ایران اور اسرائیل میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر تیسری عالمی جنگ شروع ہو گئی تو کیا اسے ختم کرنے کیلئے کوئی زندہ بچے گا ؟یکم اکتوبر کو ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش سے قبل ہی امریکہ کے صدارتی الیکشن کی مہم میں تیسری عالمی جنگ کا تذکرہ شروع ہو چکا ہے۔ 25اگست کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر جوبائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔اس کے بعد 27ستمبر کو اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ پر حملہ کیا اور یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل پر دو سو میزائل فائر کر دیئے ۔ایران نے اسرائیل پر حملوں کا وہی جواز پیش کیا ہے جو اسرائیل نے غزہ پر بمباری کے بعد پیش کیا تھا۔ اسرائیل نے غزہ اور لبنان پر جب بھی حملہ کیا تو یہ کہا کہ ہم تو اپنا دفاع کر رہے ہیں ۔
ایران نے بھی اسرائیل پر میزائل داغ کر کہا کہ ہم نے عالمی قوانین کے تحت اپنے دفاع میں اسرائیل پر حملہ کیا ہے ۔دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو آپ کو صرف فلسطین، لبنان او رشام میں نہیں بلکہ یوکرائن میں بھی جنگ کے شعلے نظر آ رہے ہیں۔یوکرائن میں روس اور امریکہ کی لڑائی جاری ہے جبکہ فلسطین ،لبنان اور شام میں اسرائیل کا مقابلہ ایران سے ہے ۔اسرائیل کے پیچھے امریکہ اور نیٹو کھڑا ہے جبکہ ایران کے پیچھے روس اور چین کھڑے نظر آتے ہیں ۔یوکرائن سے فلسطین او رلبنان تک جنگ ختم کرانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے لیکن اقوام اس دور کا ایک عظیم مذاق بن چکی ہے۔ پچھلی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل فلسطین اور کشمیر کے تنازعات پر بار بار قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن آج تک اپنی کسی ایک قرارداد پر بھی عمل نہیں کرواسکی۔
اقوام متحدہ اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام سے روکنے میں ناکام رہی جس کے بعد اسرائیل نے لبنان اور شام پر بھی حملے کر دیئے ۔جواب میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا اگر اس جنگ میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کی مدد کیلئے کود گئے تو پھر روس اور چین کو ایران کی مدد سے کون روکے گا؟اگر ایک کے بعد ایک محاذ کھلتے گئے تو پاکستان کیلئے بڑی مشکل ہو جائیگی۔ پاکستان ایک طرف ایران کا ہمسایہ ہے دوسری طرف چین کے بھی قریب ہے لیکن آئی ایم ایف سے امداد کیلئے پاکستان کو امریکہ کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت اسرائیل اور ایران کی حالیہ کشیدگی میں ایران کےساتھ کھڑی ہے۔
پاکستان توانائی کے شدید بحران سے بھی دوچار ہے اور پاکستان کی حکومت ایران سے سستے نرخوں پر گیس خریدنا چاہتی ہے لیکن امریکہ کے دبائو کی وجہ سے پاکستان یہ گیس نہیں خرید رہا ۔اگر مستقبل قریب میں پاکستان اپنی سیاسی و معاشی مجبوریوں کے باعث ایران کے قریب ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے امریکہ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ اپنی ناراضی کا براہ راست تو اظہا رنہیں کرے گا لیکن اس کام کیلئے بھارت کو استعمال کر سکتا ہے ۔ بھارت جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کا نیا محافظ ہے ۔بھارت کو استعمال کرنا امریکہ کو مہنگا بھی پڑسکتا ہے کیونکہ جنوبی ایشیاکے اکثر ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں تنائو ہے ۔تازہ مثال بنگلہ دیش کی ہے جہاں کی سیاست میں براہ راست مداخلت کے باعث بھارت کے خلاف نفرت عروج پر ہے ۔بھارت نے بنگلہ دیش میں وہی غلطی کی جو پاکستان نے افغانستان میں کی آج بھارت کو بنگلہ دیش میں انہی مشکلات کا سامنا ہے جو پاکستان کو افغانستان میں درپیش ہیں لیکن پاکستان کیلئے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ پاکستان کو ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور امریکہ کو ہزاروں میل دور بیٹھ کر مشرق وسطیٰ میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے ۔
امریکہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسرائیل کی بے جا حمایت اس کیلئے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بہت زیادہ مشکلات پیدا کریگی۔اگر امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر جوابی حملہ کیا تو اس کا فوری نتیجہ امریکہ اور مغرب کے خلاف نفرت کی نئی لہر کی صورت میں نکلے گا۔پاکستان سے لیکر بنگلہ دیش تک اور اردن سے مصر تک مسلمان ممالک کی حکومتوں کیلئے ایران کی حمایت مجبوری بن جائے گی۔ اگر امریکہ نے ایران کی حمایت کرنے والوں پر اقتصادی پابندیوں کیلئے اقوام متحدہ کو استعمال کیا تو اس جنگ میں اقوام متحدہ تباہ ہو جائے گی۔ مسلمان ممالک میں اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے اداروں کی اہمیت ختم ہو چکی ہے ۔اسرائیل نے 1980ء سے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے ۔عالمی عدالت انصاف دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مطابق یروشلم (القدس) فلسطین کا حصہ تھا لیکن اسرائیل نے اس شہر پر 1967ء میں ناجائز قبضہ کر لیا۔بعدازاں اقوام متحدہ نے یروشلم کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیکر اسے اقوام متحدہ کی ذمہ داری قرار دے دیا لیکن شہر پر اسرائیل کا قبضہ جاری رہا۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت کا ایک وزیر بین گوین مسجد اقصیٰ کو گرا کر یہاں اپنی عبادت گاہ بنانے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے ۔بہت سے یہودی اس کے بیانات کی مذمت کر چکے ہیں لیکن اقوام متحدہ اسرائیل کی موجودہ نسل پرست حکومت سے بیت المقدس کا قبضہ واپس لینے میں ناکام ہے ۔اسی اقوام متحدہ کو اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کیا گیا تو اقوام متحدہ مکمل طورپر غیر موثر ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کے غیر موثر ہونے کے بعد تیسری عالمی جنگ کا خطرہ کون روکے گا ؟ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد امریکہ اور مغرب کو سمجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔سمجھ بوجھ سے کام نہ لیا گیا تو تیسری عالمی جنگ آپ کے سر پر کھڑی ہے۔ یہ جنگ ایک دفعہ شروع ہو گئی تو اتنے ایٹم بم چلیں گے کہ انسان تو دور کی بات کوئی پرندہ بھی باقی نہ بچے گا۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ