کل میں نے ہیئر کٹنگ کے بعد کی اپنی ایک تصویر پوسٹ کی تو دوستوں نے محبت کی بارش برسا دی، سینکڑوں لائیک اور سینکڑوں ہی کمنٹ آئے ، کچھ کمنٹس میں ہیئر ڈریسر کی مہارت کا بھی ذکر تھا ۔۔۔۔اس سے مجھے ایک اور ہیئر کٹنگ یاد آ گئی ۔
1990 کا ذکر ہے جب میں آئی آر ایچ سی چوٹی زیریں میں نیا نیا میڈیکل آفیسر لگا تھا ۔ ایک دن میں نے ظفر گلیانی سے جو اپنا تعارف محمد ظفر این ڈبلیو ایم کہہ کر کراتے تھے یعنی نائیٹ واچ مین ( ہمارے سنٹر میں ایک عہدہ ڈبلیو سی بھی تھا یعنی واٹر کیریئر غلام اکبر ڈبلیو سی ) پوچھا یار یہاں کوئی اچھا ہیئر ڈریسر ہے میں نے کٹنگ کرانی ہے تو اس نے کہا ہاں استاد مختار حسین اچھا حجام ہے ، میں نے کہا تو آؤ پھر چلتے ہیں ، اس نے سر سے پاؤ ں تک مجھے دیکھا اور کہا صاحب آپ وہاں کیوں جائیں گے وہ آئے گا یہاں ، میں نے کہا وہاں سیلون میں زیادہ بہتر کٹنگ ہو سکتی ہے ۔ اس نے کہا سر آپ گزیٹڈ آفیسر ہیں ، چوٹی زیریں میں کوئی اور گریڈ سترہ کا افسر نہیں ہے ، ہیڈماسٹر صاحب سولہویں کے ہیں ، سینئر ہیں ہو سکتا ہے سترہویں کے ہوں لیکن یہ آپ کے عہدے کی شان کے خلاف ہے ، میں اسے بلا کر لاتا ہوں ۔
خیر کوئی ایک گھنٹے بعد استاد مختار حسین بمعہ آلات حجامی تشریف لائے اور دوران حجامت انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ سوائے لغاری سرداروں کے کسی کو ہوم سروس مہیا نہیں کرتے اور یہ بھی کہ سردار فاروق احمد لغاری ہوں یا جعفر خان لغاری ہوں ، سردار مقصود خان ہوں یا منصور خان سب صرف اسی سے ہی کٹنگ کراتے ہیں ۔ اس نے مجھے یہ بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں بتا دیا کہ وہ ظفر خان گلیانی کے ساتھ پرانے تعلقات کی وجہ سے یہاں آ گیا ہے اور پھر ظفر کے ذریعے اسے میرے خاندان کے بارے میں بھی پتہ چلا تو میرے چچا مولوی طالب حسین صاحب اور عبدالعلی خان صاحب کی وجہ سے بھی کچھ اس نے یہ مہربانی کی ہے ورنہ وہ ڈاکٹروں شاکٹروں کو لفٹ نہیں کراتا ، پولیس تھانے پر بھی وہ صرف وڈے تھانیدار کی حجامت بنانے جاتا ہے ، نکے تھانیدار اس کی دکان پر آتے ہیں ۔
خیر استاد مختار حسین بعد میں بھی آتے رہے لیکن یہ ضرور ہوا کہ اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے وہ پیشیاں دینے لگے ، کل صبح حاضری دوں گا یا کل شام کو انشاء اللہ ضرور ۔
ایک دن مختار حسین ہسپتال ٹائم کے دوران میں آ گیا ، کوئی ساڑھے گیارہ کا ٹائم تھا اس نے بتایا کہ صبح وہ سردار عطا محمد خان اور سردار جعفر خان کے خط بنانے کوٹھی پہ گیا تھا ، میں نے کہا استاد اس وقت تو مریض ہیں شام کو آ جانا لیکن شام کو اس نے سردار مقصود خان اور منصور خان کی کٹنگ کرنی تھی اور اگلے دن صبح میں نے ملتان جانا تھا ، ان دنوں ہماری فیملی ملتان میں رہتی تھی ۔ ہمارے سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سجاد سرور جو روزانہ ڈیرہ غازی خان سے آتے تھے اس روز نہیں آئے تھے تو میں نے اپنے میڈیکل ٹیکنیشن جاوید حسن اختر ( آج کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسن اختر غازی یونیورسٹی) سے کہا یار جاوید آپ ذرا میری جگہ بیٹھیں اور مریض دیکھیں میں ذرا یہ بھگتا لوں ۔ مختار حسین نے اپنے کیریئر کی سب سے تیز رفتار حجامت کی اور دوران حجامت سب سے کم گفتگو کا ریکارڈ قائم کیا ۔
کٹنگ کے بعد ظاہر ہے نہانا بھی تھا ۔ ابھی لباس تبدیل نہیں کیا تھا کہ گھر کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا ، میں قمیص کے بٹن بند کرتا ہوا باہر نکلا تو دیکھا کہ سامنے ایک بڑی گاڑی کھڑی ہے ، ہسپتال کا تمام سٹاف کھڑا ہے اور ایک بھاری بھر کم صاحب جن کی پشت میری طرف تھی کہہ رہے ہیں ایم او انچارج، ایم او ٹو ، ڈبلیو ایم او سب غائب ہیں اور یہ آئی آر ایچ سی ہے ( integrated rural health complex )
کسی نے کہا سر یہ ایم او ٹو ڈاکٹر محمد عباس صاحب ، انہوں نے مڑ کر مجھے اپنی بڑی بڑی بیل جیسی آنکھوں سے گھورا ، وہ ڈائریکٹر ہیلتھ ڈیرہ غازی خان ڈویژن ڈاکٹر عبد القیوم صاحب تھے ، گرج کر بولے کہاں تھے آپ ؟ میں نے کہا نہا رہا تھا ، بولے کیوں ؟میں نے کہا بال کٹوائے تھے ، انہوں نے سر سے پاؤں تک مجھے گھورا پھر ہاتھ میں پکڑے حاضری رجسٹر پر نظر ڈالی اورغصے سے بولے عجیب ہسپتال ہے انچارج غیر حاضر ہے ڈبلیو ایم او پتہ نہیں کب سے غیر حاضر ہے تے ایم او ٹو صاب وال کٹوا رہے نیں۔ میں نے کہا سر یہ غلط تو ہے لیکن میں نے پچاس سے زیادہ مریض دیکھے ہیں اور آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا کہ میں اپنی سیٹ سے اٹھا ہوں اور دراصل وہ حجام ۔۔۔
آپ کل میرے دفتر آئیں انہوں نے ایک بار پھر سر سے پاؤں تک مجھے گھورا
اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے ۔ اب میرے سٹاف کی باری تھی سب بولنا شروع ہو گئے ؛ سر تساں بادشاہ او
کہنا تھا سردار عطا محمد خان کو ڈرپ لگانی تھی ، سردار مقصود خان کو چیک کرنے گیا تھا ،سردار فاروق خان نے ہسپتال کے مسائل پر گفتگو کے لیے بلایا تھا ۔۔۔
میں مسکراتا ہوا اپنے دفتر میں چلا گیا ۔
دوسرے دن ڈائریکٹر آفس میں پیش ہوا ، ڈائریکٹر صاحب کے ساتھ دو ڈی ایچ اوز اور ہمارے اے ڈی ایچ او بیٹھے تھے ، میں سلام کر کے کھڑا ہو گیا ڈائریکٹر صاحب نے بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا اور پھر حاضرین سے مخاطب ہو کر بولے یہ ڈاکٹر محمد عباس صاحب ہیں میڈیکل آفیسر آئی آر ایچ سی چوٹی زیریں اور یہ ڈیوٹی ٹائم میں بال کٹواتے ہیں، میری طرف دیکھا کیوں بھائی ؟ میرے کچھ کہنے سے پہلے ڈی ایچ او صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا یہ تو کہیں گے کہ بال بڑھے بھی تو ڈیوٹی کے دوران ہیں۔
ڈائریکٹر صاحب بولے یار تم کوئی اچھا سا بہانہ نہیں بنا سکتے تھے طبیعت ٹھیک نہیں تھی ، گھر میں کسی کی طبیعت خراب تھی کچھ بھی ۔ میں نے کہا سر ایسا کچھ خیال ہی نہیں آیا شاید عادت نہیں ہے، اس وجہ سے ۔ کہنے لگے مجھے پہلے تو بہت غصہ آیا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ تمہیں کسی دور دراز بی ایچ یو میں پھینکوں گا لیکن پھر میں نے صرف اور صرف تمہارے سچ بولنے کی وجہ سے تمہارے خلاف کوئی بھی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا، آئندہ احتیاط کرنا ، ڈی ایچ او صاحب بولے سر یہ لڑکا ویسے بہت ریگولر اور حاضر باش ہے ۔
دلچسپ واقعہ تھا آپ کو سنا دیا ۔ ایک نتیجہ اس میں سے یہ بھی نکلتا ہے کہ تب تک مجھے جھوٹ بولنا نہیں آتا تھا ، یہ تو بعد میں جب سیاست صحافت ایکٹوزم شہرت ۔۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا آپ۔۔۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ

