کیا آپ کے علم میں ہے کہ آج کی اس دنیا میں کچھ ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا اور نہ کوئی فٹ پاتھ پر یا پلوں کے نیچے یا متروکہ مخدوش عمارتوں میں سوتا ہے ، کوئی علاج کی عدم دستیابی کے باعث نہیں مرتا اور نہ کوئی بزرگ گھر کے کسی تنہا تاریک گوشے میں سسک سسک کر زندگی گزارتا ہے اور نہ کوئی بچہ والدین کی غربت کی وجہ سے اچھی تعلیم سے محروم رہتا ہے۔
جی نہیں آپ غلط سوچ رہے ہیں ، وہاں غریبوں کے لیے دسترخوان نہیں لگتے اور نہ کوئی لنگر خانے ہیں ، نہ بے گھر لوگوں کے لیے کوئی ٹینٹ شیلٹر ہیں اور نہ خیراتی دوا خانے اور سکول ہیں۔ وہاں کے شہری ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنے گھروں میں خود اچھے کھانے پکا کر کھاتے ہیں ، ہر شہری کا علاج ریاست کی ذمہ داری ہے ، سب بچوں کو معیاری تعلیم ریاست فراہم کرتی ہے ، اگر کسی بزرگ کا خیال رکھنے والا کوئی نہ ہو تو اسے گھر جیسا ماحول اور نگہداشت ریاست فراہم کرتی ہے اور بیروزگاروں کو باعزت زندگی گزارنے کے لیے معقول وظیفہ دیتی ہے ۔
یہ سب سکینڈے نیوین ریاستوں میں ہوتا ہے یعنی ناروے سویڈن ڈنمارک فن لینڈ اور آئس لینڈ میں۔
اور اس فلاحی سماجی پالیسی کو نارڈک ماڈل کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
ان ممالک میں عرصہ دراز سے سیاسی استحکام ہے ، وہاں آئینی بادشاہت اور سوشل ڈیموکریسی کا امتزاج ہے ، معاشی نظام نا تو مکمل کیپٹلزم ہے اور نا خالص سوشلزم بلکہ دونوں کا آمیزہ ہے۔ پبلک سیکٹر بھی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر بھی اور دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ امیروں پر ٹیکس دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ حکومت پبلک سیکٹر کی آمدنی اور پرائیویٹ سیکٹر کے ٹیکسوں سے جو فنڈز حاصل کرتی ہے وہ سماجی خدمات پر خرچ کرتی ہے، اور یہ نہ سمجھیں کہ یہ محض چیریٹی ہے اور لوگوں کو سہولیات دے کر نکما بنایا جا تا ہے بلکہ یہ بھی ایک سرمایہ کاری ہے جو ریاست انسانوں پہ کرتی ہے کیونکہ انسان ہی تو سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے اور انسانی وسائل تمام دیگر وسائل سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں کو بہترین تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ، ہنرمند بنایا جاتا ہے اور سب شہریوں کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے ، نتیجتاً یہ سب کار آمد شہری بنتے ہیں اور کام کر کے ٹیکسوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ۔
اس سوشل ڈیموکریٹک سسٹم کا موازنہ دیگر بڑے نظاموں سے کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے یہ نظام سب سے بہتر ہے ۔
کمیونزم جو انسانی مساوات ،عظمت آدم اور شرف انسانیت کے نعروں کے ساتھ آیا تھا وہاں ہم نے دیکھا کہ لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان تو ملا لیکن ہر قسم کی شخصی آزادیاں سلب ہو گئیں ، تحریر تقریر اجتماع یونین اور تنظیم سازی کچھ بھی نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی مطلق العنان ڈکٹیٹر بن گئی ۔ پرائیویٹ سیکٹر کے مکمل خاتمے سے مسابقت کا خاتمہ ہوگیا جس کے نتیجے میں نئی اختراعات اور ایجادات متاثر ہوئیں ، کارخانے اور کاروبار پارٹی اور بیوروکریسی کے ہاتھوں میں آنے سے پیداوار متاثر ہوئی اور انجام کار اشیائے صرف اور خورد و نوش تک کی قلت پیدا ہو گئی ۔
دوسری طرف کیپٹلزم یا سرمایہ دارانہ نظام دیکھیں تو وہ تو سراسر انسان دشمن ہے ۔ سماجی تفاوت اور تفریق پیدا کرتا ہے ، وسائل چند لوگوں اور چند خاندانوں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں ، جمہوری نظام کے باوجود آمریت ہوتی ہے کیونکہ سرمایہ دار طبقہ دولت کے بل بوتے پر اقتدار میں آتا ہے اور جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ غربت و افلاس میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔ سرمایہ دار حکمران اپنے طبقے پر سے ٹیکس کم کر دیتے ہیں اور ان کی مراعات میں اضافہ کر دیتے ہیں، نتیجتاً سماجی خدمات تعلیم صحت پر خرچ کرنے کے لیے معقول رقم دستیاب نہیں ہوتی ، بیروزگاری، بیماری جہالت غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے۔ منشیات کا استعمال عام ہو جاتا ہے ۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو جاتا ہے ۔ ہر قیمت پر پیسہ بنانے کی پالیسی کے نتیجے میں ماحولیات کی تباہی ہوتی ہے ۔ مارکیٹوں اور سٹاک ایکسچینج میں استحکام نہیں رہتا ۔
حال اور ماضی قریب کے تجربات اور بین الاقوامی صورت حال پر نظر ڈالیں تو اس وقت نارڈک ماڈل ویلفیئر سٹیٹ سسٹم یا فلاحی ریاستی نظام ہی بہترین ریاستی ماڈل لگتا ہے۔
فیس بک کمینٹ

