نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے آئین میں 27 ویں ترمیم پیش کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سارا عمل قواعد و ضوابط کے مطابق طے پائے گا ۔ اس دوران متعلقہ کمیٹیاں مسودے پر غور کریں گی اور شفاف طریقے سے سارے معاملات پارلیمانی روایت کے مطابق نمٹائے جائیں گے۔
تاہم اسحاق ڈار نے نہ تو یہ بتایا ہے کہ حکومت کب 27 ویں ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی منظور ی کے لیے کسی حتمی ٹائم فریم کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ اس ترمیم کے تحت آئین کی کون سے شقات کو کیوں تبدیل کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ البتہ نائب وزیر اعظم کا یہ بیان شاید گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کے اس اعلان کے بعد ضروری ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کے علاوہ صدر آصف زرداری کے ساتھ ستائیسویں آئینی ترمیم پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اس حوالے سے اپنی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس کے بعد کسی حتمی نتیجہ تک پہنچے گی۔
لگ بھگ ایک سال پہلے 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے سرگرم رول ادا کیا تھا۔ انہوں نے میڈیا میں اس ترمیم کے حق میں رائے ہموار کرنے کے لیے کام کرنے کے علاوہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ بھی کئی نشستیں کی تھیں۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان حکومت سے ناراضی اور تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کررہے تھے لیکن پارلیمنٹ میں رائے شماری ہونے تک وہ ترمیم کے حامی ہوچکے تھے۔ انہی کی ضد یا تجویز کی وجہ سے حکومت آئینی کورٹ بنانے کی ترمیم آئین میں شامل نہیں کراسکی تھی بلکہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ پر اکتفا کیا گیا تھا۔
تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں پر بندر بانٹ کے بعد اب حکومت اور اس کے اتحادیوں کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے تاہم سینیٹ میں اسے مولانا فضل الرحمان کی تائید درکار ہوگی۔ مولانا فضل الرحمان ابھی تک اس بحث میں نہیں کودے ہیں لیکن مناسب موقع پر وہ بھی اپنی سیاسی حیثیت کے مطابق سودے بازی کے لیے میدان میں نکل آئیں گے۔ اسی پس منظر میں تحریک انصاف کے لیڈروں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا گزشتہ روز ’ایکس ‘ پر 27 ویں ترمیم کے حوالے سے بیان درحقیقت رائے عامہ کا جائزہ لینے کی کوشش ہے۔ و رنہ اس ترمیم کے حوالے سے سیاسی پارٹیوں کے درمیان کئی ماہ سے مشاورت و بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ میڈیا میں بھی یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ حکومت معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے نئی آئینی ترمیم لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ سرگوشیاں درحقیقت مخصوص سیٹوں پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اضافی حصہ ملنے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں کیوں کہ اس بندربانٹ کے بعد ان دونوں پارٹیوں کی پارلیمانی پوزیشن مستحکم ہوگئی تھی۔
اسحاق ڈار نے سینیٹ میں خطاب کے دوران نئی آئینی ترمیم میں شامل تجاویز کا کوئی ذکر نہیں کیا البتہ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے ’ایکس‘ پر بیان کے حوالے سے کہا کہ وہ اسے پڑھ چکے ہیں۔ اور مانتے ہیں کہ جن پہلوؤں کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے،ان پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے بات واضح کرنے کی بجائے اسے بدستور معمہ بنائے رکھنا مناسب سمجھا ہے۔ دوسری طرف گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری نے ’ایکس ‘ پر ستائیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے وزیر اعظم کے ساتھ مشاورت کا ذکرکرتے ہوئے اس ترمیم میں شامل کچھ نکات کا حوالہ بھی دیا تھا۔ اس پیغام کے مطابق مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اور ججوں کے تبادلے کا اختیار شامل ہے۔ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں این ایف سی میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ اور آرٹیکل 243 میں ترمیم کی تجاویزبھی شامل ہیں۔ مجوزہ آئینی ترمیم میں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے اختیارات کی وفاق کو واپسی اور الیکشن کمیشن کی تقرری پر جاری تعطل ختم کرنا شامل ہیں۔
یہ سارے اہم معاملات ہیں۔ خاص طور سے این ایف سی کے تحت صوبوں کے مالی اختیارات کم کرنے کا معاملہ خاصا حساس ہوسکتا ہے۔ اسی لیے پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما اور سینیٹ کے سابق چئیرمین رضا ربانی نے کہا ہے کہ اگر آئین میں مجوزہ ترامیم منظور کرلی گئیں تو یہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خاتمے کے مترادف ہوں گی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وفاقی حکومت کی صوبائی خودمختاری سے متعلق مجوزہ آئینی ترامیم دراصل 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ موجودہ نازک سیاسی حالات میں صوبائی خودمختاری سے چھیڑ چھاڑ وفاق پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔ تاہم دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت سے نزدیک سینیٹر شیری رحمان نے اس معاملہ میں کوئی سنسنی خیزی تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سنٹرل کمیٹی میں مشاورت کے بعد ہی اپنی رائے دے گی لیکن صوبائی اختیارات کے بارے میں اس کی پوزیشن واضح ہے اور حکمران مسلم لیگ (ن) کو بھی اس کے بارے میں علم ہے۔
کسی آئینی ترمیم پر مباحثہ تو مثبت اور خوش آئیند ہونا چاہئے لیکن جس طریقے سے حکومت نے پیپلزز پارٹی کے چئیرمین کے ذریعے نئی ترمیم کے بارے میں ہیجان پیدا کیا ہے اور بحث و مباحثہ شروع کرایا ہے، اس سے بے بنیادی قیاس آرائیوں کا طوفان دیکھنے میں آرہا ہے۔ خاص طور سے بلاول بھٹو زرداری کے بقول آئین کی شق 243 میں بھی ترامیم زیر غور ہیں۔ یہ شق مسلح افواج، ان کی کمان اور ان پر وفاقی حکومت کے اختیارات کے حوالے سے ہے۔ اس لیے اس بارے میں بھی بال کی کھال اتارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس تناظر میں بہتر ہوتا کہ حکومت ستائیسویں آئینی ترمیم پر مباحث شروع کرانے سے پہلے اس ترمیم کا پورا متن عوام کے سامنے رکھتی تاکہ حکومت کی اصل پوزیشن اور اس پر مخالفانہ رائے دینے والوں کے دلائل کو سمجھنا آسان ہوتا۔ البتہ ترمیم کے مجوزہ مسودہ کے بغیر اس مجوزہ ترمیم پر بات چیت اور گفتگو اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے جو شاید ہی کبھی نشانے پر لگے۔
پاکستان میں 27 آئینی ترمیم پر بحث ایک ایسے موقع پر شروع ہوئی ہے جب امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو غزہ میں بین الاقوامی سکیورٹی فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی منظوری کی تجویز بھیجی ہے۔ اس تجویز کے مطابق سکیورٹی فورس کا مینڈیٹ کم از کم 2 سال کے لیے ہوگا۔ امریکی ویب سائٹ ’ایکسِیوس‘ کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرافٹ قرارداد میں مجوزہ فورس کے قیام کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرارداد امریکہ اور دیگر شریک ممالک کو غزہ کے نظم و نسق کے لیے 2027 کے اختتام تک سکیورٹی فورس تعینات کرنے کا وسیع اختیار دیتی ہے۔ اور اس مدت میں توسیع کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ یہ فورس ’غزہ بورڈ آف پیس‘ کے مشورے سے قائم کی جائے گی، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق یہ بورڈ بھی کم از کم 2027 کے اختتام تک قائم رہے گا۔ تجویز کے مطابق آئی ایس ایف کو سرحدوں کی سکیورٹی (اسرائیل اور مصر کے ساتھ)، عام شہریوں اور امدادی راہداریوں کے تحفظ، ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت اور شراکت داری کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔ آئی ایس ایف غزہ میں سلامتی کی ذمہ دار ہوگی، جس میں غزہ پٹی کو غیر عسکری بنانا شامل ہے۔ یہ فورس عسکری و دہشت گرد انفرااسٹرکچر تباہ کرے کی اور مستقبل میں کسی مسلح گروہ کو منظم ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔ ’ایکسِیوس‘کی رپورٹ کے مطابق حماس کو غیر مسلح کرنا بھی نئی فورس کا مینڈیٹ ہوگا ۔ آئی ایس ایف کو غزہ میں ’بورڈ آف پیس کو قابلِ قبول متحدہ کمان‘ کے تحت تعینات کیا جائے گا ۔اس سے پہلے یہ خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جس کے فوجی دستے غزہ کی امن فورس میں شامل ہوں گے۔ حکومت نے ابھی تک اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے لیکن اب اس اہم معاملہ پر سرکاری فیصلے عام کرنے کی بجائے ستائیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے قبل از وقت مباحث شرو ع ہوئے ہیں۔ ایسے میں سوال کیاجاسکتا ہے کہ حکومت غزہ امن فورس کے بارے میں بعض ایسے فیصلوں میں شامل ہورہی ہے جس کے لیے پاکستان میں رائے عامہ ہموار نہیں ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف تو ایک بیان میں اس خیال سے ہی کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے کہ پاکستانی فوج حماس کو غیر مسلح کرنے کے کام میں شریک ہوگی۔ پاکستانی مصنوعات
امریکی قرارداد اس بیس نکاتی امن منصوبہ کے عین مطابق ہے جو صدر ٹرمپ نے پیش کیا تھا اور اسی کے تحت غزہ میں جنگ بندی شروع ہوئی تھی۔ یہ منصوبہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود غزہ کے لوگوں کے لیے امن و سکون کا پیغام لایا تھا۔ اب کی اس کی نگرانی و تکمیل کے حوالے سے ہونے والے اقدامات میں اگر پاکستان اور اس کی فوج کا بھی حصہ ہوگا تو حکومت کو غیر ضروری مباحث کے ذریعے انہیں چھپانے کی بجائے، دوٹوک الفاظ میں اپنی پالیسی عوام کے سامنے رکھنی چاہئے۔
( بشکریہ ۔۔ کاروان ۔۔ ناروے )

