نصف صدی قوموں کی زندگی میں شاید ایک مختصر وقفہ کہلائے گی لیکن ایک فرد کی فعال بالغ زندگی کے کل برس غالباً اتنے ہی ہوتے ہیں۔ درویش نے ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں شعور کی آنکھ کھولی۔ ملک ٹوٹ چکا تھا اور قومی تاریخ میں پہلی منتخب حکومت قائم ہو چکی تھی۔ اب مڑ کے دیکھتا ہوں تو چھوٹی چھوٹی گلیوں میں تانگے اور سائیکلوں کی بہار یاد آتی ہے۔ کل آبادی سات کروڑ سے کم تھی، ہریالی زیادہ تھی۔ کسی بھی سمت چلنا شروع کرتے تو دس پندرہ منٹ میں شہر کی حدود ختم ہو جاتی تھی۔ تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز موجود تھے۔ حکومت کی عمل داری بڑی حد تک موجود تھی۔ اشرافیہ سے ہم جیسوں کا واسطہ نہیں تھا۔ عام شہریوں کی زندگیاں سادہ تھیں۔ زیادہ نہیں کل ملا کے پانچ عشرے ہی تو گزرے ہیں۔ منیر نیازی کے شعر میں معمولی تحریف کی جسارت کرتا ہوں۔
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے ہیں
جو سایہ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا
انسانی معاشرہ بہت ہی پیچیدہ بندوبست ہے اور جدید قومی ریاست میں تو ایک غلط قدم نسلوں کی مسافرت کھوٹی کر دیتا ہے۔
بھٹو صاحب کو چاہنے والوں سے معذرت لیکن بھٹو شہید کی مردم شناسی پر بہت سے سوال ہیں۔ 16 دسمبر 1971ء کو میجر جنرل غلام جیلانی آئی ایس آئی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ نئی حکومت نے ساڑھے پانچ برس انہیں اس حساس منصب پر برقرار رکھا۔ یہ شخص نہایت خاموشی سے نوزائیدہ جمہوریت کی جڑیں کھودتا رہا۔ اس عہد کی ہر بڑی سیاسی ناکامی کے پیچھے جنرل صاحب کا نادیدہ ہاتھ کارفرما تھا۔ 4 جولائی 1977ء کو بالآخر وہ رات اتر آئی جس کا تانا بانا نومبر 1971میں کسی نے پیکنگ میں بیٹھ کے تیار کیا تھا۔ ہمارے حال کا ملبہ اس تباہ کن رات کی دین ہے۔
بھٹو صاحب کی جمہوریت پر تنقید کرنے والوں نے کھلے بازوﺅں سے آمریت کا خیر مقدم کیا۔ سرد جنگ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی تھی اور تاریخ کے اس بدلاﺅ میں ’افغان جہاد‘ ایک اہم کڑی تھی۔ ہماری جنوب مغربی سرحد پر ایران میں سیاسی تبدیلی بھی ہم پر اثر انداز ہوئی لیکن ہمارے تمدنی خد و خال بدلنے میں بنیادی کردار سعودی عرب اور امریکا کے پاکستانی ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ نے ادا کیا۔ عسکری معاملات میں معمولی درک رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ منظم فوج سے پنجہ آزمائی کرنے والوں کو متعلقہ علاقے سے باہر ایسے ٹھکانوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ اپنی کارروائی کر کے پناہ لے سکیں۔ نیز انہیں خفیہ تربیت گاہوں اور اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان نے عالمی قوتوں کی اس رستا خیز میں اپنی سرزمین پیش کی۔ آمریت کو سرمایہ دار بلاک کی آشیرواد سمیت ڈالروں کی ریل پیل نصیب ہوئی۔ 1980ء میں کل تین سو مذہبی مدارس بڑھ کر 35 ہزار ہو گئے۔ ساڑھے سات کروڑ آبادی کے ملک میں تیس لاکھ افغان مہاجر بسائے گئے۔
پاکستان میں دائیں بازو کو پہلی بار اقتدار نصیب ہوا۔ جمہوریت پسند اور ترقی پسند عناصر پر زمین تنگ کر دی گئی۔ ہمارے تمدن کے خد و خال بدل گئے۔ ہماری لغت بدل گئی۔ ہمارا رہن سہن بدل گیا اور اہم ترین نقصان یہ ہوا کہ ملک کے اندر روشن خیال آوازیں ختم ہو گئیں یا ملک بدر ہو گئیں۔ آمریت حتمی تجزیے میں کرپشن کی بدترین صورت ہے کیونکہ ملک کے وسائل اور فیصلہ سازی پر مٹھی بھر لوگ اجارہ قائم کر لیتے ہیں۔ معاشرت کا بنیادی اصول ہے کہ جوابدہ حکومت کی غیر موجودگی ناگزیر طور پر بدعنوانی کو جنم دیتی ہے۔ آمریت غیر جوابدہ بھی ہوتی ہے اور اسے حیلوں بہانوں سے غیر متعینہ مدت تک خود کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے ہماری سیاست کو کھلے عام زبان، فرقے اور ذات برادری جیسی دھڑے بندیوں کے ہاتھ رہن رکھ دیا۔ آمریت کی مخالفت کرنے والوں کو مذہب بیزار اور وطن دشمن قرار دیا گیا۔ جمہوری مطالبہ تو صرف یہ تھا کہ ملک کو مذہب کے نام پر ہم عصر عالمی دھارے سے الگ کیا گیا تو ہم ذہنی پسماندگی اور معاشی غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ تاہم جمہوری آوازوں کو اس قدر کمزور کر دیا گیا کہ وہ معاشرے میں اپنا اثر کھو بیٹھیں۔ نائن الیون کے بعد ہم نے بیس برس تک وہ جھوٹ بولا جس کا پول قدم قدم پر کھلتا رہا۔ ہم دنیا ہی سے جھوٹ نہیں بول رہے تھے، ہم اپنے عوام کو بھی بے خبر رکھ رہے تھے۔
اگست 2021ء میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو ہماری خوشی دیدنی تھی لیکن مختصر تھی۔ رواں ہفتے پاکستان نے پہلی بار افغان سرزمین پر کارروائی کی ہے اور طالبان کا بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آیا ہے۔ گویا تاریخ نے گواہی دی ہے کہ افغان جہاد میں پاکستان کی شرکت اور موجودہ صدی میں طالبان کی درپردہ حمایت کی مخالفت کرنے والوں کا موقف درست تھا۔ عین اس موقع پر جب مشرقی سرحد پر تعلقات مخدوش ہیں اور مغربی سرحد پر طالبان حملہ آور ہیں، لاہور سے ایک جذباتی لاﺅ لشکر اٹھتا ہے اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا رخ کرتا ہے۔ غالباً اًمریکی سفارت خانے کا عزم کرنے والے 21 نومبر 1979ء اور 25 جنوری 1989ء کے واقعات کا اعادہ چاہتے تھے۔ جانی اور مالی اتلاف کا ملال اپنی جگہ لیکن اس گروہ کے بارے میں حکومت نے صحیح قدم اٹھایا ہے۔ اگر پختون خوا پر حملہ آور ٹولا بھارت کا بالواسطہ کھیل کھیل رہا ہے تو پنجاب میں بدامنی پیدا کر کے ملک کو نقصان پہنچانے والے بھی اسی سازش کا حصہ ہیں۔ 19 دسمبر 2017ء کو سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل (ر) قمر باجوہ نے اس گروہ کو سیاسی دھارے میں لانے کا اعتراف کیا تھا۔ صاحبو! آپ خالص مذہبی ایجنڈا رکھنے والے گروہوں کی سرپرستی کریں گے تو جمہوری تالاب ناگزیر طور پر گدلا ہو گا۔ افغانستان کے ساتھ کھلی لڑائی سے ثابت ہو گیا ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا کسی جمہوری ریاست کے ساتھ تال میل نہیں ہو سکتا۔ یہ رائے دینے والے نہ گزرے ہوئے کل میں غدار وطن تھے اور نہ آج اپنے عوام کے حقیقی مفاد سے بے نیاز ہیں۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ