آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچی گلیوں کی بَدبُودار جھگیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے۔یہ آخری مغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے۔ یہ کچی زمین پر سوتی ہے، ننگے پاؤں پھرتی ہے، مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہےمگر یہ لوگ اس کسمپرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں۔ یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ،یہ شہزادے اور شہزادیاں کون ہیں؟
یہ ہندوستان کے آخری بادشاہ کی سیاسی غلطیاں ہیں، بادشاہ نے اپنے گرد نااہل، خوشامدی اور کرپٹ لوگوں کا لشکر جمع کر لیا تھا۔ یہ لوگ بادشاہ کی آنکھیں بھی تھے، اس کے کان بھی اور اس کا ضمیر بھی۔ بادشاہ کے دو بیٹوں نے سلطنت آپس میں تقسیم کر لی تھی۔ایک شہزادہ داخلی امور کا مالک تھااور دوسرا خارجی امور کا مختار۔ دونوں کے درمیان لڑائی بھی چلتی رہتی تھی اور بادشاہ ان دونوں کی ہر غلطی، ہر کوتاہی معاف کر دیتا تھا۔عوام کی حالت انتہائی ناگُفتہ بہ تھی۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی۔خوراک منڈیوں سے کٹائی کے موسموں میں غائب ہو جاتی تھی۔ سوداگر منہ مانگی قیمت پر لوگوں کو گندم،گڑ اور ترکاری بیچتے تھے۔ٹیکسوں میں روز اضافہ ہوتا تھا۔ شہزادوں نے دلی شہر میں کبوتروں کے دانے تک پر ٹیکس لگا دیا تھا۔طوائفوں کی کمائی تک کا ایک حصہ شہزادوں کی جیب میں چلا جاتا تھا۔شاہی خاندان کے لوگ قتل بھی کر دیتے تھے تو کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا تھا۔ ریاست شاہی دربار کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ نواب، صوبیدار، امیر اور سلطان آزاد ہو چکے تھے اور یہ مغل سلطنت کو ماننے تک سے انکاری تھے۔فوج تلوار کی نوک پر بادشاہ سے جو چاہتی تھی منوا لیتی تھی۔عوام بادشاہ اور اس کے خاندان سے بیزار ہو چکے تھے۔ یہ گلیوں اور بازاروں میں بادشاہ کو ننگی گالیاں دیتے تھے اور کوتوال چپ چاپ ان کے قریب سے گزر جاتے تھے جب کہ انگریز مضبوط ہوتے جا رہے تھے۔
یہ روز معاہدہ توڑتے تھے اور شاہی خاندان وسیع تر قومی مفاد میں انگریزوں کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیتا تھا۔انگریز بادشاہ کے وفاداروں کو قتل کر دیتے تھے اور شاہی خاندان جب احتجاج کرتا تھا تو انگریز بادشاہ کو یہ بتا کر حیران کر دیتا تھا ’’ظل الٰہی وہ شخص آپ کا وفادار نہیں تھا، وہ ننگ انسانیت آپ کے خلاف سازش کر رہا تھا‘‘ اور بادشاہ اس پر یقین کر لیتا تھا۔ بادشاہ نے طویل عرصے تک اپنی فوج بھی ٹیسٹ نہیں کی تھی چنانچہ جب لڑنے کا وقت آیا تو فوجیوں سے تلواریں تک نہ اٹھائی گئیں۔ ان حالات میں جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی اور بادشاہ گرتا پڑتا شاہی ہاتھی پر چڑھا تو عوام نے لاتعلق رہنے کا اعلان کر دیا۔
لوگ کہتے تھے ہمارے لیے بہادر شاہ ظفر یا الیگزینڈرا وکٹوریا دونوں برابر ہیں۔ مجاہدین جذبے سے لبریز تھے لیکن ان کے پاس قیادت نہیں تھی۔
بادشاہ ڈبل مائنڈڈ تھا‘ یہ انگریز سے لڑنا بھی چاہتا تھا اور اپنی مدت شاہی بھی پوری کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس جنگ کا وہی نتیجہ نکلا جو ڈبل مائنڈ ہو کر لڑی جانے والی جنگوں کا نکلتا ہے،شاہی خاندان کو دلی میں ذبح کر دیا گیا جب کہ بادشاہ جلاوطن ہو گیا۔
بادشاہ کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گیراج میں قید رہا۔ گھر کے احاطہ میں دفن ہوا اور اس کی اولاد آج تک اپنی عظمت رفتہ کا ٹوکرا سر پر اٹھا کر رنگون کی گلیوں میں پھر رہی ہے۔یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے‘جو بادشاہ اپنی سلطنت، اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے،جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں، ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں۔یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں۔لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی۔یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں۔ (منقول)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ