گزشتہ روز مجھے پی ٹی آئی کے ایک دوست کی پوسٹ موصول ہوئی جس میں ڈونٹس کا ذکر تھا اور نیچے کچھ گالیاں درج تھیں۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ ڈونٹس اور گالیوں کا آپس میں کیا تعلق ہے، وضاحت مانگی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ڈونٹس کی ایک دکان پر اپنی بیٹی اور اہلیہ کے ساتھ خریداری کےلئے گئے تو سیلز مین نے قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھا کہ کیا آپ قاضی فائز عیسیٰ ہیں تو ان کے اثبات میں جواب دینے پر اس سیلز مین نے کہا ’’پھرآپ پر لعنت ہو‘‘ پہلے مجھے یقین نہ آیا کہ کوئی شخص کسی وی آئی پی کے ساتھ ان کی اہلیہ ہی نہیں ان کی بیٹی کے بھی سامنے یہ گندی حرکت کرسکتا ہے؟ (ممکن ہے یہ بیکری سیل کردی گئی ہو) مگر پھر یقین آگیا جب پی ٹی آئی والوں کو اس ذلالت کا جشن مناتے دیکھا۔ ایک دم سے سارا سوشل میڈیا بدبو دار، گند نامہ بن گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ ہم ایک گندی قوم ہیں جس کے چھوٹے بڑے گندی گالیوں کے سائے میں حال ہی میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ یہ سب قاضی فائز عیسیٰ ایسے خاندانی اور بطور جج نہایت اعلیٰ شہرت کے حامل انسان کو ایسی ایسی گالیاں دے رہے ہیں ،جو یہ لوگ ملاقات پر اپنے قریب ترین دوستوں کے لئے گندی گالیوں کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اور عمران خان کی بیعت کے بعد تو یہ سب کے سب مجسم گالی بن چکے ہیں۔
اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس کی زد سے ان کے ماضی کے ’’فضلو‘‘ اور حال کے مولانا فضل الرحمان جیسی قابل احترام شخصیت بھی نہیں بچی، ان دنوں یہ ان کی امامت میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کی ذلت اور عزت کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ ویسے ان کی زد سے آج تک بچا کون ہے۔ عمران خان نے بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب و ملت تمام سیاستدانوں کو چور،لٹیرے اتنی بار کہا جیسے وہ نفسیاتی طور پر اپنے اندر کے چور لٹیرے کو دھمکا رہا ہو۔ نعوذ باللہ اس نے بالواسطہ طور پر خود کو جس طرح نبی کہا، اس قسم کے نبی کے ’’صحابیوں‘‘ نے اپنے اقدامات سے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی پوری کوشش کی۔
احسن اقبال، خواجہ آصف کے علاوہ میاں محمد نواز شریف کو جلسہ عام میں اپنی ایک گھنائونی حرکت کا نشانہ بنایا۔ لندن میں قیام کے دوران میاں نوازشریف کی رہائش گاہ کے باہر روزانہ ’’مجرا‘‘ کرتے رہے،اپنے سابقہ محسن جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے ذکر پر ان دنوں توبہ استغفار کرتے ہیں،9مئی کو ان لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ایک مختصر سے طبقے کے ساتھ مل کر پاکستان کی ذلت کا جو سماں پیدا کیا وہ کسی بدترین دشمن نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ دوسری طرف اندرون خانہ یہ ترچھی آنکھوں سے ان کے جوتوں کی گرد کی طرف بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ کب بوٹ پالش کرنے کا موقع ملے۔ان لوگوں نے گھروں میں بھی فساد پیدا کئے، خاندان ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے۔ جج بھی ’’فرقوں‘‘ میں تبدیل ہو کر رہ گئے اور یوں انہوں نے عدلیہ کو بھی اپنی لاج نہیں رکھنے دی۔اور یہ سب تماشا اس لئے کیا جا رہا ہے کہ جس طرح پہلے اسٹیبلشمنٹ انہیں اپنے کاندھوں پر بٹھا کر وزیراعظم ہائوس چھوڑ کر آئی تھی ایک دفعہ پھر وہ یہ کالک اپنے منہ پر ملے۔ مگر یہ تو کسی کی امید پر بھی پورے نہیں اترے۔ نہ ملک بھر کے گورنر ہائوسز پر بلڈوزر پھیرے گئے، نہ پچاس لاکھ مکان عوام کو دیئے اور نہ ایک کروڑ نوکریاں۔ اسی طرح کے پی کے میں بھی ساڑھے تین سو ڈیم بنا کر نہیں دکھائے۔ باتیں اور بھی بہت سی ہیں مگر میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں اپنے پسندیدہ سیاستدانوںکے حق میں تو کالم لکھتا رہا ہوں، عمران خان کے حوالے یہ میرا پہلا کالم ہے۔ غصہ تو بہت عرصے سے دل میں موجود تھا مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جس طرح ان کی بیٹی اور اہلیہ کے سامنے گالی دی گئی وہ بہت ساری دیگر وجوہ جو میں نےبیان کی ہیں ،یہ وجہ اسی طرح فوری وجہ بن گئی جس طرح تاریخ کی کتابوں میں جنگ پلاسی کی فوری وجہ بیان کی جاتی ہے۔ میں جانتا ہوں ماضی میں بغیر کسی وجہ کے اس طبقے کی توپوں کا رخ میری طرف رہا ہے اور جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں جو انتہائی مضحکہ خیز الزام پیش کئے گئے تھے، ان میں وہ الزام تھا ہی نہیں جس کے حوالےسے میری کردار کشی کی گئی۔ اس دفعہ بھی ایسے ہی ہوگا مگر میں اس کے جواب میں راحت اندوری والا رویہ اپنائوں گا۔ ایک مشاعرے میں ایک سامع نے ان سے بدتمیزی کی انہوں نے جوا ب میں کہا برخوردار میں اس مقام تک بیالیس برس میں پہنچا ہوں اور تمہارے مقام تک پہنچنے کے لئے مجھے صرف ایک منٹ لگےگا۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ