Elif Safak کا نام ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے نیا نہیں ہوگا۔ ایلف بطور مصنف، کالم نگار، نقاد پوری دنیا میں ترکش ادب کے ذریعے اپنا لوہا منوا چکی ہے، مگر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایلف کا تعلق اصل میں فرانس سے ہے۔ایلف کو اگر آپ ترکش ادب کی بانو قدسیہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔اپنے 9 ناول اور کل 14 کتب کی وجہ سے آج ایلف پوری دنیا میں جانی جاتی ہے۔ راقم الحروف نے محو تجسس ایلف کے ایک ناول The Forty Rules of Love کا مطالعہ شروع کیا تو ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی جو اس ناول کے اختتام تک جاری رہی ۔ یہ ناول کسی بھی انسان کی زندگی بدلنے کو کافی ہے، حقیقت اور فکشن کا بہترین ملاپ لیے یہ کہانی ایک گھریلو خاتون ایلا سے شروع ہوتی ہے جس کے نزدیک زندگی بس مختلف رولز ادا کرنے کا نام ہے۔آپ پیدا ہوئے، بڑے ہوئے ،آپ کی شادی ہوئی ،بچے ہو گئے ،ان کو پالا اور پھر مر گئے۔ ایک عام سی زندگی ،اس زندگی میں محبت نام کی کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی گئی۔ایلا ایک آدم بیزار عورت ،وقت گزاری کے لیے ایک ادبی فرم میں نوکری کرتی ہے اور وہاں عزیز زہرا نامی مصنف کا ایک ناول Sweet Blasphemyپڑھنے پرلگا دی جاتی ہے۔عزیز زہرہ کا یہ ناول تیرھویں صدی میں سمرقند،کونیا اور بغداد کے شاہ شمس تبریزی ؒ اور روحانی شاگرد جلال الدین رومی ؒ کے گرد گھومتا ہے ۔ یہ ناول انسان کی زندگی کی اصل حقیقت آشکار کرتا ہے اور اسی حقیقت کو جاننے کی طلب میں ایلا کا رابطہ عزیز زہرہ سے ہوتا ہے اور ایلا کو عزیز زہرہ سے عشق ہوجاتا ہے اور وہ اس کی خاطر سب چھوڑنے کو تیار ہوجاتی ہے۔ تبریزی ؒ ایک درویش صفت کرامات کے مالک انسان ہیں، جنہیں خواب میں اپنا قاتل دکھا ئی دیتا ہے۔ خواب کی تعبیر تبریزی ؒ کے لیے بھیانک تھی ،اس لیے تبریزی ؒ ایک ایسے شخص کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں کہ وہ جس کے دل میں اپنا تمام روحانی علم اتار سکیں۔اس کے لیے وہ سمر قند سے بغداد کا سفر کرتے ہیں، اور پھر کونیا جا پہنچتے ہیں۔ اس درویش کو اپنی روحانیت کی میراث رومیؒ کی شکل میں مل جاتی ہے اور پھر وہ قاتل سامنے آتا ہے ،جو حقیقت میں رومی ؒ کے خاندان سے ہی ہوتا ہے۔ رومی ؒ اپنے روحانی استاد کے عشق میں صوفی شاعر بن جاتے ہیں اور روحانیت کے نشے میں خدا سے لو لگا لیتا ہیں،اور یوں درویش کا دیا عشق مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر شاعری کی شکل میں عشق کے چالیس اصول بن کر ادب کی میراث بن جاتا ہے۔ کہانی کا اصل پہلو جسمانیت سے روحانیت کا سفر ہے۔ اس ناول کا سب سے جاندار کرادار خود شاہ شمس تبریزی ؒ اور عشق کے چالیس بنیادی اصول ہیں جو کسی بھی انسان کی زندگی بدلنے کو کافی ہیں۔ان میں سے چند ایک کا مطالعہ کرنے کے بعد ایلا کی طرح ہر انسان کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ جو زندگی جی رہا ہے وہ مادیت سے بھرپور ہے،اس میں محبت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، جبکہ اصل زندگی ہی محبت ہے ،جو کسی بھی مادیت سے جنم لیتی ، روح کا رخ کرلیتی ہے اور پھر عشق کا روپ دھار لیتی ہے اور انسان کو خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ پھر دل کا رابطہ براہِ راست اپنے رب سے ہوتا ہے، اس پر وجد طاری ہوجاتا ہے اور وہ خود کو فنا کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتا ہے۔ عشق کے یہ چالیس اصول اصل زندگی کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ یہ اصول جلال الدین رومی ؒ کی شاعری سے حاصل کیے گئے ہیں اور ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ جس طرح ہم خدا کو دیکھتے ہیں، دراصل ہم خود کو ویسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اگر تم سچائی کا راستہ ڈھونڈنا چاہتے ہو تو دل کی سنو ،اور دماغ کو خاموش رہنے دو کیونکہ جس کے دل میں خدا بس گیا،اس کے دل ہی اسے سچ تک لے جائے گا،کیونکہ جس خدا کو تم مسجد،مندر میں ڈھونڈتے ہو ،وہ تمہارے دل میں بستا ہے۔اسی طرح ذہانت اور عشق دو مختلف چیزیں ہیں،ذہانت تمہیں کمزور بناتی ہے ،جب کہ عشق طاقتور بنا دیتا ہے۔ تنہائی اور عشق کی تنہائی میں فرق جاننے کی جہد کرو،تنہائی وجود کا نام ہے ،جبکہ عشق کی تنہائی میں تمہارا ضمیر تمہارے ساتھ رہتا ہے،زندگی کو جتنا بھی کٹھن پاؤ گے ، یہ جان لو گے کہ خدا جب ایک در بند کردیتا ہے ،تو کئی اور در کھولتا چلا جاتا ہے۔بس خدا سے صرف صبر سیکھو،تمہیں صبر پر خدا سب عطا کرتا ہے۔ سمتوں کے تعین میں یہ جان لو کہ مشرق ، مغرب ، شمال ، جنوب کوئی سمت نہیں ہوتی، اصل سمت صرف تمہارا دل ہے کہ جس میں رب رہتا ہے۔ اگر تم زندگی پانا چاہتے ہو تو ایک بچے جننے والی سے سبق حاصل کرسکتے ہو، وہ جانتی ہے کہ زندگی کو جنم دینے کے لیے شدتِ درد ضروری ہے، اگر درد نہیں ہوگا ،تو زندگی کا وجود نہیں ہوگا۔زندگی میں تبدیلی کی مخالفت مت کرو،تمہیں کیا معلوم جس کو تم اپنے لیے الٹا سمجھ رہے ہو ،وہی تمہارے لیے رب کا بھیجا سیدھا ہو۔ تم زمین سے کائینات تک کا بھی سفر کرلو،تم اصل حقیقت کو اپنے اندر پاؤ گے،اسی طرح اگر تم دوسروں کے ساتھ اپنا برتاؤ بدلنا چاہتے ہو تو پہلے اپنا برتاؤ دوسروں کے ساتھ بدل ڈالو۔ تم یہ جانتے ہو کہ خدا نے تمہارے اندر اپنی روح پھونک رکھی ہے، تم اپنے اندر کھو کر اس روح کو کھوج ڈالو، خدا تمہیں خود مل جائے گا۔ تم جس کے لیے جو کرتے ہو یا جو بولتے ہو،وہ سب لوٹ کر تم تک آتا ہے، کیونکہ ان سب کا نقش تمہیں ان پتھروں پر ملتا ہے ،جو تمہارے گرد اس خدا کی عبادت میں ہیں ، جو تمہارے اندر موجود ہے۔ ماضی صرف ایک یاد ہے اور مستقبل ایک سراب ہے، آج میں جینا سیکھو،وہی زندگی ہے ، اس سے پہلے بھی سب مٹی تھا ،اس کے بعد بھی سب مٹی ہے۔تم اگر یہ چاہتے ہو کہ تمہارا ایمان چٹان کی طرح مضبوط ہوجائے تو دل کو موم کی طرح پگھلنے پر مجبور کردو۔خدا جو کرتا ہے بہت خوبصورت کرتا ہے،اس لیے اپنا انتقام بھی اس پر چھوڑ دو۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تم ہمیشہ کے لیے انسانِ کامل ہوجاؤ تو خود کو موت سے پہلے اپنے رب کی راہ پر فنا کر دو۔ یہ چالیس اصول اس ناول کی اصل جان ہیں ،جن کے بارے میں خود ایلف کا یہی موقف ہے کہ اس نے جو علم حاصل کیا، اس کو فکشن کے ذریعے زبانِ زدِ عام کیا۔ ایلف شفاک کا یہ ناول، ایلف کے ایوارڈ یافتہ The Bastard of Istanbul سے زیادہ جاندار ہے، اور اس پڑھنے کے بعد انسان پر زندگی کی حقیقت ایک الگ انداز میں کھل جاتی ہے۔ عشق میں سرشار اگر ادب کے پیاسے ایلف کے دیے نظریہ کو سلطان باہو کی شاعری میں ڈھونڈنے کی جہد کریں تو آپ کو تبریزی ؒ کے عشق کے چالیس اصولوں کی جھلک کچھ یوں دکھائی دے گی،
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویاں کدی اپنے آپ نوں پڑھیا ای نہیں
جاں جاں وڑنا مندر مسیتی کدی من اپنے وچ وڑیا ای نہیں
ایویں روز شیطان نال لڑنا ایں
کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نہیں
بلھے شاہ آسمانی اڈیاں پھڑناں ایں
جیڑا کھر بیٹھا انوں پھڑیا ای نہیں
فیس بک کمینٹ