اب ظاہر ہے طبلہ تنبورا تو سمیٹا گیا ساتھ میں ظفر جعفری کا دانہ پانی بھی اس دنیا سے اُٹھ گیا۔ ظفر جعفری نے صبح اپنے میڈیکل کالج کی لیبارٹری سے خواب آور گولیوں کی پوری بوتل اپنے اندر انڈیل لی ۔ جب معلوم ہوا دیر ہوچکی تھی۔ اس کا معدہ صاف کرنے کےلئے ڈاکٹروں نے تگ ودو کی ۔ کل ملا کے بیس گھنٹے لگے ہوں گے کہ اس نے جانے کی ٹھان لی۔ میں نے ”امروز“میں کالم لکھا۔ کالم ایک مرثیہ بھی تھا اور اسے قتل کرنے کا انکشاف بھی ۔عنوان تھا ”کھیلن کو مانگے چاند “
میں اُس کی تدفین میں نہیں گیا۔ اگلے روز اس کےلئے قرآن خوانی تھی۔کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ شرکت کرنی چاہیے ۔ میں تین چار دوستوں کے ساتھ جب وہاں پہنچا تو اُن کی کوٹھی کالان سوگواروں سے بھرا ہوا تھا۔ جونہی میں دوستوں کے ساتھ پہنچا تو کسی نے ظفر جعفری کے والد کو بتایا کہ کالم میں نے لکھا تھا۔وہ اپنی جگہ سے اُٹھے مجمع کو چیر کے میرے پاس پہنچے اور میرے پاﺅں پکڑ کر کہنے لگے مجھے معاف کردیں ۔ مجھے بڑی سزا مل چکی ہے۔ سزا انہیں اس بات کی ملی کہ آرٹ ادب اور فنون لطیفہ کی بے حرمتی کرنے والے فیوڈل رویے کا سرجھک گیا مگر کیا یہ رویہ ختم ہوگیا بالکل نہیں ۔ یہ رویہ آج بھی ہمارے سماج میں موجود ہے ۔ گانے والے ، شاعری اور موسیقی سے تعلق رکھنے والوں کو آج بھی کنجر اور میراثی سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مہدی حسن کا بیان آج بھی مجھے یاد ہے۔ خاں صاحب نے میرے سامنے یہ کہا کہ جب ہم واہگہ سے اُس پار دوسرے ملک جاتے ہیں تو بھگوان بن جاتے ہیں اور جب واہگہ سے اپنے ملک کی سرحد میں داخل ہوتے ہیں تو میراثی بن جاتے ہیں۔
ظفر جعفری کو میں نے احسن فار قلیط کے حوالے سے یاد کیا کہ یہ دونوں میرے لئے قتل تھے۔ احسن فار قلیط کون تھا۔ ذرا پیچھے مڑ کردیکھتے ہیں ۔ اس وقت کا ملتان شہر تھا ہی کتنا بڑا ۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو کہیں نہ کہیں جا ملتا تھا ۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ ایک عربی لباس میں نوجوان اُردو اکادمی کی ہفتہ وار نشست میں موجود ہے۔ معمول کی حاضری میں سب دوست حیراں تھے کہ یہ عربی یہاں کس لئے آیا ہے لباس مکمل عربی تھاجب تنقیدی اجلاس شروع ہوا تو اس نے پہلے دو تین جملے عربی میں ادا کئے جب اس کے ساتھ بیٹھے نوجوان کی ہنسی چھوٹی تو اس نے اُردو میں بات شروع کردی ۔ تب پتہ چلا یہ احسن فار قلیط ہے اور اس نے یہ بھیس بدلا ہوا ہے ۔ اس کے بعد وہ مختلف موقعوں پر بھیس بدل کر آجاتا تھا۔ ایک دن اُس نے لنڈے کا اوور کوٹ اور سر پر ہیٹ ہاتھ میں پائپ لے رکھا تھا اور ہوٹل شب روز پہنچ گیا ۔ اسی طرح اس نے کچھ نظمیں بھی لکھیں اور اکادمی کے اجلاس میں پیش کیں۔ وہ یہ بھیس کیوں بدل رہا تھا۔ یہ کپڑے اسے کون فراہم کرتا تھا۔ ظاہر ہے یہ لنڈے کا مال تھا یا کسی دوست سے اُدھار لیتا تھا کیونکہ مجھے یاد ہے وہ ہوسٹل کی فیس نہیں دے سکتا تھا اس لئے دولت گیٹ کے ایک چوبارے پر معمولی سے کمرے میں رہتا تھا۔ مجھے یاد نہیں نشتر کالج میں اس کا نام کٹ چکا تھا یا وہ وہاں باقاعدگی سے تعلیم جاری رکھے ہوئے تھا۔ میرا اس زمانے میں کسی ایک گروپ میں اٹھنا بیٹھنا نہیں تھا۔ مجھے اپنے کالم کے لئے طرح طرح کے تجربے کرنا اچھا لگتا تھا۔ کبھی میں شفیع اختر کے سکول میں دو فرنیچر ساز دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتا ۔ کبھی منصور کریم اور ارشد ملتانی کے ساتھ،خواجہ غلام فرید کے دربار پر حاضری دینے کوٹ مٹھن نکل جاتا ۔ کبھی عابد عمیق اور عبدالرشید کے ساتھ جدید شاعری کی تلاش میں سر کھپاتا اور کبھی ریڈیو ملتان کے پروڈیوسروں کے ساتھ چھاﺅنی کے ہوٹلوں کی خاک چھانتا۔ ایسے میں احسن فارقلیط کہیں نہ کہیں کسی جگہ انوکھے بھیس میں نظر آجاتا۔ میں اسے ایک دلچسپ بہروپیے کے کردار سے آگے نہ جان سکا۔ مجھے وہ ایک کامیڈ ین ہی محسوس ہوتا رہا۔
لیکن ایک دن مجھے اسے قریب سے دیکھنے کا موقع مل ہی گیا ۔ مجھے اطلاع ملی کہ شام کو پانچ بجے احسن فار قلیط کی سالگرہ ہے اور اس نے مجھے مہمان خصوصی بنایا ہے ۔ شاید میں پہلی بار اُس چھوٹے سے چوبارے کے کمرے میں گیا جو دولت گیٹ کی نکڑ پر واقع تھا۔ تنگ وتاریک سیڑھیاں چڑھ کر اس کمرے میں پہنچا ۔ شاید ایک بلب روشن تھا اور ایک کھڑکی باہر سڑک پر کھلتی تھی جس سے تانگوں کے گزرنے اور کبھی کبھی کسی رکشہ کے گزرنے کی آوازیں آتی تھیں۔ یاد نہیں اس نے پھر غلام عباس کے افسانے ’ ’بہروپیا“کے کردار کی طرح کوئی بھیس بدل رکھا تھا۔میں پہنچا تو چار پانچ اس کے نوجوان دوست جن سے میں ملتا رہتا تھا موجود تھے۔ میں نے کہا کیک لاﺅ تو سالگرہ منائی جائے۔ احسن فار قلیط نے ایک کپڑا اٹھایا نیچے قصائی کی گوشت کاٹنے والی لکڑی کی کھوڑی رکھی تھی اور اس پر گڑکی بھیلی۔ ساتھ ہی گوشت کاٹنے والا ٹوکا رکھا تھا ۔ احسن نے اُس سے گڑ کو کاٹا اور ہیپی برٹھ ڈے ٹویوسب نے مل کے گایا۔ پہلے تو مجھے یہ کامیڈی محسوس ہوئی لیکن ساتھ ہی میں نے سوچا یہ تو بلیک کامیڈی ہے۔یہ تو کچھ اور بات ہے ۔میں نے کسی کو بھیجا کہ میری طرف سے نیچے چائے کی دکان کو سب کےلئے چائے اور بسکٹ کا کہہ کر آئے ۔چائے بسکٹ آئے اور احسن نے تقریر بھی کی کہ اُس کے دنیا میں آنے سے بہت بڑا خلا پُر ہوگیا ہے اور جب وہ اس دنیا سے جائے گا تو بہت بڑا خلا پھر سے پیدا ہوجائے گا جسے صدیوں تک کوئی پُر نہ کرسکے گا۔اب یہ بہت پرانی بات ہے میں ساری باتیں اب یاد نہیں کرسکتا ۔ اس دن کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر اداسی اور دکھ کا بہت بڑآتش فشاں اندرہی اندر پَل رہا تھا ۔کون اس کی مدد کرتا تھا یا گزر اوقات کیسے کرتا تھا ۔ اس کا بھی کبھی کسی نے ذکر نہیں کیا تھا۔ البتہ ایک دن ایک نوجوان شاعرنے جو اُس کے ذرا قریب تھا یہ بتایا کہ احسن فار قلیط اُس کا اصل نام نہیں ہے شاید کچھ اور ہے۔ وہ پتوکی کے قریب کسی گاﺅں کا رہنے والا ہے۔ باپ کسی چھوٹی سی مسجد کاامام ہے وہ اسے مولوی بنانا چاہتا تھا لیکن اسے پڑھنے کا شوق تھا۔وہ اسے مارتا پیٹا تھا، میٹرک میں بہت اچھے نمبر لے کر کالج پہنچا تو باپ نے گھر سے نکال دیا ۔ ایف ایس سی کالج کے اساتذہ کی مدد سے کرلی اور اسے نشتر میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا ۔اب آگے اُس نے کیوں ہمت چھوڑ دی ۔ کیا عوامل رہے ہوں گے ۔ البتہ ایک دو دن کا فاقہ اُس کا روز کا معمول بنتا گیا ۔ اس کی مجھے اس کی خود کشی کے بعد خبر ملی۔ اس کردار کو میں نے ایک برے افسانہ نگار کی طرح ضائع کردیا۔ آج سوچتا ہوں کاش میں اس کردار کو بچا لیتا ،بچانا کچھ مشکل بھی نہیں تھا ۔میرے شکر گڑھ جانے سے شاید وہ اکیلا رہ گیا ہوگا۔ ایسا میرا گمان ہے یا پھر اسے ظفر جعفری کے واقعے کا علم تھا۔ اسی لئے وہ اس کے راستے پر چلا گیا۔ اس رات کاش میں اس تیزگام میں سفر نہ کرہا ہوتا جس کے سامنے اس نے کود کر خود کشی کی تھی۔ اسے تو معلوم نہیں تھا میں اس میں آرہا ہوں۔ میں اس کی خود کشی کا ذمہ دار خود کو کیوں سمجھ رہا ہوں۔ ظفر جعفری اور احسن فار قلیط کی خود کشی کے اسباب مجھے ایک جیسے لگتے ہیں دونوں کو قتل کیا گیا۔ ایف آئی آر دونوں کے والدین کے خلاف کٹوائی جاسکتی ہے ۔ مگر اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔ کچھ کچھ میں بھی اس قتل کا ذمہ دار ہوں۔ معلوم نہیں کیسے ؟
بشکریہ : پیلوں ۔۔ ملتان ِ
فیس بک کمینٹ