کئی ماہ کی تیاریوں اور گزشتہ تین روز کی سرتوڑ کوششوں، ملاقاتوں اور جوڑ توڑ کے باوجود حکومتی اتحاد عدالتی اصلاحات کے لیے مجوزہ آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرسکی۔ حتی کہ ان ترامیم کی منظوری کے لیے کابینہ کا اعلان شدہ اجلاس بھی ملتوی کیا گیا ۔ اب ترامیم کا معاملہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے۔ اسے حکومت کی ہزیمت یا ناکامی تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اس معاملے میں حکومتی پارٹیوں کے علاوہ اپوزیشن کے کردار کو شفاف بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
عام طور سے کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ میں کسی ایک پارٹی یا اتحادی پارٹیوں کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوتی۔ آئین سازوں نے شاید اسی لیے آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی کی اکثریت حاصل کرنے کا اصول وضع کیا تھا تاکہ آئین جیسی اہم دستاویز میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں نمائیندگی رکھنے والے بیشتر ارکان یا پارٹیاں اس پر متفق ہوں۔ البتہ یہ اصول حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں پر یکساں طور سے یہ ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کے لئے سامنے آنے والی تجاویز پر فراخ دلی سے غور کریں ۔ بحث و تمحیص کے بعد ایسی دستاویز پر اتفاق کیا جائے جو وسیع تر قومی مفاد میں ضروری ہو۔ تاہم اس کے لیے حکمران اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے درمیان احترام کا رشتہ استوار ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کے سیاسی ماحول میں یہ اعتماد و احترام دن بہ دن کم ہورہا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد میں تحریک انصاف کے ایک جلسہ کے بعد پارلیمنٹ سے تحریک انصاف کے ارکان کی گرفتاریوں نے اس ماحول کو مزید کشیدہ کیاہے۔ پی ٹی آئی اس سے پہلے ہی اپنے لیڈر عمران خان کی مسلسل حراست سے سخت مشتعل ہے اور یہ مقصد حاصل کیے بغیر کوئی سیاسی معاملہ طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ 8 ستمبر کو سنگجانی میں جلسہ عام کا بھی یہی ایک نعرہ تھا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تحریک انصاف کے بعض لیڈروں نے اشتعال انگیز تقریریں بھی کیں جس کے بعد ملک کا سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوگیا۔ البتہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنے طور پر پارلیمنٹ سے ارکان اسمبلی کی گرفتاری کا سخت نوٹس لیا اور نہ صرف تمام گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تاکہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوسکیں بلکہ پارلیمنٹ لاجز کو سب جیل قرار دے کر ان ارکان کو اپنی رہائشوں میں مقیم رہنے کی سہولت بھی فراہم کی۔ مستقبل میں پارلیمانی امور خوشگوار ماحول میں طے کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی بنا دی گئی۔ البتہ آئینی ترامیم کے شور و غوغا میں کسی کو کسی پارلیمانی کمیٹی، باہمی احترام یا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا کوئی اصول یاد نہیں رہا۔
تحریک انصاف ایسی آئینی ترامیم کی کھل کر مخالفت کررہی ہے جن کے بارے میں غیر مصدقہ معلومات اور وزیروں کے اشاروں کنایوں سے زیادہ کسی کو کوئی خاص علم نہیں ہے کہ حکومت درحقیقت آئین میں کیسی ترامیم کرنا چاہتی ہے۔ اور ان کے منظور کرنے سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی اور خود مختاری پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے اس طریقہ کار کی مخالفت تو قابل فہم ہے لیکن ایسی ترامیم کے بارے میں جو شاید ملکی عدلیہ کو بہترو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہوں، غیر ضروری طور سے ہیجان پیدا کرنا اور کسی بنیاد کے بغیر ا س کی مخالفت کرنا درحقیقت ملکی سیاست میں تقسیم اور گروہ بندی کی افسوسناک تصویر پیش کرتا ہے۔ تحریک انصاف کے بانی چئیرمین عمران خان کہتے ہیں کہ ان ترامیم کا مقصد انہیں مستقل جیل میں بند رکھنا ہے حالانکہ ان سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ حکومت تو کسی آئینی ترمیم کے بغیر بھی یہ مقصد بخوبی حاصل کررہی ہے۔
یہ کہنا مطلوب نہیں ہے کہ عمران خان کی حراست جائز یا خوشگوار ہے لیکن یہ بتانا اہم ہے کہ عمران خان ہر قومی معاملہ کو ذاتی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ رویہ کسی قومی لیڈر کے شایان شان نہیں ہے۔ یہ تو درست ہے کہ اس وقت ان کے فدائین کو عمران خان کی ہر بات سو فیصد درست دکھائی دیتی ہے لیکن انہیں یہ بھی جاننا چاہئے کہ سیاست میں ہمیشہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد سے پہلے کون سوچ سکتا تھا کہ مسلم لیگ (ن) انتخابی سیاست کی ناکام ترین پارٹی ثابت ہوگی اور تحریک انصاف کو اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود شدید مقبولیت حاصل ہوجائےگی۔ عمران خان چاہیں تو اس مقبولیت کو کسی تعمیری مقصد کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
دریں حالات ملاحظہ کیاجاسکتا ہے کہ اگر یہ آئینی ترامیم عدلیہ کے بارے میں نہ بھی ہوتیں۔ یا ان کی سامنے آنے والی شکل و صورت سے متضاد تجاویز بھی پیش کی جاتیں تو سیاسی نقطہ نظر سے تحریک انصاف نے ان کی مخالفت ہی کرنی تھی۔ اسے اس بات سے غرض نہیں ہے کہ کسی تجویز یا اقدام کا مقصدکیا ہے اور اس کے کیا نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں اسے ہر صورت میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو چیلنج کرنا ہے ۔ وہ کوئی بھی تجویز لائیں، اس کی مخالفت تحریک انصاف اور اس کے لیڈروں پر فرض عین ہے۔ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف نے مجوزہ ترامیم کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ ہر صورت میں ان کا راستہ روکنے کے لیے سیاسی کوششیں کی گئی ہیں۔ یہ مانا جارہا ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے حصول کے لیے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ووٹ فیصلہ کن ہیں۔ لہذا کسی صورت مولانا فضل الرحمان کو تحریک انصاف کا ہمنوا بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو دو سال پہلے تک عمران خان مولانا کے لیے جو القاب استعمال کرتے تھے، وہ کوئی مہذب انسان کسی دشمن کے لیے استعمال نہیں کرتا۔
تاہم اس میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ شہباز حکومت کی طرف سے عدلیہ کی اصلاح کے لیے آئینی تجاویز کا پیکیج فئیر پلے کے زمرے میں نہیں آتا۔ عدلیہ کی اصلاح ایک طویل المدت منصوبہ ہے۔ اس لیے آئینی ترامیم کو یوں مرتب نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے یہ تاثر قوی ہو کہ حکومت وقت کو اس سے فائدہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بخوبی علم ہے کہ ایسی ترامیم کے ذریعے وہ جو ہتھیار حکومت کو تھمانا چاہتے ہیں، سیاسی تبدیلی کی صورت میں وہی ہتھیار ان کے سیاسی مخالفین ان ہی پارٹیوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ عدلیہ کی اصلاح کے نام پر تیارکی گئی آئینی ترامیم کے حوالے سے گزشتہ کئی ہفتوں سے سرگوشیوں اور ’ذرائع‘ سے حاصل ہونے والی معلومات کے سہارے تجسس کا ماحول پیدا کیا گیا۔ البتہ اس سے عمران خان کو یہ الزام عائد کرنے کا حوصلہ ہؤا کہ ان ترامیم کا مقصد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کی مدت میں توسیع کرناہے کیوں کہ تحریک انصاف کے خیال میں وہ اس وقت پارٹی کے خلاف اسٹبلشمنٹ کا ایجنڈا مکمل کرنے میں ’آلہ کار‘ بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ عمران خان اور تحریک انصاف کی یہ پروگنڈا مہم عدلیہ کے وقار کو کم کرتی ہے لیکن اس کا موقع بلاشبہ حکومت کی غلط منصوبہ بندی اور اشارے بازیوں نے فراہم کیا ہے۔
ملک میں عدلیہ کی اصلاح کے لیے اگر آئین میں ترمیم کرنا ضروری تھا تو ان کا واضح اعلان ہونا چاہئے تھا۔ یہ تجاویز کسی سرکاری نوٹ یا مسودہ کی صورت میں عمومی بحث کے لیے پیش کی جاتیں اور اس کے بعد اس پر سامنے آنے والی آرا کی روشنی میں مناسب رد و بدل کے ساتھ انہیں کابینہ ا ور پھر پارلیمنٹ سے منظو ر کروانے کی کوشش کی جاتی۔ آئینی ترامیم کے لیے چونکہ وسیع تر اتفاق رائے آئین بنانے والوں کو منشا و مقصود تھا ، اس لیے سب سے مناسب یہ تھا کہ حکومت ان تجاویز پر سب سے پہلے تحریک انصاف کے ساتھ تبادلہ خیال کرتی اور مل جل کر انہیں وسیع تر قومی مفاد کے مطابق شکل دی جاتی اور کسی تنازعہ کے بغیر ان ترامیم کو منظور کروالیا جاتا۔ یا اگر تحریک انصاف کسی بھی طرح تعاون پر آمادہ نہ ہوتی تو حکومت ترامیم کسی سیاسی گٹھ جوڑ کے بغیر پارلیمنٹ کے سامنے پیش کردیتی ۔ دوتہائی ووٹ ملنے پر وہ آئین کا حصہ بن جاتیں لیکن حکمران جماعتوں کے چہرے پر کالک نہ پوتی جاتی۔ البتہ اس کے برعکس اب جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس سے سوائے اس کے کوئی تاثر قائم نہیں ہوتا کہ یہ ترامیم ایک خاص سیاسی گروہ کی حمایت یا مخالفت میں مرتب کی گئی ہیں۔ چھوٹی پارٹیوں، مولانا فضل الرحمان کی حمایت اور تحریک انصاف کے بعض مفاد پرست ارکان کو پارٹی کی مخالفت میں ووٹ دینے پر آمادہ کرکے کسی بھی طرح ترمیمی پیکیج منظور کرانے کی خواہش پالنے کی بجائے مناسب اور متوازن پارلیمانی طریقہ اختیار کیا جاتا تاکہ ملکی سیاسی ماحول میں بداعتمادی اور الزام تراشی میں اضافہ نہ ہوتا۔
موجودہ سیاسی صورت حال میں مولانا فضل الرحمان کو معمولی پارلیمانی نمائیندگی کے باوصف غیرمعمولی سیاسی طاقت حاصل ہوئی ہے۔ اور وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ ملکی آئین میں ترامیم محض ایک چھوٹی سی سیاسی پارٹی کے رحم و کرم پر نہیں ہونی چاہئیں۔ اب بھی ترامیم کا پیش کرنے میں التوا کا ایک ہی مقصد دکھائی دیتا ہے کہ کسی طرح مولانا فضل الرحمان کو راضی کرکے یہ مقصد حاصل کیا جائے۔ اس دھن میں حکومت نہ صرف معمولی نمائیندگی والی ایک پارٹی کو اس کے سیاسی جثے سے بہت زیادہ قیمت دینے پر آمادہ ہے بلکہ آئینی ترمیم کے حوالے سے متعدد دیگر اہم پہلوؤں کو نظر انداز بھی کیا جارہا ہے۔ ان میں سب سے اہم دو روز پہلے سپریم کورٹ کے 8 ججوں کا یہ حکم ہے کہ الیکشن کمیشن فوری طور سے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو تفویض کرے۔ اس حکم کی روشنی میں تحریک انصاف کو اضافی سیٹیں ملنے سے پارلیمنٹ میں نمائیندگی کا توازن تبدیل ہوگا۔ خاص طور سے خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کو اضافی نشستیں ملنے کے بعد سینیٹ میں پارٹی پوزیشن بہتر ہوسکتی ہے۔
اس حققیت کو نظر انداز کرکے منظور کرائی گئی ترامیم کو بعد میں سپریم کورٹ کی مخالفت کا سامنا بھی ہوسکتا ہے اور یہ مکمل پارلیمنٹ کے آئینی تقاضے کے اصول سے متصادم بھی تصور کی جاسکتی ہیں۔ شہباز شریف جیسی کمزور حکومت کو ایسی کوشش نہیں کرنی چاہئے جس سے اس کارہا سہا اعتبار بھی جاتا رہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ