عدلیہ اور پارلیمان کے اختیارات کی بحث تین مفروضوں کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا، آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا اختیار پارلیمان سمیت کسی ادارے کو نہیں، دوسرا، قطع نظر اِس بات سے کہ آئین اور قانون میں اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ کار پر کیا پابندیاں عائد کی گئی ہیں، عدلیہ کے پاس کسی بھی قانون اور آئینی ترمیم کا جائزہ لینے کا اختیار ہے جسے ’کامن لا‘ میں Inherent Power کہتے ہیں لہٰذا اگر کوئی قانون یا ترمیم بنیادی انسانی حقوق یا آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو تو اسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے، اور تیسرا، آئین ساز اسمبلی اور قانون ساز اسمبلی میں فرق ہوتا ہے، قانون ساز اسمبلی آئین میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کرسکتی اِلاّ یہ کہ کوئی سیاسی جماعت عوام سے انتخابی مہم میں انقلابی اقدامات کا وعدہ کرکے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ پہنچ جائے، ایسی صورت میں اُس سیاسی جماعت کے پاس مینڈیٹ ہوگا کہ وہ آئین ساز اسمبلی کے طور پر کام کرے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ تینوں مفروضے درست ہیں!
ایک لمحےکیلئے فرض کر لیں کہ ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ پارلیمانی جمہوریت ہے، اِس کی روح اسلامی ہے، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی تقسیم ہے، بنیادی انسانی حقوق کو کسی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا اور عدلیہ کی آزادی پر قدغن عائد نہیں کی جا سکتی اور یہ بھی فرض کر لیں کہ اعلیٰ عدالتیں، اِس بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہر آئینی ترمیم اور قانون کو کالعدم قرار دینے کا اختیار رکھتی ہیں۔ اِس مفروضے کو پرکھنے کا لِٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ آپ آئین کی کتاب اٹھائیں اور دیکھیں کہ کیا موجودہ آئین اِس بنیادی آئینی ڈھانچے کے مطابق ہے، جواب ملے گا ’نہیں‘ اور اِس کی وجہ مرحومین جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف ہیں۔ جنرل ضیا نے بطور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر آئین میں 97ترامیم کیں، بعد ازاں اِن ترامیم کو Revival of Constitutionl Order (PO 14 of 1985) کی خلعت فاخرہ پہنائی اور غیر جماعتی پارلیمنٹ سے آٹھویں ترمیم منظور کرواکے تاریخ میں امر ہوگئے۔ یہ تمام ترامیم، ماسوائے شق 58(2)(b) کے آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ آئین کا حصہ ہیں، انہی ترامیم کے تحت جا بجا پارلیمان کے ساتھ مجلس شوریٰ لکھا جاتا ہے اور انہی ترامیم کے تحت جنرل ضیا وردی میں صدر کے منصب پر براجمان رہے اور اسمبلی پر تلوار چلا کر اسے گھر بھی بھیجا۔ یاد رہے کہ اِس دوران آئین کا بنیادی ڈھانچہ گھاس چر رہا تھا اور اُس کے رکھوالے گورنر بن کر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے حلف لینے میں مصروف تھے۔ آئین کے دیباچے میں لکھا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ فقط اللہ کے پاس اور پاکستان میں عوام کے منتخب نمائندے اسے مقدس امانت سمجھ کر استعمال کریں گے، اگر ہم اسے آئین کا بنیادی ڈھانچہ مان لیں تو یہ ڈھانچہ بھی آمروں نے تباہ کردیا مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ جنرل مشرف نے 37 آئینی ترامیم کیں، وردی میں صدر منتخب ہوئے اور پارلیمانی جمہوریت کو عملاً صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا۔ مزید یاد رہے کہ اُس وقت بنیادی ڈھانچے کے محافظ چیف الیکشن کمشنر کا حلف لینے میں مصروف تھے۔
مختصراً یہ کہ آج کی تاریخ میں 73ء کے آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ یا اُس کی ہڈیاں بھی دستیاب نہیں، لہٰذا اُس نام نہاد ڈھانچے کو تحفظ دینے کی بحث ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم فرض کر لیتے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق اور عدلیہ کی آزادی اور پارلیمانی نظام میں اختیارات کی تقسیم جیسے تصورات مل کر ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں، لہٰذا کوئی بھی آئینی ترمیم یا قانون اِن سے متصادم نہیں ہو سکتا اور اگر ہو گا تو عدالتیں اسے کالعدم قرار دینے میں حق بجانب ہوں گی۔ یہاں ایک مرتبہ پھر آئین کی اسی شق 239کو پڑھ لینا چاہیے جو پارلیمان کو لا محدود اختیار دیتی ہے اور پارلیمان کو یہ لا محدود اختیار عوام نے تفویض کیا ہے۔ شق 239میں نہ کوئی ابہام ہے اور نہ ہی اِس کا کوئی اور مطلب تراشا جا سکتا ہے۔ اگر ہم بنیادی آئینی ڈھانچے کی دلیل کو درست مان لیں تو شق 239غیر موثر ہوجاتی ہے جبکہ قوانین کی تشریح کا اصول یہ ہے کہ قانون کی ایسی کوئی بھی تشریح درست نہیں ہو سکتی جو قانون کو ہی غیر موثر کر دے۔ لاطینی کا قانونی اصول ہے: Neminem Oportet Esse Sapientiorem Legibusیعنی کوئی بھی شخص قانون سے زیادہ دانشمند نہیں ہو سکتا۔ مدعا یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کے حوالے سے شق 239بالکل واضح، دو ٹوک اور غیر مبہم ہے، اِس شق کا کوئی دوسرا مطلب نکالنا ممکن ہی نہیں، اِس شق کی موجودگی میں پارلیمان سے منظور شدہ آئینی ترامیم کو، چاہے وہ بے سروپا ہی کیوں نہ ہوں، کسی بھی بنیاد پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ رہی بات آئین ساز اسمبلی کی، تو جب قانون ساز اسمبلی دو تہائی اکثریت سے شق 239 کے تحت ترمیم منظور کرتی ہے تو اُس وقت وہ آئین ساز اسمبلی بن جاتی ہے، کوئی آئین ساز اسمبلی آسمان سے زمین پر نہیں اترتی۔
یہ تو ہوا پارلیمان کا قانونی اختیار، اب کچھ بات اُس کے اخلاقی اختیار پر بھی ہو جائے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمان اگر چاہے تو دو تہائی اکثریت سے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کردے لیکن اِس نوعیت کے انقلابی اقدامات کیلئے عوامی تائید ضروری ہے جس کو پرکھنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی جماعت انتخابات سے پہلے عوام کو بتائے کہ وہ اقتدار میں آکر صدارتی نظام نافذ کردے گی اور عوام اسے دو تہائی اکثریت سے ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیج دیں۔ دوسرے یہ کہ عوام اِس قسم کی انقلابی تبدیلی کو زبردست تحریک چلا کر مسترد کردیں، اِس کی چھوٹی سی مثال اسرائیلی حکومت کا مجوزہ عدالتی قانون تھا جس کا مقصد سپریم کورٹ کو نکیل ڈالنا تھا، اِس قانون کے خلاف اسرائیلی عوام نے بھرپور تحریک چلائی اور قریب تھا کہ حکومت گھٹنے ٹیک دیتی کہ اکتوبر 2023ء میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا جس کے بعد جنگی کابینہ بن گئی اور یہ معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ ایک اور مثال سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کا بیان ہے جو انہوں نے کشمیر تنازع کے حوالے سے دیا تھا اور کہا تھا کہ کانگریس کے پاس ہندوستان کی سرحدیں تبدیل کرنے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ اِس سے مراد یہ تھی کہ کانگریس نے انتخابی مہم میں عوام سے یہ مینڈیٹ نہیں لیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہندوستان کی سرحدیں تبدیل کر سکے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ آج بحث کچھ زیادہ ہی ثقیل ہو گئی، لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ’اس کی تقدیر میں محرومی و مظلومی ہے، قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف۔‘ یہ شعر صرف اتنا ہی حسبِ حال ہے کہ اِس میں لفظ ’انصاف‘ آیا ہے، چونکہ شعر پر بات ختم کرنے کی روایت ہے اِس لیے میں نے بھی محض روایت ہی نبھائی ہے وگرنہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ’قانون‘ کے سوا۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ