عاشقان عمران خان کی بے پناہ اکثریت تواتر سے میری نسل کے لوگوں کو اس ملک کے مسائل کا حقیقی ذمہ دار سمجھتی ہے۔ بنیادی گلہ انہیں یہ ہے کہ ہم ’’بڈھے‘‘ اپنی جوانی میں بزدل اور منافق تھے۔ ریاستی قوت سے دبکے نوکریاں بچانے کی فکر میں مبتلا رہتے۔ پاکستانیوں کو ’’غلام‘‘ سوچ کی طرف دھکیلنے میں صحافیوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سچ کبھی لکھ نہیں پائے۔ جھوٹ بولتے ہوئے مشہور ہوگئے تو صحافتی اداروں کے مالکان سے بھاری بھر کم تنخواہیں لینے کے علاوہ کرپٹ اور بدعنوان اشرافیہ سے لفافے،پلاٹ اور نجانے کیا کچھ وصول کرنا شروع کردیا۔
میری ذات اور نسل کے صحافیوں پر مشتمل میڈیا کے پلیٹ فارموں پر جو تنقید ہوتی ہے میں اکثر اس سے گھبرانے کے بجائے عموماََ یاددلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں ’’جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے‘‘ کی دھن میں مبتلا صحافیوں اور لکھاریوں کی بھی ایک موثر تعداد ہر دور میں موجود رہی ہے۔ آج بھی ناصر زیدی جیسے صحافی زندہ ہیں جو ان چار صحافیوں میں شامل تھے جنہیں آزادی صحافت کے لئے آواز بلند کرنے کے جرم میں ٹکٹکی سے باندھ کر جنرل ضیاء کے دور میں کوڑے لگائے گئے تھے۔
میں وضاحتیں دیتا ہوں تو کئی چاہنے والے پسند نہیں کرتے۔ پرخلوص فکر مندی سے مصر رہتے ہیں کہ ’’غول عاشقان عمران‘‘ سے بحث میں الجھ کر میں اپنی تحقیر یقینی بنانے کی اذیت میں کیوں مبتلا ہوجاتا ہوں۔ اپنی بے عزتی اور دلیل کے بجائے جواب میں گالم گلوچ سے ہر انسان گھبراتا ہے۔ میں بھی کوئی ملامتی صوفی نہیں ہوں کہ اپنی ذلت میں ’’نروان‘‘ ڈھونڈنے کی کوشش کروں۔ گالم گلوچ سے گھبرا کر مگر مکالمے کی خواہش سے دست بردار ہونہیں سکتا۔ ’’عاشقان عمران خان‘‘ کو سمجھانا فقط یہ مقصود رہتا ہے کہ ’’کبھی ہم بھی …‘‘لیکن بالآخر دریافت یہ ہوا کہ ’’اب یہاں کوئی نہیں -کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ مجھے یہ شبہ ہے کہ کئی برسوں سے جنونیوں کی طرح تحریک انصاف کے عشق میں مبتلا نوجوان بھی ان دنوں مایوسی کے ویسے ہی جھٹکے محسوس کررہے ہیں جو میری نسل نے اپنے خواب شکستہ ہونے کی وجہ سے 1980ء کی دہائی کے وسط سے برداشت کرنا شروع کردئے تھے۔
حکومتی بھونپوجو بھی کہتے رہیں حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کو کامل تین دنوں تک کنٹینروں میں محصور کرنے کے علاوہ موبائل فون کے سگنلوں سے بھی محروم کردینے کے باوجود وزیر داخلہ اور اسلام آباد پولس ’’اسلامی جمہوریہ کنٹینرستان‘‘ کے دارالحکومت میں تحریک انصاف کے گرویدہ افراد کے بڑے گروہوں کو داخلے سے نہ روک سکی۔ خیبرپختونخواہ سے وہاں کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ہمراہ آنے والے قافلے کے سینکڑوں نوجوانوں نے کئی گھنٹوں تک پنجاب پولیس کی آنسو گیس کو برداشت کیا۔ یہ بات بھی اگرچہ حقیقت ہے کہ اس قافلے میں سادہ کپڑوں میں ملبوس چند سرکاری اہلکار بھی تھے جو آنسو گیس کے شیل ’’مخالف صفوں‘‘ تک پھینکنے کے میرے اور آپ کے دئے ٹیکسوں کی بدولت قابل بنائے گئے تھے۔
علی امین کے ہمراہ آنے والے قافلے کے علاوہ اسلام آباد کے ڈی چوک اور وہاں تک لے جانے والے کئی مقامات پر تحریک انصاف کے حامیوں کی ٹولیاں وقفوں وقفوں سے اچانک پرجوش گروہ کی صورت نکل کر پولیس کو تشدد کے لئے اْکساتیں۔ ’’پلس مقابلے‘‘ شہر کے متعدد مقامات پر کئی گھنٹے جاری رہے۔
دیوانوں کی طرح ریاستی قوت کو اشتعال دلانے والے نوجوانوں کو کامل یقین تھا کہ علی امین گنڈاپور ہر صورت ’’آگ اور خون کا دریا‘‘ عبور کرنے کے بعد اسلام آباد کے ریڈزون پہنچ جائیں گے۔ ان کے وہاں پہنچ جانے کے بعد حکومت شکست خوردہ محسوس کرتی ہوئی ہاتھ کھڑے کرلے گی۔ عمران خان سے اڈیالہ جیل میں مذاکرات کو مجبور ہوجائے گی اور بالآخر ہمارے ہاں حال ہی میں بنگلہ دیش میں رونما ہوئی جیسی ’’انقلابی‘‘ تبدیلی آجائے گی۔ ہفتے کی صبح ہوجانے کے بعد مگر راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے ایک مقام پر پھنسے علی امین گنڈا پور سے سٹیلائٹ فون کے ذریعے ’’مذاکرات‘‘ کا آغاز ہوا۔ مذکورہ گفتگو کی بدولت جو سکرپٹ تیار ہوا اس پر عمل کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور ’’اچانک‘‘ اپنے قافلے سے کھسک کر اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ مختلف چورراستوں سے گزرکر وہ اسلام آباد کے ’’چائنہ چوک‘‘ میں نمودار ہوگئے۔میرے محتاط اندازے کے مطابق اس وقت وہاں تحریک انصاف کے کم از کم 5ہزار فدائین موجود تھے۔ علی امین گنڈا پور نے مگر انہیں ’’قیادت‘‘ فراہم کرنے کے بجائے خیبرپختونخواہ کا رخ کرلیا۔ وہاں پہنچ جانے کے بعد وہ دو دنوں تک ’’گم‘‘ رہے۔ بالآخر اتوار کی رات صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں نمودار ہوئے۔ وہاں اپنی گمشدگی اوربازیابی کی جو داستان انہوں نے سنائی ہے اس پر اعتبار کرنے کے بجائے ہنسنے کو جی مچل جاتا ہے۔
علی امین نے جس انداز میں ’’انقلاب‘‘ کو نظر بظاہر پروان چڑھنے نہیں دیا اس نے تحریک انصاف کے کئی حامی نوجوانوں کے دل توڑ دئے ہیں۔ وہ فقط علی امین کی کہہ مکرنیوں ہی سے دل برداشتہ نہیں ہوئے۔ عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف کی تمام قیادت سے بھی شکوہ کناں ہیں کہ وہ انہیں ہر صورت ڈی چوک پہنچنے کو اْکساتے رہے مگر بذاتِ خود ان کی قیادت کرنے کے لئے وہاں موجود نہیں تھے۔
علی امین گنڈاپور اور تحریک انصاف کی دیگر قیادت سے مایوس ہوئے عاشقان عمران خان بے چینی سے منتظر رہے کہ پیر کے روز اپنے وکلاء اور دیگر ملاقاتیوں کے ذریعے ان کے قائد کیاپیغام دیں گے۔ ظالم حکومت نے مگر 18اکتوبر تک بانی تحریک انصاف ہی سے نہیں بلکہ اڈیالہ جیل کے ہر قیدی سے ملاقات پر پابندی لگادی ہے۔ جواز اس کا ’’حفاظتی اقدامات‘‘ ہیں جو شنگھائی تعاون کونسل کے 15اور16اکتوبر کو ہونے والے اجلاس کے لئے لاگو ہوئے ہیں۔ ایسے عالم میں عاشقان عمران کی اکثریت بہت اداس ہے۔ مجھ میں انہیں طعنے دینے کا حوصلہ نہیں۔ میں بھی جب جوان تھا اور اپنی عمر سے بڑے لوگوں کے ہاتھوں اپنے ’’انقلابی‘‘ خوابوں کو چکناچور ہوتے دیکھتا تو ایسا ہی محسوس کرتا تھا۔ آج سے کئی دہائیاں قبل اردو کے شہرہ آفاق ناول نگار عبداللہ حسین کے تخلیقی ذہن نے دریافت کرلیا تھا کہ ہماری دھرتی فقط ’’اداس نسلیں‘‘ ہی پیدا کرسکتی ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ