کسی بھی میزبان بورڈ کو حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے وینیو اور اپنی منشا کی پچ پہ مہمان ٹیم کی صلاحیتوں کا امتحان لے۔ پاکستان مگر اپنے اس اختیار کے ادراک میں بہت تاخیر کا شکار رہا ہے اور شاید یہ وہی تاخیر تھی جو پی سی بی کے اس ‘ردِ عمل’ کی بنیاد بنی۔متضاد کرکٹنگ فلسفوں اور متنوع پچز کی تخلیق میں الجھے الجھے، تین سال اوپر تلے اپنے ہوم گراؤنڈز پہ ناکامیاں جھیلنے کے بعد بالآخر جب پاکستان نے پچز میں نظریاتی بدلاؤ لانے کا فیصلہ کیا تو بورڈ کا یہ عزم بھی شاید عمل سے زیادہ ردِعمل کی سوچ پہ مبنی تھا۔
یہ ایسا تھا گویا پاکستانی کرکٹ کی نظریاتی اساس دو متحارب خانوں میں بٹ گئی ہو جہاں ایک طرف ‘سیکسی’ پیس کے بل بوتے پہ خوش نما فتوحات کا حامی گروہ تھا تو دوسری طرف موجودہ تھنک ٹینک کے اذہان تھے جو پیس کے جمالیاتی فضائل کی بجائے صرف جیت اور بیس وکٹوں کی کھوج پہ مرتکز تھے۔
تین سالہ ناکامیوں کا ازالہ کرنے کو جو فیصلے حالیہ تھنک ٹینک نے صادر کیے، وہ اپنے ردِ عمل میں اس حد تک بڑھے ہوئے تھے کہ اس نظریے کی پہلی آزمائش کے لیے ایک استعمال شدہ پچ برتی گئی اور دوسری آزمائش جس پچ پہ ہوئی، اسے الیکٹرک ہیٹرز سے گرما کر توڑا گیا تھا۔مگر سپن کی کھوج میں پچز کی تخریب کا یہ ذوق ایسا بڑھتا چلا گیا کہ اب پی سی بی کے پچ ماہرین فقط سست رفتاری اور توڑ پھوڑ کے نئے مدارج طے کرنے میں یوں محو نظر آتے ہیں کہ گیند اور بلے کے بیچ توازن کا بنیادی نقطہ ہی ان کی نظر سے اوجھل ہو چکا ہے۔
پچ بھلے سست ہو یا تیز، وہاں کم از کم باؤنس کی ایک حد تو ہونی چاہئے کہ جہاں سے بلے باز کی ساری قابلیت اور تکنیک صرف قسمت کے کمزور آسرے پہ ہی نہ رہ جائے بلکہ اسے برابر کے مقابلے کا کچھ تو موقع ملے۔سپن کی دھن میں بڑھے چلے جاتے تھنک ٹینک کو یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ایسا شدت پسند رویہ نہ صرف ان کے اپنے بلے بازوں کے لیے حرزِ جاں بنتا جا رہا ہے بلکہ سپنرز کے اپنے ہنر سے بھی ایک ناانصافی ہے کہ جنھیں وکٹ پانے کو سوچ بچار کرنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔
جس طرح کی پچ ملتان کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں سپنرز کو فراہم کی گئی ہے، اس پہ تو کوئی سٹریٹیجی گھڑنے اور پاپڑ بیلنے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہاں تو صرف بنیادی ڈسپلن اور رفتار کا بدلاؤ ہی بہت ہے۔ باقی کا سارا کام تو یہاں پچ کا کھردرا پن اور بے یقین باؤنس ہی کر ڈالے گا۔عاقب جاوید کا یہ موقف بالکل بجا ہے کہ اگر پیس کے لئے سازگار حالات رکھنے والے ممالک کی گرین ٹاپ پچز پہ کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تو پاکستان کی سپن دوست کنڈیشنز بھی اعتراضات کا موجب نہیں ہونی چاہیئیں۔مگر دقت فقط یہ ہے کہ پاکستان کی نئی پچز اب سپن کی محض دوست ہی نہیں رہیں بلکہ ایک اٹوٹ انگ سی بن چکی ہیں جہاں کسی بلے باز کا کوئی ہنر کچھ معنی نہیں رکھتا کہ ہونی بالآخر ہو کر ہی رہے گی۔
ایسے میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ میچ کے پہلے ہی دن پوری دو اننگز سمٹ گئیں اور محض 317 رنز کے عوض بیس وکٹیں حاصل ہو گئیں۔ فی وکٹ رنز کی ایسی حقیر شرح تو عموماً ان جنوبی افریقی کنڈیشنز میں بھی نہیں ہوتی جو اپنی دشواری کے سبب دنیا بھر میں معروف ہیں۔
پی سی بی دنیا پہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی ہوم کنڈیشنز میں فیصلہ کن پچز تیار کر سکتا ہے اور ان پہ جیت بھی سکتا ہے، مگر اپنی اس ہستی کو دنیا پہ ثابت کرنے کے جذبات میں پی سی بی اس لکیر سے بھی دو قدم آگے نکل گیا جہاں اسے رک جانے کی ضرورت تھی۔سپنرز کی افادیت محض 2.5 ڈگری کے ٹرن سے بھی بڑھ سکتی ہے اور ایشیا کی معروف ترین سپن پچز بھی کہیں چوتھے پانچویں دن جا کر 4 ڈگری سے زیادہ کا ٹرن لیتی ہیں۔مگر جس طرح سے پی سی بی ٹیسٹ کرکٹ کو آگے بڑھا رہا ہے، بعید نہیں کہ اگلے برسوں میں چار چار اننگز بھی ایک ہی دن میں ختم ہونے لگیں۔ بالآخر یہ میچ بھی تو اب فقط دو ہی مزید سیشنز کا مہمان نظر آتا ہے۔
( بشکریہ :بی بی سی )
فیس بک کمینٹ