وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں کہاہے کہ حکومت کو نئے آرمی چیف کے بارے میں فیصلہ کرنے کی جلدی نہیں ہے۔ اس تقرری میں ابھی تین ماہ باقی ہیں، وقت آنے پر قانون و قاعدہ کے مطابق فوج کا نیا سربراہ مقرر کیاجائے گا۔ وزیر دفاع کی یہ وضاحت تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے اس اصرار کے بعد سامنے آئی ہے کہ موجودہ حکمران ٹولے کو نیا آرمی چیف مقرر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
یہ تو واضح ہے کہ عمران خان بھی جانتے ہیں کہ وہ عوامی مقبولیت کے کیسے ہی دعوے کرتے رہیں لیکن اپوزیشن لیڈر کے طور پر اور خاص طور سے جبکہ وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں اور کسی قسم کی پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے پر آمادہ نہیں ہیں، آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ۔ ملک کی کوئی عدالت بھی اس بارے میں عمران خان کی داد رسی نہیں کرسکتی کیوں کہ اس تقرری کے حوالے سے آئین واضح ہے اور ماضی میں متعدد بار اس طریقہ پر عمل درآمد بھی ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود جب وہ تسلسل سے آرمی چیف کی تقرری کو اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس بیان بازی سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہے۔ یا تو وہ حکومت کو کسی خاص جنرل کی تقرری سے باز رکھنا چاہتے ہیں یا ان کی خواہش ہے کہ فوج ہی کوئی ایسا حربہ استعمال کرے کہ موجودہ حکومت نیا آرمی چیف مقرر نہ کرسکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں نکات عمران خان کے پیش نظر نہ ہوں بلکہ وہ ملکی سیاسی مباحثہ میں خود کو توجہ کا مرکز رکھنے کے لئے اس حساس اور کسی حد تک خطرناک موضوع پر اظہار خیال کررہے ہوں۔
عمران خان اس وقت ملک میں بڑے بڑے جلسے کررہے ہیں اور انہوں نے سیلاب کی تباہ کاری اور پاکستانی آبادی کی سنگین مشکلات کا احساس کرنے کی ہر اپیل کو مسترد کیا ہے۔ ان کا مؤقف رہا ہے کہ ’حقیقی آزادی‘ کی جد وجہد سیلاب زدگان کی مدد سے بھی اہم معاملہ ہے اور وہ کسی صورت اس عزم سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ درحقیقت عمران خان کو اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے پہلی بار یہ احساس ہؤا ہے کہ وہ پنجاب کو مسلم لیگ (ن) سے واپس لے سکتے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں 20 میں سے 15نشستیں جیتنے کے بعد ان کے اس اعتماد میں اضافہ ہؤا کہ وہ آنے والے کسی بھی انتخاب میں سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اجارہ داری توڑ کر تحریک انصاف کو چاروں صوبوں میں اکثریت دلوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اسی یقین کی بنیاد پر وہ یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کسی بھی انتخاب میں دو تہائی اکثریت حاصل کرے گی۔
یہی وجہ ہے کہ نہ تو وہ عوامی رابطہ مہم کو کمزور ہونے دینا چاہتے ہیں، نہ اپنے لب و لہجہ کی شدت کم کرنے پر آمادہ ہیں او رنہ ہی قومی مباحثہ میں کسی دوسرے سیاسی فریق کو اپنے برابر دیکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ شریف و زرداری خاندان کی کرپشن کے الزامات کو وہ خواہ کتنی ہی شدت سے ہی استعمال کرلیں لیکن یہ نعرہ اب چلے ہوئے کارتوس کی مانند ہے۔ اسی لئے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سے انہوں نے کوئی نہ کوئی نیا تنازعہ کھڑا کرنے اور سیاسی مباحثہ کو اپنی ذات کے گرد محدود رکھنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے وہ ایک سفارتی مراسلہ کی بنیاد پر امریکی سازش تلاش کرتے رہے، پھر فوج کو نیوٹرل ہونے کا طعنہ دے کر اپنے خلاف میر جعفر و میر صادق تلاش کرنے کی مہم جوئی کی، اس کے بعد پنجاب کی سیاست کے حوالے سے عدالتوں کو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور اب وہ آرمی چیف کی تقرری جیسے حساس معاملہ کو عوامی جلسوں میں موضوع بنا کر کسی بھی طرح خود کو ملکی سیاست کا محور بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد میں ایک خاتون جج کے خلاف دھمکی آمیز بیان پر انہیں توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا بھی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کا جواب مسترد کرتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے دوسرے معاملات پر غور کرتے ہوئے نیا اور واضح جواب جمع کروانے کی اجازت دی تھی۔ عام خیال تھا کہ اس اضافی جواب میں وہ عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیں گے اور اس طرح یہ معاملہ ختم ہوجائے گا۔ لیکن ان کے وکیل حامد خان کا جمع کروایا ہؤا جواب ، ان کے سابقہ جواب کا تسلسل ہی کہا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے محض افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ وہ ہمیشہ عدالت کا احترام کرتے ہیں اور عدلیہ کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اس جواب کو معافی کی بجائے عذر خواہی قرار دیتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اور فیصلہ کیا ہے کہ22 ستمبر کو ان کے خلا ف توہین عدالت کے الزام میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔
سوچنا چاہئے کہ عمران خان جس معاملہ کو معمول کے طریقہ کے مطابق غیر مشروط معافی نامہ داخل کرواکے ختم کرواسکتے تھے، اسے وہ کیوں جاری رکھنا چاہتے ہیں؟ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان اس قدر مغرور اور ذاتی انا کے اسیر ہیں کہ وہ اپنے کہے پر شرمندگی کا اعتراف کرنے اور معافی مانگنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ لیکن آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں دیے گئے بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ واضح کرچکے تھے کہ عمران خان اس صورت حال میں کسی ریلیف کی امید نہ کریں۔ اس لئے عمران خان کے طرز عمل کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اس وقت ملک کی تمام سیاسی قوتوں کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کو بھی چیلنج کررہے ہیں۔ اس کا مقصد لازمی طور سے اداروں سے لڑائی نہیں ہے بلکہ خود کو سیاسی طور سے زندہ رکھنے کی شدید خواہش ہے اور وہ اسی کے مطابق حکمت عملی اختیار کررہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس مرحلہ پر معافی مانگنے سے گریز کیا گیا ہے کیوں کہ غیر مشروط معافی تو فرد جرم عائد ہونے اور عدالتی کارروائی کے دوران کسی بھی وقت مانگی جاسکتی ہے ۔ اور بظاہر عدالت اسے قبول کرنے کی طرف مائل بھی ہوگی۔ لیکن عمران خان اس وقت ہر معاملہ کو قومی سیاسی منظر نامہ میں خود کو توجہ و بحث کا مرکز بنائے رکھنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے فوج و اسٹبلشمنٹ کے خلاف بیان بازی کے ذریعے درحقیقت’ووٹ کو عزت دو ‘ کے نعرے پر مسلم لیگ (ن) کی اجارہ داری ختم کرکے خود کو اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ کا وارث بنایا تھا۔ وہ انتخابات کے انعقاد تک ایسے ہی ہتھکنڈوں سے خود کو مرکز نگاہ بناتے ہوئے عوام کی تائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ یہ حکمت عملی خطرات سے پر ہے اور اندازے کی ذرا سی غلطی انہیں سیاسی میدان سے ہی آؤٹ کرسکتی ہے۔ لیکن عوام میں اپنی مقبولیت اور شاید درپردہ رابطوں سے ملنے والے اشاروں کی وجہ سے ، وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ موجودہ نظام میں ان کے لئے قبولیت ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور انہیں ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی طرح دودھ میں مکھی کی طرح نکالا نہیں جاسکتا۔ اس لئے انہیں ہر مقبول بیانیہ کو اپنانے اور تنازعات کے ذریعے خود کو خبروں میں زندہ رکھنے کا ہر حربہ استعمال کرنا چاہئے۔ بلاشبہ عمران خان اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔حکومت عمران خان کی اس حکمت عملی پر رد عمل دینے کے سوا کوئی ایسا سیاسی طرز عمل اختیار نہیں کرسکی جس سے میدان عمران خان کے ہاتھ سے چھینا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم سے لے کر پارٹیوں کے تمام نمائیندوں تک عمران خان کے بیانات کی مذمت کرکے انہیں مسترد کرنے کوشش کرتے ہیں۔ حکومتی ترجمانوں کا خیال ہے کہ اس طرح عمران خان کی ’حقیقت‘ عوام کے سامنے لائی جاسکے گی۔ اسی لئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اپنے سخت گیر اقتصادی فیصلوں کی توجیہ دینے کی بجائے اس موضوع پر تفصیل سے لیکچر دیتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کیسے ملکی معیشت کو تباہ کردیا تھا۔ حالانکہ عوام تو معیشت کو اپنے گھر کے بجٹ، استطاعت اور اجناس کی دستیابی کے تناظر میں دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں۔
اب آرمی چیف کی تقرری کے سوال پر حکومت اور وزیر دفاع عمران خان کو غدار اور ملک دشمن قرار دینے کا طریقہ اپنا کر درحقیقت عمران خان کے سیاسی جال میں پھنس رہے ہیں۔ حکوت عمران خان کے مقابلے میں متبادل سیاسی بیانیہ سامنے لانے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ عمران خان کی باتوں سے فوج کی توہین اور اعلیٰ فوجی افسروں کی حب الوطنی پر شبہ کا سراغ لگانے کی بجائے اگر اس معاملہ پر دوٹوک اور شفاف مؤقف اختیار کیا جاتا تو شاید عمران خان کی سیاسی جارحیت کا رخ موڑا جاسکتا تھا۔ وزیر دفاع کا یہ بیان کہ ابھی آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں بات کرنے کا وقت نہیں ہے ، حکومت کے اس خوف کی علامت بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اسے تو خود ہی معلوم نہیں ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کتنے ہفتے یا مہینے قائم رہے گی۔ یا کم از کم اس کا تاثر ضرور پیدا ہؤا ہے۔بہتر ہوتا کہ سینارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کی تقرری کے اصول کا اعلان کرکے اس غیر ضروری بحث کو ختم کیا جاتا ۔ اس طرح حکومت کا عزم بھی سامنے آتا اور فوج جیسے اہم ادارے کو غیر ضروری نکتہ چینی اور شکوک و شبہات سے بھی محفوظ رکھا جاسکتا تھا۔ بدقسمتی سے جب وزیر دفاع سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کا دو ٹوک جواب دینے کی بجائے اس موضوع پر گفتگو کو بھی قبل از وقت قرار دیا۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت خود کو عمران خان کے مقابلے میں کمزور سمجھتی ہے اور اس توازن کو تبدیل کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔
( کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ