واقعہ عام سا ہے۔ ہجومِ رعایا کا زرہ ہوئے میرے اور آپ جیسے لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں۔ میرے ساتھ ہوئے واقعہ نے البتہ بہت کچھ سوچنے کو مجبور کردیا۔ جمعہ کی شام سے چند لمحے قبل پیش آیا تھا اور اتوار کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے اسے دل ودماغ سے نکالنا چاہ رہا ہوں۔
لاہور میں ایک خاندانی تقریب تھی۔ اس میں شمولیت لازمی تھی۔ اپنے خاندان کا سینئر رکن ہوتے ہوئے بلکہ اس کے آغاز کے لیے میرا انتظار ہورہا تھا۔ تقریب لاہور کے عسکری 11 کے ایک گھر میں منعقد ہونا تھی۔ میں اپنی بچی اور بیوی سمیت جمعہ کی دوپہر بارہ بجے اس میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے روانہ ہوا۔ جو ڈرائیور میسر تھا وہ کبھی لاہور نہیں گیا تھا۔ اس کی آسانی کے لیے گاڑی میں نصب سکرین پر گوگل کی معاونت سے منزل تک رہنمائی ہوتی رہی۔ لاہور کے رنگ روڈ پر داخل ہونے کے بعد بھی ہر شے معمول اور آرام دہ رہی۔ منزل مقصود سے مگر نومنٹ قبل بھٹہ چوک اور بیدیاں روڈ سے ملانے والے راستے پر گاڑیوں کی لمبی قطار لگی تھی۔ میزبانوں کے دو فون دریں اثناء آچکے تھے جو معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ میں ان کے گھر سے کتنی دور ہوں۔ ان کے ہاں کب پہنچوں گا تاکہ تقریب کا آغاز ہو۔
گاڑی رکی تو ڈرائیور نے اس سے اتر کر پوچھ تاچھ کی۔ اس کی زبانی علم ہوا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا قافلہ غالباً کسی مقام سے رنگ روڈ پر داخل ہوکر ایئرپورٹ جانے والی سڑک کی جانب گامزن ہوگا۔ ہمیں تقریباً دس منٹ تک انتظار کرنا ہوگا۔ یہ اطلاع ملتے ہی میں نے فون اٹھاکر تقریب کے میزبانوں سے درخواست کی کہ وہ تکلفاً میری آمد کا انتظار نہ کریں۔ تقریب کا آغاز کردیں۔ وزیر اعلیٰ کا قافلہ گزرنے کی وجہ سے جام ہوئی گاڑیوں کی لمبی قطار کو میں نے بے اعتنائی سے لیا۔ اس کی بابت ایک لمحہ کو بھی دل برہم نہ ہوا۔ حکمرانوں کی ’سکیورٹی‘ کے لوازمات کا جی عادی ہوچکا ہے۔
دل جلانے کے بجائے فقط یہ سوچ کر گاڑی سے باہر نکل آیا کہ پیدل چلنے سے ٹانگیں سیدھی ہوجائیں گی۔ باہر نکل کر اس سمت چلنا شروع ہوگیا جہاں ٹریفک کو روک لیا گیا تھا۔ اس جانب بڑھتے ہوئے ذہن میں کوئی صحافیانہ سوال نہیں تھا۔ٹی وی کی وجہ سے پہچان کر لیکن 40سے 45برس کی درمیانی عمر کے ایک صاحب میری جانب بڑھے۔ اپنی جیب سے جہاز کی ٹکٹ نکالی۔ انھیں یقینا اس وقت ایئرپورٹ موجود ہونا چاہیے تھا وگرنہ فلائٹ مس ہوجانے کے قوی امکان تھے۔ اپنا تعارف اور میرا نام لیے بغیر انھوںنے دھیمی اور مہذب آواز یں اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنے کالم اور ٹی وی پر یہ سوال اٹھائوں کہ حکمرانوں کی سہولت کے لیے ٹریفک جام کیوں کردی جاتی ہے؟ اس کا دعویٰ تھا کہ ٹریفک روکے ہوئے 20سے زیادہ منٹ گزرچکے ہیں۔ ٹریفک روکنے والا سارجنٹ کہے چلا جارہا ہے کہ ’تین سے چار منٹ‘ میں کھل جائے گی۔ یہ مگر ممکن نظر نہیں آرہا۔
وہ نوجوان مجھ سے مخاطب تھا تو اس کی عمر ہی کے تین سے چار نوجوان چہروں پر طنز کی مسکراہٹ سجائے ہماری گفتگو سننا شروع ہوگئے۔ میں نے ایماندارانہ عاجزی سے اعتراف کیا کہ سرکاری قافلوں کی سہولت کے لیے لگائے ناکوں کی وجہ سے عوام کی مشکلات کا تذکرہ کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں کرتا رہا ہوں۔ عرصہ ہوا مگر دریافت کرلیا کہ دہائی مچانے کا فائدہ نہیں۔ حکمراں بدلتے رہیں گے لیکن ان کے انداز نہیں بدلیں گے۔ اپنی اوقات جان کر ایسے مسائل کاذکر چھوڑ دیا ہے جیسے ایئرپورٹ پہنچنے کو بے چین نوجوان کو درپیش آتے ہیں۔
کامل اجنبیوں کے ایک چھوٹے گروہ کے روبرو اپنی اوقات کا اعتراف مگر اس بڈھے صحافی کے کام نہ آیا۔ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے ہماری گفتگو سننے والوں میں سے ایک صاحب نے نیم حقارت سے مجھے نظرنداز کرتے ہوئے ایئرپورٹ پہنچنے کے لیے فکر مند نوجوان کو سادہ مگر درشت انداز میں یہ بتایا کہ صحافی اب ’ڈر‘ چکے ہیں۔ سچ بیان کرنے کی جرأت سے محروم۔ ان سے عوامی مسائل کے ذکر کی توقع نہ رکھی جائے۔ عوام کی مدد کے بجائے صحافیوں کو اب نوکری اور جان بچانے کی فکر لاحق ہوچکی ہے۔
آج سے چند برس قبل ایسا فقرہ سنا ہوتا تو میرا خون کھول جاتا۔ 5جولائی 2024ء بروز جمعہ لاہورکے رنگ روڈ پر راستہ کھلنے کا انتظار کرتے ہوئے ایک اجنبی کی جانب سے درشت انداز میں کہے اس فقرے نے مگر مجرمانہ انداز میں خاموش رہنے کو مجبور کردیا۔ میں سرجھکائے گاڑی میں بیٹھنے کو مڑگیا۔ اپنی ذات اور پیشے پر لاہور کے رنگ روڈ پر سکیورٹی کے نام پر لگائے ناکے کے دوران کسے اس فقرے نے حیران سے زیادہ پریشان کردیا۔
صحافت میرے بچپن میں قابل ستائش پیشہ شمار ہوتی تھی۔ اسی باعث میں نے ’اچھی زندگی‘ گزارنے کے بے تحاشا امکانات ٹھکراتے ہوئے نہایت دیوانگی سے فقط صحافت ہی کو اپنا رزق کمانے کا واحد ذریعہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ پیشہ اختیار کرنے کے چند برس بعد رزق کمانے کے اعتبار سے بس ’گزارہ‘ ہی ہوتا رہا۔ تھوڑی شہرت اور اس سے کہیں زیادہ عزت وتکریم البتہ میسر رہی۔ اس کے بعد ٹی وی جرنلزم آگیا تو پرنٹ صحافت کی گمنامی سے آزاد ہوکر مجھ ایسے صحافی ’سلیبرٹی‘ ہوگئے۔ہماری تنخواہیں اور مراعات راحت فراہم کرنا شروع ہوگئیں ۔ عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تو عوام کی کثیر تعداد اس گماں میں بھی مبتلا ہوگئی کہ شام سات بجے سے رات12بجے تک سکرینوںپر نمودار ہوئے والے اینکر خواتین وحضرات ہی طاقت ور حکومتوں کو دیوار سے لگاکر پچھاڑسکتے ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے کرکٹ کے کھیل سے کرشمہ ساز ہوئے عمران خان ہمارے ’دیدہ ور‘ کی صورت ابھرنا شروع ہوئے۔ وہ بالآخر اقتدار میں آئے تو ٹی وی سکرینوں کو ’لفافہ صحافیوں‘ سے پاک کردیا۔ ’لفافہ صحافیوں‘ کا خاتمہ مگر ان کی حکومت بچا نہیں پایا۔ خاموشی سے ایک محلاتی سازش ہوئی اور وہ اپریل 2022ء میں اقتدار سے فارغ ہوگئے۔ اب کئی مہینوں سے وہ جیل میں ہیں۔ ان کی شفقت سے حق وصداقت کی علامت ہوئے صحافی مگر ان کی مشکلات کا مداوا نہیں کرپارہے اور عوام کے وسیع تر حلقوں کے دلوں میں بات یہ بیٹھ گئی ہے کہ دورِ حاضر کے صحافی کو حقائق بیان کرنے کی بجائے اپنی نوکری اور جان بچانے کی فکرلاحق ہوچکی ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ اگر عوام کی وسیع تر تعداد نے ہم صحافیوں کے بارے میں مذکورہ بالا فیصلہ کرلیا ہے تو میں ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی قلم اٹھاکر کم از کم دو صفحے سیاہ کیوں کرتا ہوں؟ کیا میرا تعلق قوم یا جوج ماجوج سے ہے جسے وہ دیوار چاٹنے کی عادت ہوچکی ہے جسے مسمار کرنا ناممکن ہے؟
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ