زندگی میں کچھ ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان اپنے جذبات کو الفاظ کی شکل دینا بھی چاہے تو قلم ساتھ نہیں دیتا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی برسی پر لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور قلم لرز رہا ہے۔ جب میں بھٹو صاحب کی پھانسی پر لکھی گئی کتابیں اور تحریریں پڑھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتاہے کہ کیسے فخر ایشیا اور قائدِ عوام کو سازشوں کی بنا پر موت کی گھاٹ اتارا گیا۔
aامریکہ کے روزنامہ اخبار ”کرسچن سائنس مانیڑ“ Christian Science Monitor نے 12 اکتوبر 1974 کی اشاعت میں پاکستان کی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے بھٹو صاحب کو خراج تحسین پیش کیا کہ بھٹوصاحب وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے پاکستان کو 1971 کے زوال کے بعد دلدل سے باہر نکالا۔بھٹو صاحب ایسے نڈر اور بہادر انسان تھے جو حق کے لئے باطل سے ٹکرائے اور اپنی جان کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہ کیا۔ جب وہ وزیر خارجہ تھے صدر جانس نے کہا ”دنیا کے جس حصے اور جتنی چاہے دولت لے لو اور ہماری راہ سے ہٹ جاؤ ، لیکن بھٹو نے کہا ”ہم بکاؤ مال نہیں ہیں ، ایک غیر مند قوم ہیں۔“
فخر ایشیابھٹو صاحب کے کارناموں کی تفصیل طویل ہے لیکن آئین سازی ان کی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔شملہ معاہدے میں فاتح ملک کی کوئی شرط مانے بغیر نہ صرف 90 ہزار جنگی قیدی، ساڑھے 5 ہزار مربع میل مقبوضہ علاقہ اور 3 سو سے زائد اعلیٰ افسران پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ نہیں چلنے دیا، بلکہ بنگلہ دیش تسلیم کرنے سے پہلے ہی یہ منوا لیا تھا کہ کشمیر ایک متنازعہ اور حل طلب مسئلہ ہے۔ بھٹو صاحب نے زرعی اصلاحات نافذ کر کے جاگیرداروں پر کاری ضرب لگائی ۔ غریبوں کیلئے 5 مرلہ سکیم بنائی گئی۔ ایٹمی پروگرام کے خالق کے طور پر بھٹو صاحب کا نام تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔بھٹو صاحب نے اسلامی بینک قائم کیا۔ یکم ستمبر 1963 کو قائد عوام نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 27 جون 1964 کو قائد عوام کو ہلال پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔ 31 جولائی 1964 کو انہوں نے میثاقِ استنبول کا اعلان کیا۔ اکتوبر 1964 قائد عوام کو ایران کی طرف سے نشانِ ہمایوں دیا گیا۔ 22 فروری 1974 کو اسلامی سربراہی کانفرنس کا چیئرمین بنایا گیا اور کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ قائد عوام نے 7 ستمبر 1971 کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا۔ انہوں نے اقلیتوں کے امور کی وفاقی وزارت قائم کی۔ انہیں آئین میں مثالی تحفظ دیا ۔ یہ ان کی بالغ نظری اور انصاف پسندی کا ثبوت ہے کہ ملک میں سماجی تعلیمی ، اقتصادی اور دیگر اصلاحات نافذ کیں۔ بھٹو صاحب نے اقلیتوں کو حقوق اور تحفظ دے کر انصاف پسند اور خوشحال معاشرے کو پروان چڑھایا۔ وہ صرف پاکستانی اکثریت ہی نہیں بلکہ اقلیتوں کے بھی قائد ہیں۔
اہلِ نظر کی آنکھ ہے دل کا سرور ہے
ہر باشعور ذہن میں اس کا ظہور ہے
(زاہد عباس سید)
30 نومبر 1967 کو بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی جماعت ”پاکستان پیپلز پارٹی“ تشکیل دی۔ عوامی شعور کی جو شمع جو بھٹوصاحب نے پی پی پی کی شکل میں روشن کی وہ آج بھی مفاد پرستانہ سیاست کے اندر عوامی امید کی علامت بنی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی آج بھی لاکھوں رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاق میں پانچ سالہ اقتدار کے دوران عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کی۔آصف علی زرداری کے دور صدارت میں عوامی حقوق کے تحفظ اور ملکی سلامتی کیلئے بے شمار اقدامات کیے گئے۔ زرداری صاحب نے بھٹو کے وژن پر چلتے ہوئے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی منفی قوتوں سے بچانے کیلئے کوششیں کیں۔ جسکی وجہ سے آج ملک میں امن کی راہیں پھوٹ رہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے شہید بھٹو کے افکار کو مشعل راہ بنا کر ملک سے دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے امن کا پرچم تھام لیا ہے۔ بھٹو صاحب ظاہری طور پر تو موجود نہیں ہیں مگر لوگوں کے دل و دماغ پر نقش کیا ہوا ہے۔ انہیں کے نقش قدم پر چل کر ہم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے بھٹو صاحب جیسے عظیم اور کرشماتی لیڈر کوایک کمزور مقدمہ قتل میں سزائے موت سنا دی گئی۔ شہید بھٹو نے منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی باوقار انداز سے اس ملک عدالتوں کا سامنا کیا تھا۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم و صدر پاکستان کے متفقہ آئین کے خالق اور ایٹمی پروگرام کے بانی کو کٹہروں میں کھڑا کر کے ذلیل و رسوا کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازشیں کی گئی لیکن کوئی بھی جبر و تشدد عوام کے ذہنوں سے بھٹو صاحب کے افکار کو نہیں مٹا سکا۔
شہید بھٹو نے انتہائی کم عرصے میں بڑے عظیم کارنامے سر انجام دیئے جن کی بدولت پاکستان کے عوام کے دلوں میں آج بھی ان کی حکمرانی قائم ہے اور صدیوں تک قائم رہے گی۔
بھٹو صاحب نے جان کا نذرانہ پیش کر دیا مگر منفی قوتوں کے سامنے جھکے نہیں ۔مختصراً یہ کہ قائد عوام نے جن حالات میں ملک کی بھاگ ڈ ور سنبھالی تھی اس کے پیش نظر پاکستان کا موجودہ استحکام بلاشبہ معجزہ ہے۔ انھوں نے ملک کی کایا پلٹ کر اسے نسلی بحران سے نکال کر ساحل۔ مراد تک پہنچایا۔
دنیا میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب جیسے عظیم اور دانشور و مفکر اور سیاستدان کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے نڈر لیڈر اور کرشماتی شخصیت کے مالک جو ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرتے تھے۔ وہ مر کر بھی زندہ ہیں اور آج بھی عوام کے دلوں پر راج کر رہے ہیں، جبکہ ان کی گردن میں پھانسی کا پھندا ڈالنے والے نفرتوں کی تہہ کے اندر دفن ہو چکے ہیں۔ وقت کے فرعونوں نے ان تھک کوشش کی کہ بھٹو صاحب کی ہستی اور صفحہ ہستی سے مٹا دیں مگر ان ظالموں سازشیں انہیں ہی لے ڈوبی۔
بھٹو زندہ ہے اورہمیشہ زندہ رہے گا۔
فیس بک کمینٹ