ملک کے ہائی برڈ سیاسی نظام میں ریاستی اداروں کے درمیان ماورائے آئین اختیارات کی جنگ اس دوغلے سیاسی سسٹم کے اندر چھپے تضادات کا اظہار ہے۔ سیاسی مخالفین پر ریاستی جبر، سیاسی عدم استحکام اور انتشار ہائی برڈ سسٹم کی بائی پراڈکٹ ہیں۔
اس دوغلے سیاسی بندوبست میں انتظامیہ کا ایک حصہ یعنی مقتدرہ طاقت کا سر چشمہ بن چکی ہے۔ آج عوام کی منتخب پارلیمنٹ اور ن لیگی شہباز حکومت کے غیر موثر ہونے کا تاثرمضبوط تر ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ آئین و قانون کی محافظ اعلیٰ عدلیہ ، قانون سازی اور آئین میں ترامیم کے اختیارات اپنی جھولی میں ڈال کر سپر پارلیمنٹ بننا چاہتی ہے۔ اپوزیشن پی ٹی آئی حکومتی جماعتوں سے مذاکرات کرنے کی بجائے مقتدرہ سے تعلقات بحال کرکے ہائی برڈ سسٹم کو جاری رکھنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ حکومت، اپوزیشن، ریاستی ادارے اور عدلیہ ملک میں جمہوریت، آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو پامال کرنے کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اشرافیہ کے نمائیندہ افراد یا اداروں کو ملک یا عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اشرافیہ کو اپنے طبقاتی اور ذاتی مفادات کے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔
آئینی مقدمات میں اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلوں نے حکومتی اور مقتدرہ کی صفوں میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ حکومت اور مقتدرہ ان فیصلوں کو اپنے اختیارات میں مداخلت کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے بعض سیاسی فیصلوں نے حکومت، مقتدرہ اور عدلیہ کے درمیان کھلی محاذآرائی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ بعض آئینی و قانونی ماہرین بھی عدلیہ کے سیاسی فیصلوں کو ماورائے آئین تعبیر کر رہے ہیں۔ پاکستانی تاریخ میں اعلیٰ عدلیہ اور مقتدرہ کا گٹھ جوڑ ڈھکا چھپا راز نہیں ہے۔ یہ عدلیہ اور مقتدرہ کا غیر مقدس گٹھ جوڑ ہی تھا جس کی وجہ سے ملک میں مارشل لاؤں کو آئین کا لبادہ پہنایا جاتا رہا۔ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کا عدالتی قتل بھی مقتدرہ کی پشت پناہی کا شاخسانہ ہے۔ منتخب وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو شہید، میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی، اور جمہوری حکومتوں کا قبل از وقت خاتمہ بھی عدلیہ اور مقتدرہ کے بد نما کارناموں سے عبارت ہے۔ مگر آج ماورائے آئین مفادات اور اختیارات حاصل کرنے کی کشمکش نے مقتدرہ اور عدلیہ میں ٹکراؤ پیدا کر دیا ہے۔ جبکہ عدلیہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرنے لئے لئے شہباز حکومت مقتدرہ کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے۔
حکومت نے پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ایک جوڈیشل ریفارمز پیکج لانے کا اعلان کرکے اختیارات کی رسہ کشی کو تیز کر دیا ہے۔ جس میں چیف جسٹس کی نامزدگی، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی نامزدگی، آئینی عدالت کے قیام، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر میں اضافہ کرنے کے علاوہ متعد آئینی ترامیم شامل ہیں۔ شہباز حکومت اور اتحادی پی پی پی جوڈیشل ریفارمز پیکج کو انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات میں توازن قائم کرنے کا نام دے رہے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی اسے ججوں اور عدلیہ کے اختیارات پر قدغن لگانے کی بھونڈی کوشش قرار دے رہی ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت اور اپوزیشن پی ٹی آئی کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔
آئینی ترمیمی بل کو حکومت نے پارلیمانی کمیٹی اور پارلیمنٹ میں بحث و مباحثے کے لئے پیش کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ حکومت عجلت میں ایک دن کے اندر اندر قومی اسمبلی اور سینٹ سے ترامیم منظور کرانے کے منصوبے پر خاموشی سے کام کر رہی تھی۔ مگر جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جوڈیشل ریفارمز پیکج کو جلد از جلد پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے حکومتی منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے ۔ مولانا کی نیم رضا مندی اور فوراً تعاون نہ ملنے پر حکومت کو قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنا پڑے اور ساتھ ہی آئینی ترامیمی بل بھی مؤخر کرنا پڑا۔ خفگی کے عالم میں اب حکومت نے آئینی ترامیم کے لئے پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول جے یو آئی اور پی ٹی آئی سے اتفاق رائے پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے لئے حکومت کو مقتدرہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ فیض حمید فارمولا استعمال کرکے آئینی ترامیم تو بالآخر منظور کرا لی جائیں گی۔ مگرمولانا فضل الرحمان اس موقع کو اپنے سیاسی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے۔ مولانا مقتدرہ کے ساتھ حال اور مستقبل کے معاملات طے کرنے کے لئے یہ سنہری موقع کھونا نہیں چاہیں گے۔ کیونکہ پارلیمنٹ میں جے یو آئی کی حمایت کے بغیر آئینی ترامیم کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔
فیس بک کمینٹ