بھارتی حکومت نے امریکہ میں میکا سنگھ، دلجیت دوسانج کے پاکستانی پروموٹر کے ساتھ شوز کینسل کروانے کے بعد بھارت کے تمام اداکاروں اور گلوکاروں پر دنیا بھر میں کسی بھی پاکستانی پروموٹر کے ساتھ شو کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ ممتاز بھارتی گلوکار کمار سانو نے ایک تازہ وڈیو میں کہا ہے وہ اور الکا ہانک امریکہ بھر میں شوز کرنے آ رہے ہیں مگر وہ کسی پاکستانی پروموٹر کے زیر منعقدہ شو میں حصہ نہیں لیں گے تاہم پاکستانی گلوکار راحت فتح علی، عاطف اسلم امریکہ بھر میں بھارتی کمیونٹی کی جانب سے پاکستانی گلوکاروں کے شوز کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد بھی بھارتی پروموٹرز کے ساتھ کام کرتے رہیں گے اور اکتوبر نومبر میں یہ دونوں پاکستانی گلوکار امریکہ شوز کرنے جا رہے ہیں اور یہاں دونوں گلوکاروں کے نیشنل پروموٹرز بھارتی نژاد امریکن ہیں۔ واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے سب سے پہلے دلجیت دوسانج پر اکیس ستمبر کے ہیوسٹن میں پاکستانی پروموٹر کے شو میں شرکت کرنے پر پابندی لگائی تھی پھر بھارتی حکومت نے سلمان خان کے ہیوسٹن شو پر پابندی لگائی جہاں ان کے ہمراہ ممتاز بھارتی گلوکار میکا سنگھ بھی تھے جو حال ہی میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے فوری بعد سابق آرمی چیف جنرل مشرف کے ایک کاروباری پارٹنر عدنان اسد کے بیٹے کی شادی میں اپنے پندرہ افراد کے ساتھ پرفارمنس کرنے کراچی گئے تھے اور حکومت پاکستان کی جانب سے راتوں رات میکا سنگھ اور ان کی ساتھیوں کو خصوصی ویزے جاری کئے گئے تھے۔ میکا سنگھ کو پاکستان لے کر جانے کا انتظام ہیوسٹن میں ممتاز پاکستانی فلمی پروموٹر ریحان صدیقی نے کیا۔ عدنان اسد کے ہیوسٹن میں دوست اور کاروباری پارٹنر تنویر احمد کے ایما پر کیا تھا اور ریحان صدیقی نے میکا سنگھ کو پاکستان لے جانے کی مد میں سوا لاکھ ڈالر وصول کئے تھے تاہم ریحان صدیقی اس امر سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں میکا سنگھ کو رقم پاکستان میں براہ راست دی گئی تھی اور جو بینک کے ذریعے پاکستان سے بھارت گئی اور ایف بی آر نے اس رقم پر اپنا ٹیکس بھی وصول کیا تھا۔
ریحان صدیقی کا دعویٰ ہے وہ عدنان اسد اور میکا سنگھ کے درمیان ڈیل کرانے اور میکا سنگھ کو پاکستان ساتھ لے کر جانے کی حد تک محدود تھے تاہم ریحان صدیقی اس امر کا اقرار کرتے ہیںکہ ’’ بھارتی حکومت میکا سنگھ کے پاکستان جانے پر معترض ہے اور اسی ناراضی کے اظہار کے لئے بھارتی حکومت نے میکا سنگھ کو ہیوسٹن میں سلمان خان کے شو میں شرکت سے روک دیا تھا کیونکہ وہ شو میں (ریحان صدیقی) منعقد کر رہا تھا‘‘۔ ریحان خان کا دعویٰ ہے کہ اسی بنیاد پر سلمان خان نے پورے امریکہ کے شوز ہی کینسل کر دیئے تھے۔ یہاں دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ایک طرف بھارتی حکومت امریکہ میں بھارتی نژاد فلمی پروموٹرز پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ پاکستانی پروموٹرز کو شوز فروخت نہ کریں اور اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے دلجیت دوسانج کے بھارتی پروموٹر جو پاکستانی گلوکار عاطف اسلم کے بھی امریکہ میں پروموٹر ہیں، درشن نے ہیوسٹن میں ریحان صدیقی کو شو کے انعقاد سے دس دن پہلے شو دینے سے انکار کر دیا مگر ریحان صدیقی امریکہ بھر میں اسی درشن کے ایما پر منظر پر آ کر عاطف اسلم کے شو کرنے جا رہے ہیں۔ درشن پر بھارتی حکومت کا دبائو ہے کہ وہ عاطف اسلم سے بھی معاہدہ ختم کریں کیونکہ عاطف اسلم پاکستانی گلوکار ہیں۔ بھارتی حکومت کو چپ کرانے کے لئے ریحان صدیقی کو مڈل مین کے طور پر سامنے لایا گیا ہے اسی طرح راحت فتح علی خان کے امریکہ بھر میں ہونے والے شوز کے نیشنل پروموٹر بھی بھارتی نژاد انڈین ہیں۔
اس قومی بے حسی کی داستان کے راوی آفاق فاروقی ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں اور ان کا شمار منجھے ہوئے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ آپ ان پاکستانی نغمے اور جنگی ترانے گانے والے گلوکاروں کی حرص کا اندازہ لگائیں اور ملک و قوم سے ان کی کمٹمنٹ کے لیول پر بھی غور کریں کہ آئی ایس پی آر سے بھاری رقم لے کر پاکستان سے محبت پر مبنی نغمے اور ترانے بھی گاتے ہیں اور دوسری طرف کشمیری مسلمانوں کے دشمن اور پاکستان پر گندی نظر رکھنے والے مودی کے لے پالکوں کے بھی محض ہوس زر میں پارٹنر بھی بن جاتے ہیں۔ ہماری حکومت کشمیریوں کے لئے بھی ابھی تک زبانی کلامی ہمدردی کا اظہار کر رہی ہے، اسے سوچنا چاہئے کہ اگر بھارت اپنے پروموٹرز کو موسیقی کی محفلوں میں پاکستانی سنگرز کا بائیکاٹ کرنے کا حکم دیتی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بلیک لسٹ کر کے ان پر لعن طعن بھی کرتی ہے۔ کیا ہم ان بے حس اور دولت کے پجاری گلوکاروں کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے اور کیا ہم خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد نہیں کر سکتے بلکہ میرے خیال میں ہمیں یہ سب کچھ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کے لئے نیب ہی کافی ہے اور ان پر منی لانڈرنگ کے جو کیس بنیں گے کم از کم یہ کیس لازمی طور پر سچے ہوں گے۔
میں کسی کو غدار کہنا انتہائی گھٹیا فعل سمجھتا ہوں، یہ گلوکار بھی غدار نہیں ہیں مگر ان کا عمل گھٹیا ضرور ہے۔ انہیں شرم آنی چاہئے کہ یہ چند ٹکوں کی خاطر اپنی کشمیری ماؤں بہنوں کے خون اور ان کی عصمت کا سودا کر رہے ہیں۔ دولت کی ہوس انسان کو اندھا کر دیتی ہے اور یہ لوگ غیرت، حمیت اور شرم و حیا کو ایک طرف رکھ کر دولت سمیٹنے میں مشغول ہیں۔
مجھے آخر میں اپنی حکومت سے صرف یہ درخواست کرنا ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان بھی اس سلسلے میں سخت ترین اقدامات کرے اس کے علاوہ پاکستان میں میوزک کنسٹرٹ منعقد کرنے والوں اور ٹی وی چینلز میں ان کی شرکت کیلئے ترلے منتے کرنیوالوں کو بھی قومی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے ان کا بائیکاٹ کرنا چاہئے بلکہ ان کیساتھ وہی سلوک ہونا چاہئے جو اپوزیشن کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)