جوانی سے ’’سرخ انقلاب‘‘ کے خواب دیکھنے والے مجھ جیسے پاکستانیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ مختلف وجوہات کی بنا پر پسند نہیں۔ اپنے دل ودماغ میں کئی دہائیوں سے برف کی مانند منجمد ہوئے تعصبات کے باوجود میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ حالیہ امریکی تاریخ میں ری پبلکن جماعت کے ٹکٹ پر ٹرمپ واحد شخص ہے جو ریکارڈ بناتی اکثریت کی حمایت سے اس ملک کا صدر منتخب ہوا ہے۔ اس کے انتخاب کے بعد میں ٹوہ لگانے کی کوشش میں مصروف ہوں کہ اپنے ووٹروں کا جی لبھانے کے لئے ٹرمپ کیا ’’جگاڑ‘‘ لگاتا ہے۔
ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ امریکی میڈیا کی اکثریت بھی یہ تاثر فروغ دیتی رہی کہ ٹرمپ بنیادی طورپر سفید فام نسل پرست سوچ کو ڈھٹائی سے اپنا کر دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس کو مگر جوووٹ ملے ہیں ان کا تجزیہ کریں تو بآسانی دریافت ہوجاتا ہے کہ محض سفید فام نسل پرست ہی نہیں بلکہ افریقی اور سپین سے امریکہ میں نسلوں سے آباد افراد نے بھی اسے حیران کن تعداد میں ووٹ دئے ہیں۔ ان کے ووٹ کم از کم مجھے یہ پیغام دیتے ہیں کہ عام سوچ کے برعکس افریقہ اور سپین سے نسلی تعلق رکھنے والے بھی فی الوقت کسی خاتون کو وائٹ ہائوس میں براجمان ہوا دیکھنے کو آمادہ نہیں۔
ہیلری کلنٹن کا تعلق سفید فام اشرافیہ سے تھا۔ اس کا شوہر بھی کسی زمانے میں امریکہ کا مقبول ترین صدر رہا تھا۔ سفید فام اشرافیہ کی ہر حوالے سے مجسم نمائندہ ہیلری کو بھی لیکن ٹرمپ کے مقابلے میں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اب کی بار ٹرمپ کا مقابلہ کملاہیرس سے تھا جو آخری دم تک طے نہیں کر پائی کہ وہ نسلی اعتبار سے خود کو افریقہ سے آئے لوگوں کی نمائندہ بناکر پیش کرے یا خود کو بھارتی نڑاد پکارے۔ ٹرمپ کا ہیلری اور کملا کے مقابلے میں جیتنا واضح طورپر یہ پیغام دیتا ہے کہ امریکی معاشرہ ابھی تک عورت کو مرد کے مقابلے میں کم تر اور کمزور صنف شمار کرتا ہے۔ اسے عنان حکومت سونپنے کو تیار نہیں اور یہ سوچ فقط سفید فام نسل پرستوں تک ہی محدود نہیں ہے۔
امریکہ کے مقابلے میں پاکستان جیسے ملک ’’قدامت پرست‘‘ تصور ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر 1964ء میں محترمہ فاطمہ جناح نے اس دور کے فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کی حکومت کو للکارا۔ ایوب خان کو اس برس صدر منتخب ہونے کے لئے ریاستی فیاضی کے علاوہ جابر ہتھکنڈے بھی استعمال کرنا پڑے۔ نیشنل عوامی پارٹی کو سپریم کورٹ کے ہاتھوں 1974ء میں ’’ملک دشمن‘‘ قرار دلوانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اس جماعت کا اپنے تئیں خاتمہ کردیاتھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہ نما خان عبدالولی خان کی اہلیہ اور باچا خان کی بہو -بیگم نسیم ولی خان مگر پردے سے نکل کر سیاسی میدان میں اتریں اور نیشنل عوامی پارٹی کو نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی کی صورت زندہ رکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ برس تک پھیلے مارشل لاء کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو مزاحمت کی علامت بنی رہیں۔ بعدازاں انہیں تقریباََجوانی میں مسلم دنیا کی پہلی منتخب وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ عورت اور مرد سیاستدانوں کے مابین تقابل تک البتہ محدود رہا تو مجھے جنوبی ایشیاء کے حوالے سے سری لنکا، بھارت اور بنگلہ دیش کا ذکر بھی کرنا ہوگا۔
آج کالم میں مگر تاریخ کو زیر بحث لانا نہیں چاہ رہا۔ ابلاغ کا عاجز اور کافی حوالوں سے نکما طالب علم ہوتے ہوئے میں درحقیقت ٹرمپ کی ’’کشش‘‘ دریافت کرنا چاہتا ہوں۔انگریزی زبان میں ان دنوں Communication Strategic کا بہت ذکر ہوتاہے۔ میرے کئی جاننے والے اس کے ماہر تسلیم ہوئے اور اس کی وجہ سے قابل رشک تنخواہ اور مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ میں جاہل اس اصطلاح کا مطلب ہی آج تک سمجھ نہیں پایا۔ بہرحال کسی رہ نمائی کے بغیر میں ان دنوں یوٹیوب کی مہربانی سے ٹرمپ کے ان انٹرویوز کو بہت غور سے سن رہا ہوں جو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے اس نے اپنے پسندیدہ صحافیوں کو دئے ہیں۔ نظر بظاہر ٹرمپ انتہائی سادہ اور بسااوقات بچگانہ گفتگو کرتا سنائی دیتا ہے۔ وہ مگر بہت کائیاں شخص ہے۔ 2024ء کا انتخاب جیتنے کے بعد مسلسل اصرار کررہا ہے کہ اس کی کامیابی کا راز ’’کامن سینس سیاست‘‘ ہے۔ مختصراََ یوں کہہ لیں کہ وہ عام فہم باتوں سے ووٹروں کے دل موہ لیتا ہے۔ میں اس کا دعویٰ سن کر اس کی گفتگو کا سنجیدگی سے مشاہدہ کرنے کو مجبور ہوا۔ برف کی مانند دل ودماغ میں منجمد ہوئے تعصبات کو بھلاکر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ ٹرمپ واقعتا من باتوں میں موہ لیتا ہے۔
اپنے ہر انٹرویو میں مثال کے طورپر ٹرمپ بائیڈن حکومت پر Incompetence” "Gross یعنی بدترین نکمے پن کا الزام لگاتا ہے۔ اپنے الزام کے ثبوت میں ہمیشہ جولائی 2021ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے ذلت آمیز انخلاء کا حوالہ دیتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کا معاہدہ ٹرمپ کے دور صدارت میں طے ہوا تھا۔ بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ بنیادی طورپر وہ خود بھی افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کا حامی نہیں تھا۔ صدر اوبامہ کو منع کرتا رہا کہ وہ جرنیلوں کے دبائو میں آکر وہاں مزید فوجیں نہ بھیجے۔ اس کے بجائے ڈرون حملوں کے پاکستان اور افغانستان پر بے دریغ استعمال سے ’’دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے‘‘۔ ٹرمپ مگر مصر ہے کہ افغانستان سے فوجیں نکالتے ہوئے بائیڈن نے صریحاََ نااہلی سے کام لیا۔ وہ اصرار کرتا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہوئے معاہدے کے باوجود وہ امریکی افواج کو کافی دنوں تک بگرام ایئربیس پر تعینات رکھنا چاہتا تھا۔ امریکی افواج اگر کابل کے نزدیک بگرام بیس پر موجود ہوتیں تو اشرف غنی کے فرار کے باوجود طالبان فاتحانہ اندازمیں کابل نہ لوٹتے۔ ’’سمجھوتوں‘‘ کو مجبور ہوجاتے۔بگرام کے حوالے سے ٹرمپ کی کہی بات مجھے معقول سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی مگر یہ خدشہ بھی لاحق ہوا کہ وہ امریکی افواج کا افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء بھولا نہیں ہے۔ اس امر پر بھی مسلسل افسوس کا اظہار کررہا ہے کہ طالبان نے فاتحانہ انداز میں کابل لوٹنے کے بعد جدید ترین امریکی اسلحہ بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ بہت حیران ہوکر وہ یہ سوال اٹھائے جارہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کابل سے نکلنے کے باوجود انسانی امداد کے نام پر طالبان کو امریکی ڈالر کیوں دیتی رہی۔ ’’فاتحین‘‘ کے خمار میں مبتلا طالبان کو ٹرمپ کے تازہ ترین انٹرویو سنجیدگی سے لینا ہوں گے۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ