل کیا گیا اور اسکندر مرزا کے دور میں انھیں برازیل میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔ وہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے بعد اس عہدے پر فائز رہنے والی دوسری پاکستانی خاتون تھیں۔ کم و بیش اسی دوران شہریار محمد خان کیمبرج یونیورسٹی سے قانون میں اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آ گئے تھے جہاں انھوں نے سِول سروس کا امتحان پاس کر کے دفتر خارجہ میں شمولیت اختیار کر لی۔
شہریار بتاتے ہیں کہ ان کی دفتر خارجہ میں ترقی پر ان کی والدہ فخر کرتی تھیں۔
چار فروری 1960 کو نواب حمید اللہ خان بھوپال میں وفات پا گئے۔ اس وقت عابدہ سلطان بھوپال میں ہی موجود تھیں۔ انھیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ پاکستان کی شہریت ترک کر دیں اور ہندوستان واپس آ جائیں تو انھیں بھوپال کا نواب بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی شہزادی عابدہ سلطان کو یہی مشورہ دیا کہ وہ بھوپال میں رہائش اختیار کر لیں مگر شہزادی عابدہ سلطان اپنی چھوٹی بہن ساجدہ کے حق میں دستبردار ہو گئیں۔ ساجدہ سلطان کی شادی مشہور کرکٹر نواب افتخار علی خان آف پٹودی سے ہوئی تھی۔ وہ نواب منصور علی خان عرف ٹائیگر پٹودی کی والدہ اور اداکار سیف علی خان کی دادی تھیں۔
سنہ 1964 میں جب پاکستان میں صدارتی انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو شہزادی عابدہ سلطان نے جو ہمیشہ سیاست سے دور دور رہی تھیں، کونسل مسلم لیگ کی دو آنے والی رکنیت اختیار کی اور وہی تھیں جن کی کوششوں سے فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی نمائندہ کے طور پر ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے پر آمادہ ہوئیں۔
شہزادی عابدہ سلطان نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ فاطمہ جناح ایک معمولی اکثریت سے صدارتی انتخاب جیت گئی تھیں مگر ان کی اس فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا گیا۔
اس کے بعد شہزادی نے کئی پیشکشوں کے باوجود عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ وہ شاید پاکستانی سیاست کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھیں یا شاید پاکستان کی سیاست ان کے معیار پر نہیں آتی تھی۔
انجم نعیم رانا اور اردشیر کاؤس جی لکھتے ہیں کہ شہزادی اپنی کار ہمیشہ خود چلاتی تھیں۔ ایک مرتبہ انھیں اپنی آنکھوں کے علاج کے لیے گلشن اقبال جانا پڑا تو وہ اپنی کار خود چلا کر گئیں اور واپس بھی خود ہی چلا کر لائیں۔
ان کا تیراکی، ٹینس اور نشانے بازی کا سلسلہ بھی 70 سال کی عمر تک جاری رہا۔ عمر کے آخری حصے میں ان کے محلے کے نوجوان ان کے گھر آ جایا کرتے تھے جن کے ساتھ وہ ٹیبل ٹینس اور شطرنج کھیلا کرتی تھیں۔
1980 کی دہائی میں انھوں نے اپنی ڈائریوں کی مدد سے اپنی یادداشتوں کو قلم بند کرنا شروع کیا جو سنہ 2002 میں ان کی وفات سے محض ڈیڑھ ماہ قبل مکمل ہوئیں اور سنہ 2004 میں Memoirs of a Rebel Princess کے نام سے انگریزی میں اور سنہ 2007 میں ’عابدہ سلطان: ایک انقلابی شہزادی کی خودنوشت‘ کے نام سے اردو میں شائع ہوئیں۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)