میں ایک الجھن کا شکار ہوں اور الجھن ایسی ہے کہ جس کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے سخت مشکل کا سامنا ہے، اِس مسئلے پر میرے دل اور دماغ میں ایک جنگ جاری ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اِس جنگ میں کس کا ساتھ دوں اور کسے تنہا چھوڑ دوں۔ مسئلہ ہے بلوچستان کے لا پتا افراد کا۔ میری الجھن یہ ہے کہ کسی لکھاری کو اِس مسئلے پر کیا موقف اپنانا چاہیے؟ دیکھا جائے تو آئین، قانون اور اخلاقیات کا ہر اصول لا پتا افراد کے حق میں ہے سو لکھاریوں کو لا پتا افراد کے لواحقین سے ہمدردی کرنی چاہیے، اِن کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے، حتّی المقدور اِن کی مدد کرنی چاہیے، اِن کے موقف کی حمایت میں لکھنا چاہیے اور ہو سکے تو اِن کے ساتھ احتجاجی کیمپ میں بیٹھ کر اظہار یک جہتی بھی کرنا چاہیے۔
جب بھی کوئی شخص لا پتا ہوتا ہے تو اُس کے گھر والے جیتے جی مر جاتے ہیں، اگر انہیں علم ہو جائے کہ اُن کا پیارا اب اِس دنیا میں نہیں رہا تو شاید انہیں قرار آ جائے مگر لا پتا شخص کے بارے میں تو ہر دم یہی آس لگی رہتی ہے کہ شاید آج وہ دن ہو گا جب وہ واپس آئے گا۔ ہر آہٹ پر گمان ہوتا ہے کہ کہیں اُن کے لاڈلے نے دستک تو نہیں دی، آنکھیں اُس کی راہ تکتے تکتے پتھرا جاتی ہیں، کان اُس کی آواز سننے کو ترس جاتے ہیں، جو خوش قسمت ہوتے ہیں انہیں اپنے پیاروں سے ملنا نصیب بھی ہوجاتا ہے مگر یہ انتظار بے حد اذیت ناک ہوتا ہے۔
میڈیا میں اکثر لا پتا افراد کے بیوی اور معصوم بچوں کی تصاویر شائع ہوتی ہیں جن میں وہ اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے ہوئے اسلام آباد کی کسی شاہراہ پر بے یار و مدد گار بیٹھے نظر آتے ہیں کہ شاید کوئی اُن کی آواز سُن لے، کسی کو رحم آ جائے اور اُن کا پیارا اُس شام گھر واپس آ جائے مگر ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ لا پتا افراد کا جُرم چاہے جتنا بھی سنگین کیوں نہ ہو انہیں لا پتا کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، اگر ہم خود کو اُن کی جگہ رکھ کر سوچیں تو شاید کبھی اِس عمل کی حمایت نہ کر سکیں۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کیونکہ اگر یہ اتنا ہی سادہ ہوتا تو پھر کوئی الجھن بھی نہ ہوتی۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران بلوچستان کی کالعدم تنظیم نے مختلف کارروائیوں میں کم ازکم 18 پنجابیوں کو قتل کیا۔ پہلا واقعہ 13 اپریل کو نوشکی میں پیش آیا جہاں کوئٹہ سے تافتان جانے والی شاہراہ پر دس سے بارہ مسلح افراد نے ایک بس کو روکا، اندر گھس کر لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھے، نو افراد کا تعلق پنجاب سے ثابت ہوا، سو اُنہیں بس سے اتار کر گولیوں سے بھُون دیا گیا۔ 28 اپریل کو تربت میں دو افراد کو گولیاں مار کر جان بحق کر دیا گیا، دونوں پنجابی تھے۔ 9 مئی کو چند مسلح افراد نے گوادر کے رہائشی کوارٹرز میں گھس کر سات پنجابیوں کو قتل کر دیا، یہ غریب لوگ گوادر سے پچیس کلومیٹر دور کسی جگہ حجام کا کام کرتے تھے، اِن کا تعلق خانیوال اور لودھراں سے تھا۔
بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کے یہ واقعات نئے نہیں ہیں، اِس سے پہلے بھی بلوچستان میں پنجابیوں کو اُن کے شناختی کارڈ کی بنیاد پر قتل کیا جا چکا ہے، بظاہر اِن واقعات کی ذمہ داری کوئی تنظیم قبول نہیں کرتی مگر سوائے بلوچستان کی کالعدم تنظیم کے، یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا اور اُس تنظیم نے اِس کی تردید بھی نہیں کی۔ الجھن یہ ہے کہ میں بلوچ عوام سے اظہار یک جہتی کروں یا اِن بے گناہ غریب پنجابیوں کا نوحہ پڑھوں، یا پھر دونوں کام ایک ساتھ کروں؟
میں نے اپنی اِس الجھن کا ذکر تین لوگوں سے کیا، یہ تینوں نوجوان دانشور ہیں اور اپنے نظریات کے حوالے سے ٹھوس دلائل رکھتے ہیں۔ ایک کی مکمل ہمدردی بلوچستان کاز کے ساتھ ہے، دوسرا بلوچ مزاحمت کا شدید مخالف ہے اور تیسرا کسی حد تک غیر جانبدار ہے۔ بلوچ مزاحمت کاروں کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے نے میرے خیالات پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اگر آپ ماضی میں لاپتا افراد کے حق میں تسلسل کے ساتھ آواز نہیں اٹھاتے رہے تو اب آپ کو پنجابیوں کے قتل کی آڑ میں اُن کے خلاف نہیں لکھنا چاہیے، اُس کا استدلال یہ تھا کہ بے شک اِن پنجابیوں کا قتل قابل مذمت ہے مگر بلوچستان میں جو لوگ اپنے تئیں ”مزاحمت“ کر رہے ہیں اُن سے یہ امید رکھنا کہ اُن کی تحریک ہر طرح سے خالص اور آلائشوں سے پاک ہوگی، منصفانہ بات نہیں۔
مزید دلیل اُس نوجوان نے یہ دی کہ دوسری طرف سے بھی اسی نوعیت کی زیادتیاں ہوتی ہیں سو یک طرفہ مذمت درست نہیں اور اِس سے بہرحال لا پتا افراد کا مقدمہ غلط ثابت نہیں ہوتا۔ یہ باتیں سننے کے بعد میں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کے مخالف کو فون ملایا جو اکثر مجھے ”لا پتا“ افراد کی وہ تصاویر بھیجا کرتا تھا جن میں وہ ہتھیار اٹھائے نظر آتے تھے۔ میری باتیں سننے کے بعد اُس نے پنجابی میں کہا ”ہُن آرام اے!“ اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں تو پہلے ہی تمہیں کہتا تھا کہ یہ لوگ ہمدردی کے قابل نہیں مگر تمہیں انسانی حقوق اور آئین اور قانون کا بخار چڑھا رہتا تھا، امید ہے غریب اور بے گناہ پنجابیوں کے قتل کے بعد تمہاری تسلی ہو گئی ہوگی۔
تیسری ملاقات اُس دانشور سے ہوئی جو بلوچستان کے حوالے سے بے لاگ تجزیہ کرتا ہے، اُس نے مجھے بتایا کہ پنجابیوں کے قتل کے بعد اُس نے مختلف فیس بک گروپس دیکھے ہیں جن کا تعلق بلوچستان سے ہے، اُس سب میں پنجابیوں کے قتل کی مذمت تو دور کی بات، اُلٹا اِس پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔
اِن تینوں دانشوروں سے بات کرنے کے بعد میری الجھن رفع ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں خود پنجابی ہوں اور اپنے ’کمفرٹ زون‘ میں بیٹھا یہ کالم لکھ رہا ہوں، بلوچستان کے احساس محرومی سے مجھے پوری ہمدردی ہے، میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ لا پتا افراد کے معاملے پر کسی قسم کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا اور بالکل اسی طرح پنجابیوں کے قتل کا دفاع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جو لکھاری تسلسل کے ساتھ بلوچستان کاز کی حمایت میں لکھتے تھے، اب اگر وہ خاموش ہیں تو یہ بات درست نہیں، چاہے کوئی بلوچ بے گناہ اٹھایا جائے یا کوئی غریب لاچار پنجابی قتل کیا جائے، کسی بھی بنیاد پر اِن دونوں باتوں کی توجیہہ نہیں دی جا سکتی۔
یہ ملک بے حد خوبصورت اور یہاں کے لوگ بھی اتنے ہی اچھے یا برے ہیں جتنے باقی دنیا کے۔ میں زندگی میں ایک مرتبہ ہی بلوچستان گیا ہوں اور میری شدید خواہش ہے کہ دوبارہ وہاں جاؤں اور اُن تمام دور دراز اور سنسان شاہراہوں کا سفر کروں جو صرف فلموں میں ہی نظر آتی ہیں۔ تا حد نگاہ کوئی آبادی نہ ہو، آس پاس کوئی مکان نہ ہو، کہیں کوئی ذی روح دکھائی نہ دے اور پھر یکایک چند کلومیٹر بعد ایک سروس ایریا آ جائے جہاں دنیا کی ہر شے دستیاب ہو اور جنگل میں منگل ہو جائے۔ مگر شاید میری یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکے، اِس لیے نہیں کہ میں بلوچستان نہیں جا سکتا، بلکہ اِس لیے کہ بلوچستان کی غربت اور دیگر مسائل کی وجہ سے مصروف شاہراہوں پر بھی سروس ایریا اور پٹرول پمپ بنانا کمپنیوں کے لیے قابل عمل اور سود مند نہیں ہے۔
معافی چاہتا ہوں، بات کہیں اور نکل گئی، ہم پنجابیوں کا یہی مسئلہ ہے، اپنی نظر سے ہی ہر مسئلے کو دیکھتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ بلوچستان کے عوام کیا چاہتے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں اپنی نظر سے تعصب کی عینک ہٹا کر کوئی ایسی چشمہ لگانا پڑے گا جو تصویر کا دوسرا رُخ بھی دکھا سکے۔ یہ دوسرا رُخ دیکھنا بہت ضروری ہے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ