مجھے یہ سمجھ نہ آئی کہ کسی کی خود کشی کا الزام مجھ پر آجائے گا ۔ میں جو چڑیا نہیں مار سکتا ہوں یوں بیٹھے بٹھائے ایک تئیس (23)سال کے نوجوان کی خود کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاﺅں گا۔ ہوا کیا تھا ؟بات کہیں سے بھی شروع کرسکتے ہیں ۔ مارشل لاءتو اپنے ہاں روز کا معمول ہے تو مجھے ملتان سے شکر گڑھ تبدیل کردیا گیا ،جو ہوا سو ہوا۔میں چھٹیوں میں گھر آنے کےلئے تیز گام ٹرین میں بیٹھا کہ وہ شام سات بجے ملتان پہنچ جاتی تھی ۔ میں خوش تھا کہ تیز رفتار ٹرین میں ملتان پہنچ رہا ہوں جب گاڑی خانیوال سے نکل کر ملتان کی حدود میں داخل ہوئی تو اپنے گھر پہنچنے کی خوشی اور نوبیاہتا بیوی سے شادی کی رات کے بعد پہلی بار ملنے کے طاقت ور جذبے نے مجھے وقت سے پہلے سیٹ سے کھڑا کردیا اور اپنے بیگ کو تھام کر دروازے کے قریب ہوگیا۔ باقی مسافر ابھی بیدار ہورہے تھے جونہی ٹرین پلیٹ فارم پر داخل ہوئی تو آہستہ ہوگئی تھی مگر گاڑی میرے دیکھے بھالے پلیٹ فارم پر آئی تو زور کی بریک لگی اور ایک جھٹکا۔ گاڑی تو ویسے بھی رکنے والی تھی پھر یہ اچانک بریک کا مطلب کیا تھا۔ جونہی میں پلیٹ فارم پر اُترا ایک شور برپا ہوگیا کہ کسی نے ٹرین کے سامنے اچانک چھلانگ لگا دی ہے ۔ وہ کون تھا ؟ کیوں چھلانگ لگائی تھی ؟ ٹرین کے نیچے اندھیرا تھا ۔ وہاں کسی کے جسم کے ٹکڑے اور خون کے چھینٹے تھے مگر اسے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا ، چہرہ سالم تھا پہچان ہوسکتی تھی چنانچہ گاڑی نے ہارن دیا اور خود کو دس قدم پیچھے کیا ۔اب معاملہ سامنے تھا وہ ایک نوجوان کی خود کشی تھی مگر میری گاڑی سے وہ کچل کے موت کی نیند سویا تھا، سو میں کسی حد تک ذمہ دار تھا۔آگے بڑھا ہجوم کو چیر کر جو آگے آکے کھڑا ہوا تو کسی نے آواز دی ۔ کوئی اسے پہچانتا ہے۔ اب میری آواز گلے میں رندھ گئی کیونکہ میں اسے پہچان رہا تھا۔ یہ تو میڈیکل کالج کا تیسرے سال کا طالب علم احسن فارقلیط تھا مگر یہ اُس کا اصلی نام تو تھا ہی نہیں۔ وہ تو نام بدلتا رہتا تھا۔یہ آخری نام تھا اس کا جو اس نے ہمیں بتایا تھا ۔ مجھے جلدی تھی میں نے کوئی گواہی نہیں دی اور اپنے گھر آگیا ۔ کسی کو کچھ نہیں بتایا اور سوگیا۔ اگلے دن کے اخبار نے بتایا کہ وہ واقعی احسن فار قلیط ہی تھا۔اخبار نے اس کی جیب سے نکلنے والے خط کا متن بھی شائع کردیا۔ بہت شاعرانہ انداز میں لکھا ہوا خط تھا۔ پورا دن وہ سڑکوں پر گھومتا رہا۔دنیا کے رنگ دیکھتا رہا۔ارادہ کرچکا تھا کہ بس اب زندگی کے ساتھ نباہ نہیں ہوسکتا ۔ موت بھی تو زندگی کے سکے کا دوسرا رُخ ہوتی ہے اور آخر میں لکھا کہ میں نے تین دنوں سے کچھ نہیں کھایا ۔ اچھا ہوا کہ میرا معدہ خالی ہے ورنہ قبر میں کیڑے پیدا ہوجاتے اور میرے جسم میں موجود غلاظت پر پلنے لگتے۔بظاہر یہ خود کشی تھی ، دراصل یہ قتل ہوا تھا۔ میں یہ قتل ہونے سے بچا سکتا تھا جب تک میں اُس کے ساتھ رہا یہ قتل رُکا رہا ۔ جب میں اُسے چھوڑ کر شکر گڑھ کالج تبدیل ہوگیا تو میں اُس سے دور ہوگیا۔
کچھ عرصہ پہلے بھی ایک خود کشی ہوئی تھی ۔ ملتان کے ایک جاگیردار گھرانے کا چشم وچراغ واقعی چشم بھی تھا اور چراغ بھی۔ اپنی والدہ کی طرف سے یہ خاندان ہمارا رشتہ دار بھی تھا ۔ ظفر جعفری جو نشتر کالج کے چوتھے سال میں تھا ۔ خواب آور گولیاں کھا کر ہاتھوں سے پھسل گیا۔ یہ بھی قتل تھا جسے خود کشی کا نام دیا گیا۔ میں اُسے بچا سکتا تھا اگر اس رات وہ گھر سے بھاگ کر میرے پاس آجاتا۔
ملتان میں اُس وقت میرے گرد نوجوان لکھنے والوں اور فن کاروں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ میں اُن کےلئے اظہار کا ایک وسیلہ تھا ۔ ایک تو میں ایمرسن کالج میں پڑھا رہا تھا ۔ اُردو اکادمی کی ہفتہ وار محفلوں کا سیکرٹری تھا۔”امروز “اخبار میں ادبی کالم لکھ رہا تھا جس میں نوجوان لکھنے والوں کو دریافت کرتا رہتا تھا ۔ اُن کو خود اعتمادی میں مددگار ثابت ہورہا تھا۔ اکثریت میڈیکل کالج کے نوجوانوں کی ہوتی تھی ۔ ان میں شاہد مبشر، شمعون سلیم، ابرار احمد، احسن فار قلیط، ظفر جعفری ، علی شوکت اور ارشد وحید کے ساتھ شہر کے نوجوان ادیب اور شاعر بھی شامل تھے۔ میں اُن سب نوجوانوں کو اپنے پروں میں سمیٹے رکھتا تھا۔ میں نے ماں بن کر اُن کی حفاظت کی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ابراراحمدجو اس وقت جدید نظم اور غزل کے صف ِ اول کے شاعر ہیں۔ نشتر ہسپتال کے ہوسٹل میں پہلے دوسالوں میں زندگی سے اتنے مایوس ہوئے کہ مجھے لگا یہ کسی بھی وقت خود کشی کرسکتا ہے ۔ میں نے اس پر نگاہ رکھنی شروع کردی ۔ ایک عید کا دن تھا ۔ مجھے معلوم ہوا ابرار حمد اکیلا ہوسٹل کے کمرے میں بند ہوکر پڑا ہوا ہے۔میں نے اماں سے کھانا بنوایا اور میں ہوسٹل پہنچ گیا۔ اسے باہر نکالا،اسے کھانا کھلایا اور اپنے ساتھ گھمایا پھر رفتہ رفتہ ابرار احمد نے میڈیکل سے سمجھوتہ کرلیا اور اپنے شعبے میں بڑا نامور ڈاکٹر بن کر مشہور ہوا۔
ظفر جعفری کا کیس آج کی نسل کے علم میں نہیں ہے ۔ زمیندار خاندان سے تھا اُس کے دو بڑے بھائی ایمرسن کالج میں میرے ساتھ پڑھ رہے تھے، ایک سینئر اور ایک میرا کلاس فیلو تھا ۔ ہر مشاعرے پر دونوں بھائی شیروانیاں پہن کر مشاعروں میں حصہ لیتے تھے ۔ غزلیں وہ باہر سے لکھوا کے لاتے تھے۔ظفر جعفری بہت خوبصورت نوجوان تھا ۔ ایف ایس سی کے بعدکنگ ایڈورڈ کالج میں داخل ہوگیا۔ ہنس مکھ اور چاکلیٹی ہیرو جیسی اُس کی شخصیت تھی ۔ پی ٹی وی کے پروڈیوسروں نے اس پر کمندیں ڈالیں اور پھر وہ ایک اہم سیریل ”آپے رانجھا ہوئی “ کا ہیرو بن کر سامنے آگیا ۔ اُس وقت ملتان میں ٹی وی نیا نیا آیا تھا۔ کسی کے گھر میں تھا کسی کے گھر میں نہیں تھا۔ اس سیریل کو فوزیہ رفیق نے لکھا تھا جو لاہور کی سوشل لائف میں ایک شعلہ جوالا کی طرح چھا گئی تھی اور سرمد صہبائی کے ساتھ اس کی خبریں نکلی ہوئی تھیں۔ بعد میں میرے ایک دوست صلاح الدین درانی سے شادی کرکے کینیڈا چلی گئیں ۔ درانی سی ایس پی افسر تھا اور ریلوے سروس میں آیا تھا۔ ادب اور شاعری کا دیوانہ، مصوری اس کی جڑوں میں تھی ۔ ملتان میں پوسٹنگ کے دوران اس کے ریسٹ ہاﺅس میں مجھے اس کی ساتھ کئی شامیں اور کئی دن گزارنے کا موقع ملا وہ عمر فتح کرنے کےلئے انتہائی موزوں تھی ۔ روزانہ ہم بہت کچھ فتح کرکے اُٹھتے تھے ۔ دو ایک دفعہ اس نے افسانے بھی اُردو اکادمی میں پڑھے ۔ آج کل کینیڈا میں ہے کبھی کبھی لاہور آتا ہے تو پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ فوزیہ رفیق کے اس سیریل نے دھوم مچا دی تھی اور ظفر جعفری پاکستان کے ہر گھر کی زینت بن گیا تھا۔ انہی دنوں میں سرمد صبہائی کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ صبح مجھے ٹی وی سٹیشن لے کر آتا جہاں میں ٹی وی کے لوگوں سے ملتا۔ دوپہر کا کھانا سرمد کے ساتھ کھاتا ۔ وہ اس وقت سکرپٹ ایڈیٹر تھا جو بے حد اہم پوسٹ ہوتی تھی۔ کوئی سیریل کوئی ڈرامہ اس کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا ۔ چنانچہ بڑے بڑے رائٹر اس کے دروازے کے چکر لگاتے ہوئے میں نے دیکھے تھے۔ ظفر جعفری مجھے وہاں مل گیا اس نے مجھے دیکھ کر بہت خوشی ظاہر کی ۔ ہم نے ملتان کو یاد کیا ۔ بات آئی گئی ہوگئی کہ وہ سیلی بریٹی بن چکا تھا۔ میں تو بس ابھی طلوع بھی نہیں ہوا تھا ۔ پھر کیا ہوا ؟ظفر جعفری کے والد نے اسے طعنہ دیا کہ تم نے کنجروں کا کام پکڑ لیا ہے اور پھر کنگ ایڈورڈ کالج کے طالب علم کو نشتر کالج میں مائیگریٹ کرا لیا ۔ یہ تو ایسے ہے جیسے کسی چیف سیکرٹری کو آپ سیکرٹری کی پوسٹ دے دیں۔ ظفر جعفری مجبوراً ملتان آگیامگر جس نے ایک آسمان دیکھ لیا ہو وہ کیسے ایک چھوٹے سے صحن میں قید ہوسکتا تھا اور اس کے پاس بے شمار ٹی وی ڈراموں کی آفرز موجود تھیں۔ ابھی تو اس کا کیرئیر شروع ہوا تھا۔ سب کچھ اس کے ارمانوں کا ایندھن بن گیا ۔ اب ظفر جعفری نے ملتان میں ایک اُداس زندگی شروع کردی اس کی آخری اُمید میں تھا۔ وہ میرے گھر آنا شروع ہوا اور اس نے ایک تنظیم بنانے کا آئیڈیا دیا بلکہ اس نے انجمن کا نام بھی رکھ لیا تھا۔ نام تھا ”رولنگ سٹون “۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ہم مل کر اس فنون ِ لطیفہ کے رولنگ سٹون کا حصہ بن جائیں گے اس کے اندر آگ جل رہی تھی جس پر مجھے ہی ہاتھ تاپنے تھے میں ہاتھ تاپتا رہا۔
اس وقت ریڈیو پاکستان ملتان ہمارے لئے ایک ہوادار غلام گردش تھا ۔ چار پیسے بھی مل جاتے تھے اور گپ شپ بھی ۔ایک دن محسن نقوی میرے گھر آیا اور اس نے بتایا کہ ریڈیو ملتان پر اُس کی غزل کی دھن بن رہی ہے۔ شام کو ڈیرہ اڈا کے ایک جدید قسم کے کافی ہاﺅس میں محسن نقوی غزل گائیکی کے گلوکار غلام علی کو لے کر آگیا ۔ ہم تینوں وہاں بیٹھے ۔ غلام علی بہت مقبول فن کار تھا اور میرے لئے بڑی بات تھی کہ میں اس کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ وہاں سے شروع ہونیوالی ملاقات غلام علی سے آج بھی محبت کے رشتے میں موجود ہے۔ وہاں غلام علی نے محسن نقوی کی غزل کے مکھڑے کو گا کر دھن کا پتہ دیا ۔ غزل یہ تھی ۔
”یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بُجھ گیا آوارگی“
اب ایسے میں ظفر جعفری کو پتہ چلا کہ غلام علی آیا ہوا ہے کیونکہ ظفر جعفری لاہور ٹیلی وژن پر غلام علی سے نہ صرف واقفیت حاصل کرچکا تھا بلکہ غلام علی اس کے سیریل کی وجہ سے اس کا مداح بن چکا تھا۔ چنانچہ طے پایا کہ کل شام ظفر جعفری کی کوٹھی پر جمع ہوں گے۔ کھانا بھی وہیں کھائیں گے اور اس غزل کی دھن کو پکا کریں گے۔ چنانچہ ہم سب شمس آباد کالونی میں ظفر جعفری کی کوٹھی میں پہنچ گئے۔ محسن نقوی میرا ہم جماعت تھا اور دوست بھی ،ایسا کہ یک جان دو قالب۔اس لئے شام کو میں ظفر جعفری کی کوٹھی پہنچ گیا ۔ اب ہم اُن کی بیٹھک میں بیٹھ گئے اور غلام علی نے اس غزل کی دھن ہارمونیم پر پکی کرنی شروع کردی۔
یہ دل یہ پاگل دل میراکیوں بُجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اِک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
بہت عرصے بعد جب محسن نقوی شہید ہوگیا تو میں نے سوچا دشت میں تو کوئی شہر نہیں ہوتا۔ ہمیں چکر دے گیا محسن ۔ابھی غلام علی نے اپنے جوہر دکھانے شروع ہی کئے تھے کہ ظفر جعفری کے والد آئے اور غصے میں چیخے بند کرو یہ کنجر خانہ ۔ میرے بیٹے کو پڑھنے دو۔ تم لاہور سے یہاں بھی آگئے ہو ۔ اٹھاﺅ طبلہ تنبورا
( جاری )
بشکریہ : پیلوں ۔۔ ملتان
فیس بک کمینٹ