مولانا فضل الرحمان کے بعد اب عمران خان نے بھی افغانستان کے ساتھ قیام امن کے لیے تعاون کرنے کی پیش کش کی ہے۔ اس دوران افغانستان نے آج ایک بار پھر بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاقوں میں پاکستان پر حملے کیے تھے ۔ تاہم افغانستان کی درخواست پر پاکستان 48 گھنٹے کی جنگ بندی پر راضی ہوگیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آج صبح بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن کے علاقے اسپن بولدک اور خیبرپختونخوا کے کُرم سیکٹر میں افغان طالبان اور فتنۃ الخوارج نے حملے کیے تھے۔ پاک فوج نے ان حملوں کوناکام بناتے ہوئے 45 سے 50 حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔ جوابی کارروائی میں کئی چیک پوسٹیں اور ٹینک بھی تباہ کیے گئے ۔ اسی دوران پی ٹی وی نے اطلاع دی تھی کہ ان جھڑپوں کے بعد پاکستان نے کابل اور قندھار میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا اور افغان فوج کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ ان حملوں کے بعد ہی کابل کی طرف سے عبوری جنگ بندی کی درخواست دی گئی ہے جسے دفتر خارجہ کی اطلاع کے مطابق 48 گھنٹے کے لیے منظور کرلیا گیا ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان ان دو دنوں میں افغانستان پر واضح کرے گا کہ وہ بنیادی مسئلہ ختم کرنے کے لیے کارروائی کرےبصورت دیگر یہ جنگ طول پکڑ سکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ کشیدگی ایک بار پھر افغانستان نے ہی شروع کی ہے۔ اس سے پہلے 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان نے پاکستان پر بلااشتعال حملہ کیا تھا۔ اس فوجی کارروائی میں پاکستان کے 23 فوجی شہید ہوئے تھے لیکن دشمن کو بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ۔ پاک فوج نے بتایا تھا کہ افغانستان کی بیس کے لگ بھگ چوکیوں پر پاکستان نے عارضی طور سے قبضہ کرلیا تھا۔ افغانستان کی وزارت دفاع کا اس بارے میں مؤقف تھا کہ یہ حملہ 9 اکتوبر کو کابل پر پاکستان کے فضائی حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔ پاکستانی فوج نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا۔
افغان وزارت دفاع نے اتوار کی رات ہونے والے حملے کے چند گھنٹے بعد ہی فائر بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اہداف حاصل کرلیے ہیں ، اب اگر ہمارے خلاف جارحیت نہ کی گئی توہم جنگ نہیں کریں گے۔ پاکستان نے اس جنگ بندی کو قبول نہیں کیا تھا لیکن دو روز تک سرحدوں پر سکون رہا تھا۔ آج علی الصبح ہونے والے حملوں سے پہلے یہی امید کی جارہی تھی کہ اب دونوں ممالک مستقل جنگ بندی پر متفق ہوجائیں گے۔ تاہم اب ایک بار پھر محاذ گرم ہوچکا ہے۔
افغانستان نے آج ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں کوئی مؤقف پیش نہیں کیا اور نہ یہ بتایا گیا ہے کہ جنگ بندی کا اعلان کرنے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں حملے کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ غالباً افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان میں مختلف گروہوں کی باہمی چپقلش کے نتیجہ میں پاکستان کے خلاف محاذ کھولا گیا ہے۔ اس بارے میں فیصلے کرتے ہوئے افغان لیڈروں میں اتفاق رائے کی کمی محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ وقت کا تعین کرتے ہوئے بھی حساسیات کا لحاظ نہیں کیا گیا۔ اتوار کو جب افغان فوج نے پاکستان کی سرحدوں پر جنگ چھیڑی تواس وقت وزیر خارجہ امیر خان متقی نئی دہلی کا دورہ کررہے تھے۔ وہاں انہوں نے بعض متنازعہ بیان بھی دیے تھے۔ کابل حکومت نے اس موقع پر پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرکے غیر ضروری اشتعال انگیزی کا ماحول پیدا کیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی سرد ہیں ۔ مئی کے دوران دونوں ممالک عسکری جھڑپوں میں ملوث ہوئے تھے۔ اور حال ہی میں بھارت کی فوجی و سیاسی قیادت نے پاکستان کے خلاف غیر ضروری جارحانہ بیانات دیے تھے۔
افغان حکام نے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑتے ہوئے اس پہلو پر غور کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ اس موقع پر ان کے وزیر خارجہ کی بھارت میں موجودگی اسلام آباد میں بھارتی مداخلت کے بارے میں شبہات کو ہوا دے گی۔ اسلام آباد کا ایسا شبہ خود افغان حکومت کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ تاہم پاکستان کے خلاف جنگ شروع کرنے کے بعد طالبان حکمرانوں نے دیکھ لیا کہ بھارت سمیت دنیا کے کسی ملک نے افغانستان کے ساتھ اظہار یک جہتی نہیں کیا۔ بھارتی لیڈر افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی تو کرتے رہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی پاکستان پر حملہ کے لیے افغان حکومت کی کھل کر مدد نہیں کرسکتے۔ اس صورت میں بھارتی حکومت کو دنیا بھر کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ ٹیرف اور پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے سوال پر پیدا ہونے والے تنازعہ کی وجہ سے نئی دہلی اور واشنگٹن کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔
افغانستان کو یہ اندازہ بھی ہونا چاہئے تھا کہ اس کے پاس کوئی منظم فوج نہیں ہے اور دنیا کے کسی ملک نے افغانستان کو تسلیم نہیں کیا اور ان کی خواتین کے خلاف پالیسیوں کو عالمی طور سے مسترد کیا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ پاکستان جیسی منظم اور طاقت ور فوج کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ پاکستان ، افغانستان کی طرف سے جنگ کے آغاز سے پہلے ہی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ وہ افغانستان میں ان دہشت گرد نیٹ ورک تباہ کرے جو پاکستان میں دہشت گرد حملوں کا سبب بنتے ہیں۔ گزشتہ چند روز میں پاکستان نے سرحدوں کی حفاظت کرنے کے علاوہ فضائی حملوں سے افغانستان کے متعدد علاقوں میں ایسے ہی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اب دو روز کی جنگ بندی کے دوران پاکستان یہی مطالبہ کرے گا کہ افغان حکمران تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی سے تائب ہوجائیں اور وہاں ملک سے مفرور دہشت گرد سرغنوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ کابل حکومت اگر یہ مطالبہ نہیں مانتی اور اس پر عمل کرکے نہیں دکھاتی تو پاکستان ، افغانستان کے خلاف شدید جنگی کارروائی کرسکتا ہے کیوں کہ یہ موقع خود کابل حکومت نے ہی اسے فراہم کیا ہے۔
اس دوران پاکستان کی طرف سے افغانستان میں عوام کی نمائیندہ حکومت کی بات کرکے یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ پاکستان اب ا س جنگ کو طالبان کے اقتدار پر براہ راست ضرب لگانے کے لیے استعمال کرے گا۔ کابل میں پاکستان دشمن کی بجائے ایسے عناصر کی حکومت کا خیر مقدم کیا جائے گا جو اسلام آباد کے ساتھ اعتماد و احترام کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہو ۔ اور بھارت جیسے پاکستان دشمن ملک کو ساتھ ملا کر پاکستان کو کمزور کرنے کے بالواسطہ اشارے دینے سے گریز کرے۔ اس لیے آئیندہ چند گھنٹوں میں ہونے والی بات چیت دونوں ملکوں کے لیے اہم ہوگی۔ تاہم طالبان حکومت کے لیے اس میں کامیابی زندگی اور موت کا سوال بھی ہے۔
دریں اثنا پاکستانی سیاسی لیڈر افغانستان کے ساتھ معاملات کے حوالے سے داخلی سیاست میں مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ روز جمیعت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے ثالثی کی پیش کش کی تھی اور آج تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے پیغام بھیجا ہے کہ اگر انہیں پیرول پر رہا کیا جائے تو وہ اس معاملہ میں مدد کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ عمران خان کابل کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کیسا تعاون فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ افغان طالبان کی مزاج شناسی کے علاوہ رابطوں کے حوالے سے پاکستانی فوج و اداروں کو دہائیوں کا تجربہ حاصل ہے۔ طویل اور خوں ریز دہشت گردی کی مہم جوئی کے بعد اب سرحدوں پر ہونے والے حملوں کے بعد پاکستانی فوج طالبان حکومت کے ساتھ حساب برابر کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گی۔ ایسے میں افغان طالبان اور کسی حد تک ٹی ٹی پی سے ہمدردی رکھنے والے سیاسی لیڈروں کی کوئی مدد کارآمد نہیں ہوسکتی۔
عمران خان نے تو حال ہی میں خیبر پختون خوا کا وزیر اعلیٰ تبدیل کرکے اور صوبے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو وفاقی حکومت اور فوج کی غلطی قرار دے کر خود ہی اپنے آپشنز محدود کرلیے ہیں۔ کسی حد تک مولانا فضل الرحمان سے بھی یہی چوک ہوئی ہے لیکن تحریک انصاف نے تو ایک غیر ملک کے ساتھ جنگ کے دوران ملک میں ہونے والی دہشت گردی کو سیاسی غلطی کا نتیجہ بتا کر پاکستان کی پوزیشن کمزور کی ہے۔ عمران خان نے اس تنازعہ میں پاکستان کو غلط قرار یا ہے۔ ملک کے کسی بھی سیاسی لیڈر کو سیاسی چالیں چلتے ہوئے قومی سلامتی کے اہم پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
عمران خان ، افغانستان کے ساتھ معاملات طے کرانے کی پیش کش ایک ایسے ماحول میں کررہے ہیں جب پاکستانی حکومت اور فوج شاید کوئی بڑے اہداف حاصل کیے بغیر جنگ بند کرنے پر راضی نہ ہو۔ جبکہ عمران خان کے نزدیک شاید یہ مقاصد اہمیت ہی نہیں رکھتے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

